قومی زبان کسی بھی قوم کی شناختی
زبان ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی قوم میں بولی جانے والی زبانوں، زبانوں کے لہجے
یا پھر مجموعی تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنے پیش روﺅں کی طرح عوامی جمہوریہ
چین کے موجودہ وزیراعظم نے بھی دورہ پاکستان کے دوران اپنی قومی زبان میں
بات کرکے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی بلکہ ایوان بالا میں خطاب کرکے
پاکستان میں چینی زبان کے فروغ کیلئے ایک ہزارہ اساتذہ کو تربیت دینے اور
اس مقصد کیلئے ادارے قائم کرنے کا اعلان بھی کر ڈالا۔ چین کے وزیراعظم نے
ایوان بالا سے اپنی قومی زبان میں خطاب کرکے نہ صرف زندہ قوموں کو یہ سوچنے
پر مجبور کر دیا کہ دوسروں کی زبان اور ثقافت اپنانے والے ہمیشہ ادھورے ہی
رہتے ہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے سابق وزیراعظم چو این لائی کے اُس تاریخی
جملے کو بھی زندہ کر دیا جب ایک غیر ملکی وفد سے ملاقات کے دوران اُن سے
انگریزی بولنے کو کہا گیا تو اُن کی طرف سے ایک جواب آیا جو تاریخ کے سینے
پر ہمیشہ کیلئے رقم ہو گیا۔ وہ جواب یہ تھا کہ ”چین گونگا نہیں ہے۔“ صرف
یہی نہیں بلکہ 2006ءمیں جب چینی صدر ہوجن تاﺅ پاکستان آئے تھے تب بھی انہوں
نے کنونشن سنٹر میں پاکستانی قوم سے اپنی قومی زبان میں خطاب کیا تھا، جبکہ
پاکستان کی جانب سے سٹیج سیکرٹری سے لے کر تقریب کے آخری مقرر تک ہر ایک نے
اپنی قومی زبان کے بجائے انگریزی زبان میں خطاب کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی زبان کی اہمیت آج کی دنیا میں مسلمہ ہے۔ یہ
کہنا درست نہ ہوگا کہ انگریزی کو بالکل ہی فراموش کر دیا جائے بلکہ فی
زمانہ انگریزی کا ایک زبان کے طور پر سیکھنا بہت ضروری ہے۔ بحیثیت مسلمان
ہمیں عربی زبان پر بھی عبور ہونا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی قومی
زبان کی اہمیت ویسی ہی رہنی چاہئے جیسی کہ باقی ممالک میں اپنی زبان کو
اہمیت دی جاتی ہے۔ انگریزوں نے جب برصغیر چھوڑا وہ یہاں اپنے پیچھے بہت کچھ
چھوڑ کر چلے گئے جن میں ایک انگریزی زبان بھی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان
دونوں ملکوں کا یہی حال ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد آج تک یہاں انگریزی
کا ہی راج ہے جبکہ اردو اور ہندی صرف کہنے کی حد تک ہی قومی زبانیں کہلاتی
ہیں۔ہمارے حکمران اسمبلی کے اندر، عوام سے خطاب میں انگریزی زبان کا
استعمال لازمی سمجھتے ہیں لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ ابھی میرے ملک کی آدھی
سے زیادہ عوام کو انگریزی کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ ہم اپنی زبان کی اہمیت خود
ہی گرا رہے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ کوئی بیرون نمائندہ ہمارے ملک
میں آ کر ہماری زبان میں بات کرے گا۔۔۔ جواب صاف۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔ ایک اور
بڑی خرابی یہ ہے کہ قومی زبان اردو کے ہوتے ہوئے تمام کاغذی کارروائیاں
انگریزی میں کی جاتی ہیں جو کہ اُردو کے ساتھ زیادتی اور ظلم سے کم نہیں
ہے۔
پاکستان چار صوبوں پر مشتمل ایک مضبوط اور مستحکم وفاق کا نام ہے اور اس کی
قومی زبان اردو ہے۔پوری دنیا میں زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ارد و کا
نمبر چوتھا ہے اور یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔ جب تحریکِ پاکستان اپنی
ابتدائی منزلوں میں تھی تو اس وقت اردو سب سے زیادہ پسندیدہ زبان تھی۔ اس
زبان کی محرومی کا اصل سبب بھی یہی ہے کہ ہم وطنوں کی اکثریت اپنی ثقافت پر
غیروں کی ثقافت کو ترجیح دیتی ہے۔ ہر قوم کی ایک زبان ہوتی ہے جو اس کے
عوام کے مابین اتحاد و روابط کے ذریعے کے طور پر کام آتی ہے۔ مسلمانوں کو
باہم یکجا کرنے والی قوت اسلام ہے۔ اسلام کے پیغام کی تبلیغ کے لیے برصغیر
کی زبانوں میں اردو ایک مشترکہ ذریعہ بنی ہے اور اسی وجہ سے یہ پاکستان کی
قومی زبان کہلائی گئی۔اردو زبان دنیا کی ان چیدہ زبانوں میں سے ہے جو
انتہائی فصیح اور جامع ہے۔ اس میں اہلیت موجود ہے کہ دور جدید کے سائنسی،
علمی اور تحقیقی علوم کے تراجم اور اصطلاحات کو الفاظ کا بیش بہا ذخیرہ
فراہم کر سکے۔ یہ زبان مروجہ علوم کو انگریزی زبان سے بھی زیادہ وسیع
المفہوم اور اعلیٰ اصطلاحات مہیا کر سکتی ہے لیکن تحقیق کی کمی اور ارباب
اختیار کی عدم توجہی دو ایسے عوامل ہیں جو اردو زبان کو خود اس کے دیس میں
اجنبی بنا رہے ہیں۔
پوری انسانی تاریخ میں ایک ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی ایک قوم نے ترقی کی
ہو جس کا ذریعہ تعلیم کوئی غیر ملکی زبان رہی ہو۔ تاریخ قدیم اور جدید بھی
اسی بات کے حق میں فیصلہ دیتی ہے کہ ترقی ان اقوام نے کی جنہوں نے جدید
علوم کو اپنی زبان میں ڈھالا ،نا کہ وہ اقوام جو خود اغیار کی زبان میں ڈھل
گئیں۔دنیا کے سامنے چین، جاپان، فرانس، کوریا، ملائشیا اور جرمنی سمیت بے
شمار ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی قومی زبان کو اختیار کرکے
تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، طب، انجینئرنگ اور دیگر تمام علوم میں دسترس حاصل
کی اور کر رہے ہیں۔ ان قوموں نے تمام جدید علوم اپنی ہی زبان میں عام کیے
اور آج دنیا کی سب سے زیادہ ذہین قوموں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ چین ،
جاپان میں جتنے لوگ بھی غیر ملکی زبان سیکھتے ہیں اپنی کسی تجارتی ضرورت کے
تحت یا محض شوقیہ سیکھتے ہیں۔ کسی کے دماغ میں یہ نہیں ہوتا کہ اگر فلاں
زبان نہ سیکھوں تو اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔ عرب ممالک میں بھی
انگریزی زبان سیکھنا ضروری نہیں ہے۔ تمام عرب ملکوں میں عربی سرکاری زبان
کے طور پر رائج ہے۔
ابھی بھی وقت نہیں گزرا۔ ہمیں آج ہی جاگنا ہوگا اور اپنے ملک کی سرحدوں کے
علاوہ اپنی زبان کی حفاظت کرنا ہوگی۔ ثقافتیں قوموں کی پہچان ہوتی ہیں اور
ہمیں اپنی پہچان زندہ رکھنی ہوگی۔ جس طرح ہمیں پاکستان سے پیار ہے اسی طرح
ہمیں اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے بھی اتنا ہی پیار ہونا چاہئے۔ مولانا
ابوالکلام آزاد بھارتی پارلیمنٹ میں خطاب کر رہے تھے، کسی نے ان سے کہا
مولانا سمجھ نہیں آ رہی انگلش میں بات کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ساری
زندگی انگریزوں سے لڑنے میں گزار دی ہے، میں اپنی زبان کے لیے لڑا ہوں اور
اب وہ چلے گئے تو اُن کی زبان پر بھروسہ کیوں کروں؟ تاہم آپ انگلش میں سوال
کریں میں اس کا جواب اردو میں دوں گا۔ میں نے آج تک چین جیسی خوددار قوم
کوئی اور نہیں دیکھی۔ وہ تو اہل یورپ نے دھوکے سے ان میں پھوٹ ڈلوا کر اور
افیون پر لگوا کر کچھ سال کی مہلت حاصل کر لی تھی ورنہ یہ مغربی اتنے سال
دنیا پر حکمرانی نہ کر پاتے۔ چین جس تیزی سے معاشی ترقی کی منازل طے کر رہا
ہے ، حالات بتا رہے ہیں کہ بہت جلد مشرقی ایشیاءدنیا کا طاقتور گڑھ ہوگا
اور پھر ہمیں انگریزی کی نہیں چینی زبان سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ |