بابری مسجد سے قلندری مسجد تک

ہندوستانی مسلمان ایک عرصے سے منظم اورمنصوبے بند سازشوں ‘محرومیوں اور عتابوں کے شکار ہوتے رہے ہیں۔ انگریزوں کے عہد میں سب سے زیادہ تباہ ہونے والے بھی مسلمان ہی تھے اور آزاد ہندوستان کی صورت حال بھی یہی ہے ۔وقت بے وقت حکومتیں انھیں آلہ مشق بناتی رہتی ہیں ۔جان و مال کے ساتھ ان کے مذہبی مقامات کی تو ہین اور ان پر بد نگاہی کی مذموم رسم بھی انجام دی جاتی ہے ۔جس سے جان و مال کی تباہی سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے اور آدمی کا ایمان چھلنی ہوجاتاہے۔ آزاد ہندوستان میں ہندی مسلمانوں پر ایک وقت وہ آیا جب مغلیہ عہد کی یادگاراورصدیوں سے قایم بابری مسجد‘6دسمبر1992کوایک گہری سازش کے تحت شہید کر دی گئی اور مرکزی و ریاستی حکومت دیکھتی ہی رہ گئیں۔ نہ صرف یہ بلکہ شہید بابری مسجد کے غم میں تڑپنے اور مظاہرہ کر نے والے مسلمانوں کو بھی تباہ و تاراج کیا گیا ۔ پورے ملک میں منظم اور منصوبہ بند فسادات کیے گئے جن کے جواب میں1993کے بدنام زمانہ’ ممبئی بم دھماکے‘ ہو ئے پورے ملک میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو فسادات میں مار دیا گیا۔ یہ تاریخ کا ایسا زخم تھا جسے مسلمانوں نے نہ جانے کیسے کیسے بر داشت کیا۔کتنے گھر تباہ ہو ئے اور کتنے گھروں کے چراغ گل ہو ئے مگر اس وقت کی حکومتوں پر اس کا کو ئی اثر نہیں ہوا‘یوپی حکومت تو خیر فسطا ئی ذہنیت والی تھیہی‘ مرکزی حکومت بھی اس ستم گری میں کسی سے پیچھے نہیں تھی ۔وہ مسلمانوں کو فنا کر نے کے لیے فسطائی طاقتوں کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔مسجد کیشہادت کے وقت اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ ‘پوجا ارچنا کررہے تھے ۔آبروئے صحافت جناب کلدیپ نیر صاحب کے مطابق ‘جب نرسمہا راؤ کو بتایا گیا کہ ’سر مسجد شہید ہو گئی ‘تب کہیں جاکر ا نھوں نے پوجا سے سر اٹھایا‘گویا ان کی منو کامنا پوری ہو گئی اور ایک آرزو بر آئی تھی جس کی وہ برسوں سے تمنا کر رہے تھے۔‘(بین السطور)

نر سمہا راؤ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ شرپسندو ں کو ملک میں درندگی پھیلانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا ۔وہ ہاتھوں میں ترشول اور بھگوا جھنڈا لے کر ’جے رام ‘کے نعرے لگاتے ہو ئے پورے ملک میں فساد مچاتے رہے ۔ اس دوران کتنی مسجدیں شہید ہو ئیں ‘کتنے مذہبی مقامات کی بے حرمتی کی گئی مسلمانو ں کے جذبات مجروح ہو تے رہے اورکتنے جیالے زندگی سے ہاتھ دھوتے رہے ۔الغرض انھوں نے ملک میں خوب فساد مچایا اورکمزور وں پر قیامت برپاکی۔

خدا خدا کر کے یہ ہنگامے فرو ہو ئے ‘حالات بہتر ہونے لگے ‘برباد مسلمان آباد ہونے لگے۔مگر شرپسندو ں کو پھر ان کا جینا رہنا راس نہ آیااور ان کے سینوں میں جلن اور آنکھوں میں چبھن ہونے لگی ‘اس وقت کی حکومتوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اورپھر مسلم زیر عتاب تھے ‘مسلم اکثریتی علاقو ں میں خون بہہ رہا تھا اور بڑے لوگ ان کے قتل ناحق پر صرف افسوس کر رہے تھے ‘ان میں اتنی غیرت نہیں تھی کہ شرپسندوں کی پشت پناہی کر نے والی حکومتوں کے گریبان پکڑکر ان سے ناحق مسلمانوں کے قتل کا حساب لیتے۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ وہ قاتلوں کو ہی منصف مانتے رہے اور ان سے انصاف کی فریاد کرتے رہے ‘بھلا آگ پانی سے سمجھوتہ کرسکتی ہے ؟مگر

بھاگلپور میں فساد ہو ئے ‘ہاشم پورہ و ملوانہ میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ‘جمشید پور ‘مرادآباد ‘حیدرآباد کہاں کہاں مسلمانوں کے خون کو نہ بہا یا گیا آخر میں گجرات میں وہ تباہی مچائی گئی کہ خدا کی پناہ ماؤں کے پیٹ چیر کر ان کے بچے ہواؤ میں اچھال دیے گئے۔

مسلمان اس ملک میں صرف انصاف کی امید پر زندہ رہے اور موت سے مقابلہ کر تے رہے مگر انھیں سوائے محرومی کے کچھ نہیں ملا ۔ان کی مسجدیں شہید ہو ئیں‘ان کے مذہبی مقامات کی توہین ہوتی رہی۔بابری مسجد پر مظالم کا سلسلہ جاری رہا اور پھر ایک دن اکتوبر 2010کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے اسے حکومتوں کے اشاروں پر غیر مناسب طو ر پرتین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ جس میں بابری مسجد کی زیادہ تر زمین ہندوں کو دے دی گئی اور مسلمان دیکھتے ہی رہ گئے۔یہ تقسیم ‘بڑوں کی بات تو چھوڑو بچوں کو بھی نا مناسب لگی ‘مگر مسلمان جو شاید دھوکہ کھانے کے لیے ہی بنے ہیں دھوکہ کھاگئے شدید دھوکہ وہ آج تک اس امید میں جی رہے ہیں کہ ہندوستان میں ایک دن وہ آئے گا جب انصاف کا بول بالا ہوگا ۔

شہیدبابری مسجد کے زخم آج بھی تازہ ہیں کہ راجستھان کی کانگریس حکومت نے بھیلواڑہ شہر سے 8کلومیٹر دور تین پہاڑیوں پر واقع تقریباً 600سالہ قدیم اور تاریخی قلندری مسجد کومحض زمین مافیاؤں کے مطالبے پر شہید کر وا د یا۔اطلاعات کے مطابق ’جندل اسٹیل کمپنی ان پہاڑیوں میں کان کنی کر رہی تھی کہ اچانک مسجد ان کے کام میں رکاوٹ بنی تو انھوں نے ریاستی حکومت کو 65لاکھ روپے دے کر مسجد کے انہدام کی درخواست کی جسے حکومت نے بلا پس و پیش قبول کر لیا اور اس کے انہدام کے لیے بھیلواڑہ جامع مسجد کے ایک’کانگریسی ‘امام سے فتوا بھی دلوادیا ۔اس ایمان فروش مولوی نے اس ہدایت اور حقیقت کے باوجود کہ ’جہاں ایک مرتبہ مسجد بن جا ئے وہ مسجد ہی رہتی ہے اور اس کی حرمت قایم رہتی ہے ‘اس کے انہدام کا فتوا یہ کہہ کر جاری کر دیا کہ ’ضرورت کے پیش نظر مسجد کو شہید کیا جاسکتاہے۔‘الامان والحفیظ!

اور قلندری مسجد دنیا سے ناپید کر دی گئی حالانکہ اس کا کو ئی قصور نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی متنازعہ مقام پر بھی تھی اسی طرح نہ ہی وہاں کو ئی نام نہاد رام کرشن کا ڈیرا یا مندر کا بد نما ڈھانچہ تھامگر اشوک گہلوت حکومت نے مسلمانوں‘ملّی تنظیموں اور سیکولر خیال کے لوگوں کی شدید و مخالفت کے باوجود اسے شہید کر ادیا ‘نہ صر ف شہید کرایا بلکہ وہاں تعمیراتی کاموں کی اجازت بھی دیدی ۔گہلوت حکومت کو ذرا بھی شر م نہیں آئی اور نہ احساس ہوا کہ اس سے ہزاروں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے جذبات وابستہ ہیں ان سے کھلواڑ نہیں کر نا چاہیے ۔ شرم کیوں آتی جب اس نے یہ سب کارنامے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ نوین جندل کا قرب حاصل کر نے کے لیے کیے تھے پھر کیسے اسے کسی کے جذبات و احساسات کا خیال ہوسکتا تھا۔

یہ ہیں ’بابری مسجد سے لے کر قلندری مسجد تک‘ کانگریس کے سیاہ نامے جنھوں نے پورے ملک میں روسیاہی پھیلا رکھی ہے آزاد ہند میں انارکی و انتشار کا عالم بپا کر رکھا ہے۔ان روشن اور واضح حقائق کے بعد بھی کانگریس کہتی آرہی ہے کہ وہ سیکولر اور مسلم دوست جماعت ہے۔ وہ آج بھی خودکومسلمانوں کا ہمدرد کہتی ہے اور خود کو سیکولر کہتے نہیں تھکتی۔ حالات چاہے کچھ بھی کہتے ہوں ‘مسجدوں کو شہید کر نے کی ذمے دارچاہے کتنے ہی فسطائی طاقتیں ہوں ‘مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑکر نے میں فرقہ پرستوں کا چاہے کتنا بھی رول ہو مگر کانگریس حکومت ان سے الگ نہیں ہے ‘وہ ان کی برابر کی شریک ہے ‘کہیں تو کہیں تو ان سے بھی دو قدم آگے ہے۔

راجستھان میں یہ سب کچھ ہوا ‘سپریم کورٹ نے خوب گلا پھاڑا اوربھیلواڑہ کے مسلمانوں کے مطالبے پر مجرمین کے خلاف کڑی کارروا ئی یقین دہا نی کر ا ئی اور راجستھان کے محکمہ جنگلات و جندل کمپنی کو سخت نوٹس بھی بھیجا۔ خداجانے یہ سچ بھی ہے کہ نہیں ‘یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی ہزاروں خواہشیں مٹی میں مل گئیں اور سپریم کورٹ نے کانگریس کے دباؤ میں آکر نہ صرف زبان بند کی بلکہ ’فایل ‘بھی بند کر دی اور مسلمان انصاف کا انتظا رکرتے رہ گئے ۔یہ ہے ہندوستان میں مسلمانوں کی صورت حال اور کانگریس کا سیکولرزم جو بار بار مسلمانوں کا گلہ کاٹ رہا ہے اس کے باوجود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس سے وابستہ ہے اور اسے اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔

احساس
شہیدبابری مسجد کے زخم آج بھی تازہ ہیں کہ راجستھان کی کانگریس حکومت نے بھیلواڑہ شہر سے 8کلومیٹر دور تین پہاڑیوں پر واقع تقریباً 600سالہ قدیم اور تاریخی قلندری مسجد کومحض زمین مافیاؤں کے مطالبے پر شہید کر وا د یا۔اطلاعات کے مطابق ’جندل اسٹیل کمپنی ان پہاڑیوں میں کان کنی کر رہی تھی کہ اچانک مسجد ان کے کام میں رکاوٹ بنی تو انھوں نے ریاستی حکومت کو 65لاکھ روپے دے کر مسجد کے انہدام کی درخواست کی جسے حکومت نے بلا پس و پیش قبول کر لیا اور اس کے انہدام کے لیے بھیلواڑہ جامع مسجد کے ایک’کانگریسی ‘امام سے فتوا بھی دلوادیا ۔اس ایمان فروش مولوی نے اس ہدایت اور حقیقت کے باوجود کہ ’جہاں ایک مرتبہ مسجد بن جا ئے وہ مسجد ہی رہتی ہے اور اس کی حرمت قایم رہتی ہے ‘اس کے انہدام کا فتوا یہ کہہ کر جاری کر دیا کہ ’ضرورت کے پیش نظر مسجد کو شہید کیا جاسکتاہے۔‘الامان والحفیظ!
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62316 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More