﴿۱﴾مہر نبوت چوم لی : حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
اسلام لانے سے پہلے مختلف دینی و مذہبی راہنماؤں کے پاس آتے جاتے رہے۔ ہر
مذہبی رہنما انھیں وصیت کیا کرتا کہ میرے بعدفلاں کے پا س جانا ،یہ بھی
پوچھ لیا کرتے کہ ان کی زندگی کے بعد کس کے پاس رہنا چاہیے،جب آپ نے آخری
راہب سے پوچھا کہ اب مجھے کس کی خدمت میں رہنا ہوگا، اس نے کہا :اب دنیامیں
کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس کی صحبت میں تمھیں امن و سلامتی نصیب ہو،
ہاں! عنقریب نبی آخرالزمان صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لارہے ہیں
جو دین ابراہیمی پر ہوں گے، ان کی ہجرت گا ہ ایسا مقام ہوگا جو دو پہاڑوں
کے درمیان ہوگااور اس میں کھجور کے درخت کثرت سے پائے جائیں گے،نبی آخر
الزمان صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت
ہوگی،آپ ہدیہ قبول کریں گے صدقہ نہیں کھائیں گے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس نصیحت کو پیش نظر رکھا اورملک
عرب کی طرف رخ کیا جونہی وہ مدینہ پہنچے توآنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم ہجرت کرکے قبا تشریف لاچکے تھے۔ سلمان آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلمکی خدمت میں کچھ چیزیں لیکر حاضر ہوئے او ر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے عرض کیا: یہ صدقہ ہے ،حضور قبول فرمائیے! آنحضرت صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہمسے فرمایا :تم کھالو
لیکن خود نہ کھایا۔ حضرت سلمان نے دل میں کہا ایک نشانی تو پوری ہوگئی۔
سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں بعد ازاں میں صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم
کی جماعت میں مل گیا۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم قبا سے مدینہ
تشریف لائے تو میں کچھ چیزیں لیکر حاضر خدمت ہو ا اور عرض کی! حضور یہ ہدیہ
ہے قبول فرمائیے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہم کیساتھ مل کر کھالیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا دو علامتیں پوری ہوگئیں۔
اس کے بعد میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر
ہوا جب آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم جنت البقیع میں ایک صحابی رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کا جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلمکے کندھوں پر دو شالہ تھا جسے آپ چادر اور ازار کے طور پر
استعمال کررہے تھے ۔میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پیچھے پیچھے
ہولیا۔ جب کپڑے کا دامن ایک طر ف ہو ا تو میں نے مہر نبوت کو ویسا ہی پایا
جیسے مجھے بتایا گیا تھا، میں جذبات سے اس قدر مغلوب ہوا کہ بے اختیار مہر
نبوت کو بڑھ کر چوم لیا اور رونے لگا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے مجھے اپنے پاس بلالیا، میں نے اپنی ساری سرگزشت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کو سنائی آپ نے اسے پسند فرمایا،صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے
بھی میر ی سرگزشت سنی ۔
(شواہد النبوۃ،رکن رابع، ص۸۴)
﴿۲﴾موئے مبارک : مقام حدیبیہ میں آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
بال بنواکرتمام بال مبارک ایک سبز درخت پر ڈال دئیے۔ تمام اصحاب رضی اﷲ
تعالیٰ عنہم اسی درخت کے نیچے جمع ہوگئے اور بالوں کو ایک دوسرے سے چھیننے
لگے۔ حضرت ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہماکہتی ہیں کہ میں نے بھی چند بال
حاصل کرلئے۔ آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد
جب کوئی بیمار ہوتا تو میں ان مبارک بالوں کو پانی میں ڈبو کر پانی مریض کو
پلاتی تورب العزت اسے صحت عطا کردیتا۔
(مدارج النبوت،قسم سوئم،باب ششم،ج۲،ص۲۱۷)
﴿۳﴾لعاب مبارک : عتبہ بن فرقد رضی اﷲ تعالیٰ عنہجنھوں نے حضرت عمر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے عہد میں موصل کوفتح کیا ان کی بیوی ام عاصم رضی اﷲ تعالیٰ
عنہابیان کرتی ہیں کہ عتبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاں ہم چار عورتیں تھیں ہم
میں سے ہر ایک خوشبو لگانے میں کوشش کرتی تھیں تا کہ دوسری سے اطیب ہو اور
عتبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوئی خوشبو نہ لگاتے تھے مگر اپنے ہاتھ سے تیل مل
کر داڑھی کو مل لیتے تھے اور ہم میں سب سے زیادہ خوشبودار تھے جب وہ باہر
نکلتے تو لوگ کہتے کہ ہم نے عتبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خوشبو سے بڑھ کر
کوئی خوشبونہیں سونگھی۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ ہم استعمالِ خوشبو
میں کوشش کرتی ہیں اور تم ہم سے زیادہ خوشبودار ہو ، اس کا سبب کیا ہے
انہوں نے جواب دیا کہ رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عہد
مبارک میں میرے بدن پر آبلے نمودار ہوئے میں خدمت نبوی میں حاضر ہوا۔ آپ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اس بیماری کی شکایت کی۔ سرکار صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ کپڑے اتاردو۔ میں نے
ستر کے علاوہ کپڑے اتار دئیے اور آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
سامنے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنا لعاب اپنے دست
مبارک پر ڈال کر میری پیٹھ اور پیٹ پر مل دیا اس دن سے مجھ میں خوشبو پیدا
ہوگئی۔ (الاستیعاب،باب حرف العین ،عتبہ بن فرقد،ج۳،ص۱۴۸)
﴿۴﴾ پسینہ مبار ک : حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خادم حضرت انس
رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
ہمارے یہاں تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا۔ حالت خواب میں آپصلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو پسینہ آیا، میری ماں ام سُلیم نے ایک شیشی لی اور آپ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پسینہ مبارک اس میں ڈالنے لگیں۔ آپ صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم بیدار ہوئے اور فرمانے لگے: ام سلیم تم یہ کیا
کرتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یہ آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کاپسینہ
ہے ہم اس کو اپنی خوشبو میں ڈالتے ہیں اور وہ سب خوشبوؤں سے عمدہ خوشبو ہے۔
دوسری روایت مسلم میں ہے کہ ام سلیم نے یوں عرض کیا ’’یارسول اﷲ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ہم اپنے بچوں کے لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلمکے عرق مبارک کی برکت کے امیدوار ہیں۔‘‘ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے فرمایا: تو نے سچ کہا ۔صحابہ رضی اﷲ تعا لیٰ عنہم حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عرق مبارک کو چہرے اور بدن پر مل دیا کرتے تھے
اور وہ تما م بلاؤں سے محفوظ رہا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب طیب عرق النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم، الحدیث۲۳۳۱،ص۱۲۷۲)
﴿۵﴾حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اﷲ صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میں نے اپنی بیٹی کا نکاح کردیاہے، میں اسے
اس کے خاوند کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں، میرے پاس کوئی خوشبو نہیں آپصلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کچھ عنایت فرمائیں۔ سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: میرے پاس موجود نہیں مگر کل صبح ایک چوڑے منہ والی
شیشی اور کسی درخت کی لکڑی میرے پاس لے آنا۔ دوسرے روزوہ شخص شیشی اور لکڑی
لیکر حاضر خدمت ہوا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے دونوں
بازوؤں سے اس میں اپنا پسینہ مبارک ڈالنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ بھر گئی
پھر فرمایا کہ اسے لے جاکراپنی بیٹی سے کہہ دینا کہ اس لکڑی کو شیشی میں
ترکر کے مل لیا کرے۔ پس جب وہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پسینہ
مبارک کو لگاتی تو تمام اہل مدینہ کو اس کی خوشبو پہنچتی یہاں تک کہ اس کے
گھر کا نام ’’بیت مطیّبین‘‘(یعنی خوشبو والوں کا گھر) ہوگیا۔
(شواہد النبوۃ،رکن خامس،ص۱۸۱)
واﷲ جو مل جائے مرے گل کا پسینہ مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پھول
﴿۶﴾ ادب و برکت اندوزی : حدیث شریف میں مروی ہے کہ ابو محذورہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کی پیشانی میں بال اس قدر دراز تھے کہ جب وہ بیٹھتے اور ان
بالوں کو چھوڑ دیتے تو زمین پر پہنچتے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے
بالوں کو اتنا کیوں بڑھایا؟ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے ان کو نہیں کٹواتا
کہ ایک وقت ان پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا دست مبارک
لگاتھااس لئے میں نے تبرکاً ان بالوں کو چھوڑ رکھا ہے۔
(مدارج النبوت،باب نہم،واجبات حقوق آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
...الخ،ج۱،ص۳۱۶)
﴿۷﴾مسح دست کا کمال: حافظ ابو نعیم متوفی(۴۳۰ ھ) نے بروایت عبادبن عبدالصمد
نقل کیاہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے یہاں
آئے۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کنیز سے کہا کہ دستر خوان لاؤتا کہ ہم چاشت
کا کھانا کھائیں،وہ لے آئی۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ وہ رومال لا
ؤوہ ایک میلا رومال لے آئی۔ آپ نے فرمایا کہ تنورگرم کر اس نے تنور گرم کیا
پھر آپ کے حکم سے رومال اس میں ڈال دیاگیا ۔ وہ ایسا سفید نکلا گویا کہ
دودھ ہے۔ہم نے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہسے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انھوں نے
فرمایا کہ یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
اپنے روئے مبارک کو مسح فرمایا کرتے تھے۔ جب یہ میلا ہوجاتا ہے تو اسے ہم
یوں صاف کرلیتے ہیں کیونکہ آگ اس شے پر اثر نہیں کرتی جو انبیاء علیہم
الصلوٰۃ و السلام کے روئے مبارک پر سے گزری ہو۔
(شواہد النبوۃ،رکن خامس،ص۱۸۱)
ہرچہ اسباب جمال است رخ خوب ترا
ہمہ بروجہ کمال است کما لایخفی
قطعہ پیراہن کی تاثیر : حضرت محمد بن جابر کے دادا سنان ابن طلق الیمامی
وفد بنی حنیفہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت اقدس
میں حاضر ہوئے اور ایمان لائے۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم مجھے اپنے کرتے کا ایک ٹکڑا عنایت فرمائیے میں اس
سے انس رکھتا ہوں۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انکی درخواست
منظور فرما کر اپنے کرتے کا ایک ٹکڑ ا عنایت فرمایا۔ محمد بن جابر کا بیان
ہے کہ میرے والد نے مجھ سے بیان کیا، وہ قطعہ ہمارے پاس تھا ہم اسے دھو کر
بغرض شفاء اپنے بیماروں کو پلایا کرتے تھے۔
(الخصائص الکبریٰ،باب ما وقع فی وفد بنی حنیفۃ من الآیات،ج۲،ص۲۶)
﴿۹﴾عصائے مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی برکات : جابربن عبداﷲ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میرے پاس غزوہ ذات الرقاع میں ایک اونٹ
تھا جس کا گھٹنا ٹوٹا ہو ا تھا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
میرے پاس سے گزرے مگر اونٹ کی سست روی اس بات کی اجازت نہ دیتی تھی کہ میں
آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ساتھ دے سکوں مجھ سے پوچھا گیا تو میں
نے سارا ماجرا سنایا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے عصاء لیکر اونٹ
پر تین مرتبہ گِھسااو ر پھر پانی کا چلو بھر کر اس پر چھڑکا اور حکم دیا کہ
سوار ہو جاؤ مجھے قسم ہے اس خدا عزوجل کی جس نے ہم پر ایک سچا رسول مبعوث
فرمایا، آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم جس قدر تیز چلاتے تھے میرا
اونٹ پیچھے نہ رہتا اور میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ
ہی رہتا تھا۔ (الخصائص الکبریٰ،کتاب ذکر معجزاتہ فی ضروب الحیوانات، باب
قصۃ الجمل والناقۃ،ج۲،ص۹۷)
﴿۱۰﴾حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ منبر رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
پر، جہاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم بیٹھا کرتے تھے، رکھا اور پھر
فرط محبت سے اپنے چہرے پر پھیر لیا۔
﴿۱۱﴾مسجد نبوی (علی صاحبہ الصلوۃ والسلام)سے ملحق حضرت عباس بن عبد المطلب
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان تھا جس کا پرنالا بارش میں آنے جانے والے
نمازیوں پر گر ا کرتا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے اس
کواُٹھوادیا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے اﷲ
عزوجل کی قسم اس پر نالے کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
اپنے دست مبارک سے میری گردن پر سوار ہو کر لگایا تھا یہ سنکر حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ آپ میری گردن پر سوار ہوکر اسکو
پھر اسی جگہ لگادیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
(وفاالوفاء،الفصل الثانی عشر،باب بین عمروالعباس،ج۱،ص۴۸۷)(ماخوذ
از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |