ایٹمی دھماکے اور پاکستان

پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن جب بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کئے۔ اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا جبکہ یوم تکبیر کا نام کراچی کے ایک رہائشی مجتبی رفیق نے اپنے ایک خط میں اس وقت کے وزیر اعظم کو خط میں بیجھا اور اسی طرح پھر 28مئی یوم تکبیر کے نام سے منایا جانے لگا۔ یوں تو بھارت اپنے قیام سے ہی جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھتا رہا ہے۔ عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج ، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک 1974 میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطّے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا مزید یہ بھی کہ بھارت ایٹمی ?قوت بنّے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کرچکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطہ میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا تھا۔ اس لئے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔

بھارت نے مئی 1998 میں ایک بار پھر ایٹمی دھماکے کیے اور اس کے بعد بھارت میں ہر سطح پر پاکستان کے لیے دھمکی آمیز لہجے کا استعمال شروع ہو گیا۔ اگرچہ پاکستان اس وقت تک ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا، لیکن اس کا واضع طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم جناب نواز شریف نے تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود پاکستان کو ایک تسلیم شدہ ایٹمی طاقت منوانے کا یہ سنہری موقعہ ضائع نہیں ہونے دیا اور 28 مئی کو چاغی میں 5 دھماکے کر کے بھارتی سیاستدانوں کا منہ بند کروا دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا عزم تھا کہ ’’ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے ‘‘ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی کا کارنامہ تھا کہ جہاں ایک طرف انہوں نے فرانسیسی حکومت کو جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی تجدید پر آمادہ کیا، وہیں انہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو درست سمت میں گامزن کرنے کیلئے جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام (قادیانی) کو بھی برطرف کر دیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو کہ اْس وقت ہالینڈ میں مقیم تھے کو پاکستان بلواکر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی ذمہ داریاں سونپیں،بھٹو جس تیزی سے پاکستان کا جوہری پروگرام بڑھا رہے تھے وہ امریکہ اور صہیونی لابی کے نزدیک کسی طور بھی قابل قبول اور قابل معافی جرم نہ تھا،چنانچہ 1976ء میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجرنے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی دی کہ اگر تم نے ایٹمی ری پراسسنگ اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے منصوبہ پر کام جاری رکھا تو ہم تمہیں مثال عبرت بنا دیں گے لیکن قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کیسنجر کی اس دھمکی کے باوجودپاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رکھا کیونکہ بھٹو کے نزدیک اْن کی جان سے زیادہ ملک و قوم کی سلامتی اور بقاء زیادہ اہمیت کی حامل تھی جو پہلے ہی بھارتی ایٹمی پروگرام کی وجہ سے شدید خطرے میں تھی،دوسری طرف بھٹو صاحب کے حکم پرعالمی شہرت یافتہ مایہ ناز ایٹمی سائنسدان اور پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے با نی و معمارڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انتہائی نامساعد حالات میں پاکستان کے جوہری پروگرام کا آغاز کیا،مشکل ترین حالات میں جوہری پروگرام کی تشکیل،تعمیر اور تکمیل کی یہ داستان بھی اﷲ تعالیٰ اوراْس کے حبیب کریم ہی کے بے پایاں فضل و کرم کا ثمر ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر نگرانی1976ء میں پاکستان کے سائنس دانوں نے کہوٹہ لیباٹری میں یورنیم کی افزودگی کا کام شروع کیا اور 1982ء تک پاکستانی سائنسدان 90% افزودگی کی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے ،اوربالآخر وہ دن بھی آیا جب قومی و ملی جذبوں سے سرشار ڈاکٹر عبدالقدیرخان اور اْن کی پوری ٹیم کی اپنی انتھک محنت نے 28مئی 1998ء کو بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف وطن عزیز کو ناقابل تسخیر قلعہ بنادیا بلکہ قوم اور مسلح افواج کے مورال کوبھی آسمان کی بلند یوں پرلے گئے اور پوری قوم کے اعصاب سے ہندو بنیئے کے خوف کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا،ڈاکٹر عبدالقدیر اور اْن کی ٹیم کے اِس عظیم کارنامے کی بدولت آج 28مئی 1998ء ا دن پاکستان کی تاریخ میں ’’تحفظ نظریہ پاکستان اور تکمیل دفاع پاکستان کی تاریخ کا دن‘‘ اور’’ یوم تکبیر ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

آج پاکستان کا جوہری پروگرام اور ایٹم بم جو کہ پورے عالم اسلام کا جوہری پروگرام اور ایٹم بم ہے کے خلاف بھارت ،اسرائیل ، امریکہ اور اس کے حواری سازشوں میں میں مصروف ہیں اوروہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے گرد گھیرا تنگ کررہے ہیں،ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو جوہری صلاحیت سے محروم کردیا جائے، آئے دن کوئی نہ کوئی فتنہ ساماں کہانی مغربی پریس کی زینت بنتی رہتی ہے،بے سروپا شوشے اڑائے جاتے ہیں کہ پاکستان ایک غیر ذمہ دار ملک ہے اور اس کے ایٹمی اثاثے کسی بھی وقت القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند عناصر کے ہاتھ لگ سکتے ہیں،سب سے زیادہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ جو ممالک پاکستان کے ایٹم بم پر ’’اسلامی بم ‘‘ کی پھبتی کستے ہیں ، اِن کے نزدیک امریکہ برطانیہ اور فرانس کے ایٹم بم ’’عیسائی بم‘‘ نہیں ہیں ،چین اور روس کے بم ’’کمیونسٹ بم‘‘ نہیں ہیں، بھارت کا ایٹم بم ’’ہندو بم ‘‘نہیں ہے اور نہ ہی اسرائیل کا ایٹم بم ’’یہودی بم‘‘ہے۔

اس کھلے تضاد اور دو عملی کی اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت روز اول سے بھارت جیسے دشمنوں اور امریکہ جیسے نام نہادوستوں کیلئے سوہان روح بنی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تیس سال کے دوران پاکستان بار بار امریکی پابندیوں اور مخالفانہ پروپیگنڈے کا شکار ہوا،حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی نرسری اور ناکام ریاست قرار دینے کے امریکی بیانات بھی اسی سلسلے کی کڑی تھے تاکہ انتہا پسندوں کے قبضے کا شور مچا کر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول حاصل کیا جاسکے،ماضی میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے خلاف الزام تراشی بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھی اور اسلام آباد پرطالبان کی چڑھائی کا شور بھی اسی لئے مچایاگیا، دنیا کو یہ بھی تاثر دیا گیا کہ طالبان کی نظریں ہمارے ایٹمی اثاثوں پر ہے،جبکہ حال ہی میں امریکی حکومت نے ایک خصوصی فورس کی تشکیل اور پاک افغان سرحد پراْس کی تعیناتی بھی صرف اس مقصد کیلئے کی ہے کہ وقت ضرورت پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول حاصل کیا جاسکے، امریکہ اپنے علاقائی مفادات، اسلام مخالف عالمی ایجنڈے اور بھارت و اسرائیل کیلئے خطرہ تصور کرتے ہوئے پاکستان اورایران سمیت کسی بھی اسلامی ریاست کو ایٹمی صلاحیت کا حامل دیکھنا نہیں چاہتا۔

28 مئی 1998ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی اور دوسرے قومی سائنسدانوں کی معیت میں جب میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے تو پورا ملک خوشی و مسرت سے جھوم اٹھا۔ عوام نے شکرانے کے نوافل ادا کئے۔ امریکہ نے وزیراعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کیلئے اپنی کوششیں آخری وقت تک جاری رکھیں مگر وزیراعظم نواز شریف نے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی سے صاف انکار کر دیا۔ دھماکے کرنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلیویڑن پر اپنی تاریخی تقریر کی اور انہوں نے بجا طور پر یہ بات کہی کہ ہم نے بھارت کا حساب بیباک کر دیا۔ بزدل دشمن ایٹمی شب خون نہیں مار سکتا۔ دفاعی پابندیاں لگیں تو پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ اقتصادی پابندیاں لگیں تو بھی سرخرو ہوں گے۔ ایٹمی دھماکے کے فوراً بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جناب مجید نظامی کو ٹیلی فون پر مبارکباد دی اور انہیں نشان پاکستان دینے کا اعلان کیا۔ جناب مجید نظامی نے پوچھا کہ مجھے یہ اعزاز کیوں دیا جارہا ہے تو وزیراعظم نے کہا کہ ایٹم بم بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اور ایٹمی دھماکہ کروانے پر آپ کو نشان پاکستان کا اعزاز دیا جارہا ہے۔ بلاشبہ جناب مجید نظامی نے 70 برس سے بطور صحافی اور گذشتہ 50 برس سے بطور مدیر روزنامہ نوائے وقت بے باکی‘ جرأت اور ثابت قدمی سے ہر اہم ایشو پر قوم کی رہنمائی کی ہے۔ یہ ایک جہد مسلسل ہے جس کو کوئی مثال نہیں ملتی۔ الحمدﷲ ! آج 28 مئی کو یومِ تکبیر منایا جارہا ہے۔ یہ یومِ تفاخر ہے اور ہماری قومی تاریخ کا انمٹ باب ہے۔
Muhammad Furqan
About the Author: Muhammad Furqan Read More Articles by Muhammad Furqan: 45 Articles with 89376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.