25مارچ 2012ءکا دن تھا ۔ارض وفلک کی گردش رواں دواں تھی ۔ہرشئے
اپنے محور کے ارد گرد گھوم رہی تھی ،چرند پرند اپنی نغمہ خوانیوں سے فضاﺅں
میں رس گھول رہے تھے ۔بشرانسانی ہجوم درہجوم روزمرہ معمولات کی انجام دہی
میں مصروف عمل تھے ۔نظام ِعالم حسب عادت پوری آب وتاب سے جاری تھا ۔شہر کا
ماحول پرامن تھا ،لوگ معمولات ِزندگی سمیٹ کر ایک عظیم الشان اجتماع میں
حاضری کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔روشنیوں کا شہر لہولہان تھا،پھر بھی
لوگوں کا جو ش و خروش دیدنی تھا۔ آنکھیں اس منظر کو دیکھنے کی منتظر
تھیں،کان کلام الہی سننے کی سعادت کے لیے اٹھے ہوئے تھے اور ہرشخص کلام
الٰہی سے سینوں کومعطر کرنے کے لیے خلوص دل اور صمیم قلب کے ساتھ اس بابرکت
تقریب کے آغا زکامنتظر تھا۔
بہرحال وقت مقررہ پر کلام الٰہی سے اس پررونق محفل کا آغاز ہوا۔مہمانانِ
گرامی جوق درجوق تشریف لانے لگے ،سامعین پہلے سے نشستوں پر بیٹھ چکے تھے ،مجمع
کی تعداد ہزاروں میں تھی ،دور دور تک انسانی سروں کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا
تھا ،جلسہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔ادھر سٹیج پر ملک کے نامور
علماءکرام ومشائخ عظام جلوہ افروز تھے ۔مدعوین ِمحفل اپنی باری پر سامعین
کے دلوں کو گرمارہے تھے ۔دوسری طرف سرد ہوائیں چل رہی تھیں ، موسم کی
جفاکشی بھی جاری تھی ،حاضرین محفل ٹھٹھر رہے تھے ،لیکن اس کے باوجود تقریب
نہایت شستگی اور روانی سے چل رہی تھی ،لوگ دلجمعی سے مہمانوں کے بیانات سن
رہے تھے ۔
پھر یکدم پوری محفل پر سناٹا چھاگیا،ایک بارعب لحیم شحیم آدمی مائیک پر آئے
اور سامعین سے مخاطب ہوکر بولے ”اب آپ کے سامنے ساڑھے چھ سال کی کمسن بچی
تشریف لاتی ہیںجو تلاوت ِقرآن پاک سے سامعین کو محظوظ کریں گی “۔یہ اعلان
سننا تھا کہ جلسہ گاہ سے گردنیںسٹیج کی جانب اٹھنے لگیں، لوگ قابل رشک
آنکھوںسے کمسن بچی کے دید ار کے لیے ترسنے لگے۔کچھ لمحات کے بعد سٹیج سے
درد بھری ،معصوم آواز میں قرآن کریم کی تلاوت سنائی دینے لگی ،لوگوں پر ایک
مرتبہ پھر سکتہ طاری ہوگیا ،ہر زبان خاموش ہوگئی ،ایک لمحے کے لیے ہر چیز
پر جمود طاری ہوگیا ۔پھر کلام الٰہی کے سحر میںہر شئے جھومنے لگ گئی ،جلسہ
گاہ”اللہ اکبر ،سبحان اللہ ،الحمدللہ اور بارک اللہ “ کے نعروں سے گونج
اٹھا۔کلام الٰہی کی برکات سے مجمع پر سکینہ نازل ہونے لگا،انوارات قرآن سے
قلوب کی سیاہی دھلنے لگی ،خشک نہریں بہنے لگیں،مرجھائے ہوئے پھول کھلنے
لگے،پریشان حال اور مغموم لوگ خوشی سے جھومنے لگے۔ قرآن پاک کے عمدہ طرز
بیان ،باکمال اسلوب ،لاجواب اعجاز اور بے نظیر کلام کا پندرہویں صدی میں
عملی مظاہر ہ دیکھ کرلوگ حیرت زدہ رہ گئے۔
مولاناعبدالقیوم حقانی صاحب جو اس محفل کے مہمان خصوصی تھے ۔انہوں نے جامعہ
دارالعلوم رحیمیہ ملتان میں پندرہویں صدی کے اس اعجاز قرآنی کا تذکرہ
فرماتے ہوئے کہاکہ ” میںنے دل میں سوچاکہ اس بچی کو چند ایک سورتیں یا د
ہوں گی اور اسے تیاری کرواکے لایا گیا ہوگا،میں اسی سوچ میں گم تھا کہ
میزبان میرے قریب آئے میں نے ان سے پوچھ لیا کہ اسے کتنی سورتیں ،کتنا قرآن
یاد ہے ؟“میزبان نے یہ سن کر مائیک اپنے ہاتھ میں لیا اور مجمع سے مخاطب
ہوا کہ‘ حضرت حقانی صاحب پوچھتے ہیں کہ اس بچی کو کتنا قرآن یاد ہے ؟”تو سن
لیں !یہ بچی پورے قرآن کی حافظہ ہیںاور اس نے الحمدللہ صر ف تین ماہ میں
قرآن پاک حفظ کیاہے“ ۔یہ سن کرحقانی صاحب کے ساتھ موجود ایک قاری صاحب نے
کہا”حقانی صاحب! مجھے یقین نہیں آتا،اس بچی سے امتحان لینا چاہیے ،کہیںشہرت
اورمفاد کی خاطران لوگوں نے یہ اعلان نہ کیاہو؟“میزبان نے یہ گفتگو سن لی
۔اس نے دوبارہ اعلان کیا کہ” حقانی صاحب کے ساتھ تشریف لائے ہوئے پاکستان
کے معروف قاری اس بچی کا امتحان لینا چاہتے ہیں“۔چنانچہ بچی کو دوبارہ
بلایا گیا ،بچی پر رعب تھانہ دبدبہ،خوف تھا نہ چہرے پر پریشانی کے آثار
،متانت سنجیدگی معصومیت اور بے فکری کے آثار اس بچی کے ننھے سے پھول پر
برابر چمک رہے تھے۔بہرحال قاری صاحب نے بچی کا امتحان لینا شروع کیا”سورہ
بقرہ کی آیت فلاں سناﺅ،بچی نے بلاتامل پڑھنا شروع کردیا‘فلاں سور ة کی فلاں
آیت سنائیں؟بچی نے سنانا شروع کردیا۔یوں پانچ بار قاری صاحب نے مختلف
مقامات سے اس بچی کا امتحان لیا ،بچی نے بلاجھجھک کلام الٰہی پڑھ کر سنایا
۔حاضرین مجلس اس عجیب وغریب منظر کو دیکھ کر حیران بھی ہوئے اورسجدہ ریز
بھی ہوئے ،انہوں نے اعجاز قرآنی کا اقرار بھی کیا اور ساڑھے چھ سالہ بچی
اور اس کے والدین واساتذہ کو داد بھی دی۔
قارئین کرام !یہ اعجاز قرآنی پندرہویں صدی ہی میں ظاہر نہیں ہوا بلکہ نزولِ
قرآن ہی سے اعجاز قرآنی کے یہ واقعا ت رونما ہورہے ہیںبلکہ خود نزول قرآن
ایک معجزہ ہے۔ ماضی میںبھی حافظہ منیرہ کی شکل میں اعجاز قرآنی کا ظہور
ہوتا رہا ہے ۔چنانچہ اما م محمد ؒ نے ایک ہفتہ میں پورا قرآن حفظ
کیا،بختیارکاکی ؒ ماں کے پیٹ سے پندرہ سپارے حفظ کرکے آئے ،شیخ الاسلام
مولانا حسین احمد مدنی ؒنے مالٹاکی جیل میںایک ماہ کے مختصر عرصے میں
،استاذالعلماءحضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم نے ستائیس دن
میں ،حضرت علامہ علی شیر حیدری شہیدؒنے تین ماہ میں قرآن پاک اپنے سینوں
میں محفو ظ کرکے دنیا کو حیران کیا۔اعجازِ قرآنی کے اس جیسے سینکڑوں واقعا
ت ہیں۔
یہ قرآن ہی کا معجزہ ہے کہ اتنے قلیل عرصے میں دنیا کی سب سے بڑی کتاب چھ
سال اور نو سال کے کمسن بچوں اور” ساٹھ سال کے بوڑھوں “کے سینوں میں محفوظ
ہوجاتی ہے ۔دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو اس اعجازِ قرآنی کا مقابلہ
کرسکے اورکوئی قوت ایسی نہیں جو اسے مٹاسکے ۔دنیا کی مادی طاقتیں ،عیسائی
مشنری خواہ کتنازور لگالیںاوردولت لٹادیں،دجالی تنظیمیں اور این جی اوزچاہے
رات دن ایک کردیں،کفریہ طاقتیں یکجاہوکر عالم اسلام ،اہل اسلام اور دینی
مدارس کے خلاف کتناہی پروپیگنڈہ کرلیں۔لیکن پھر بھی یہ قرآن ،یہ دین ،یہ
اسلام ،یہ مدارس اور یہ حفاظ قران وعلماءدین مٹیں گے ،نہ دین اسلام اور
لاریب کتاب پر ذرہ برابر آنچ آنے دیں گے ۔یہ مقدس کتاب توہین آمیز واقعات
سے مجروح ہوتی ہے نہ اس کا اعجاز قرآنی ختم ہوتاہے اور نہ بھوک ہڑتال کرنے
والے گوانتاناموبے کے قیدی ہلاک ہوتے ہیں مگر اس جیسے واقعات سے حافظہ
منیرہ جیسی کمسن بچیوں اور بچوں کے دل ضرور چھلنی ہوتے ہیں۔ لاریب ہے یہ
بات‘ کہ قرآن اور اعجازقرآنی ختم نہیں ہوسکتے کیوں کہ قدسی الاصل ذات نے اس
کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھائی ہے ۔ہاں مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں
ہے کہ مسلمانوں کی غفلت ،بے حسی اور خاموشی سے اغیار کو آگے بڑھنے کاحوصلہ
ضرور ملتاہے ۔ضرورت اس امر کی ہے! کہ مسلم ممالک کے حکمران بالخصوص ملک
پاکستان کے ارباب اقتدار حافظہ منیرہ جیسی بچیوں اور بچوں کو پروموٹ
کریں،جن درسگاہوں سے یہ فیض یاب ہوتے ہیں ان کی قدر اوراحترام کریں،ان کے
خلاف بے بنیاد پروپیگندہ کرنے سے گریز کریں۔کیوں کہ یہ بھی ملالہ اور ارفع
کریم کی طرح قوم کی بیٹیاں اور سرمایہ ہیں،سیدو شریف کالج کی طرح ان کے
مدرسے بھی علم کے گہوارے ہیں۔اسی طرح عوام الناس کو بھی پندرہویں صدی کے
اعجاز قرآنی کے اس مبارک سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے عملاً اپنی اولاد کو
مساجد ومکاتب میں داخل کروانا چاہیے ۔ |