بلند و بالا عمارتوں ‘ٹوٹے پھوٹے
راستوں‘کچرے کے ڈھیر سے بھری گلیوں ‘گنجان آباد علاقوں اور خون آلود سڑکوں
کا شہر کراچی جہاں آپ کو ہر اک بازار میں صرف سرہی سر دکھائی دینگے‘ٹریفک
کا شور ‘گاڑیوں کا دھواں اور خوف زدہ چہروں کے اس شہر میں لوگ موت کے آ نے
سے قبل ہی کلمہ گھر سے پڑھ کر ہی نکلتے ہیں کیونکہ اکثریت کی رائے یہی ہے
کہ اس شہر میں موت کا وقت اسی گھڑی شروع ہوجاتا ہے جب ہم گھر سے نکلتے ہیں
‘اس شہر کی خوبصورتی اور روشنیاں چند سالوں میں ایسی ماند پڑگئیں ہیں کہ جس
طرح آج یہاں گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے‘ یہ وہ شہر ہے جسے کبھی پیرس تو کبھی
استنبول کی طرز تعمیر کا شاہکار شہر بنانے کے وعدے کئے جاتے رہے ہیں اور یہ
اب وہی شہر ہے کہ کبھی یہاں طالبان کی موجودگی تو کبھی ٹارگٹ کلنگ میں
بیرونی ہاتھوں کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے ‘کراچی میرے لئے وہ شہر ہے جہاں
میں نے ہوش سنبھالا اور جہاں میں نے تعلیم حاصل کی ‘مجھے یہاں وہ بھی دن
یاد ہیں کہ جب ہم دوست راتوں کو جاگ کر یہاں کی گلی محلوں میں گھومتے پھرتے
تھے ‘سی ویو میں رات کو سمندر کے نظارے کرتے تو کبھی اخبارات میں کام سے
فراغت کے بعد ڈیوٹی آف ہونے پر کسی فوڈ اسٹریٹ میں کھانا کھاتے یا کسی
کوئٹہ ہوٹل کی آدھیا چائے کے مزے اڑاتے تھے‘اور یہ اب وہی شہر ہے کہ جہاں
مغرب شروع ہونے سے قبل ہی ٹی وی چینلز کی اسکرین پر کہیں نہ کہیں کسی علاقے
کی یہ رپورٹ بریکنگ کی صورت نظر آتی دکھائی دیتی ہے کہ فلاں علاقے میں
فائرنگ‘فلاں میں ڈاکٹر قتل تو فلاں میں موٹرسائیکل سوار افراد کی فائرنگ سے
گھر کے باہر بیٹھا ایک شخص یا اتنے لوگ قتل کردئیے گئے۔کراچی میں ایک وقفے
کے بعد میں نے دوبارہ اپنے کام کا آغاز کیا ہے اور ڈیوٹی سے فراغت کے بعد
جس روٹ پر مجھے چلناپڑتا ہے وہاں پہلے مجھے ایک اندھیری یا سناٹے والی سڑک
عبور کرنی پڑتی ہے ‘پھر ایک بارونق علاقہ آتا ہے‘پھر ایک گلی اور گلی ختم
ہونے پر ایک قبرستان اور وہاں کے آوارہ کتے ‘پھر ایک پل اورپل سے اترتے ہی
ایک ایسی جگہ بھی آتی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ دوگروپوں کیلئے میدان
جنگ ہے اور یہاں کبھی بھی کسی بھی وقت میدان میں میلہ لگ سکتا ہے جب میں ان
تمام راستوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا آگے آتا ہوں ‘تب ہی مجھے اپنے محلے کی
مسجد اور گھر کا دروازہ نظر آتا ہے پھر جاکر میں سکون کی سانس لیتا ہوں اور
گنگناتا ہوا آگے بڑھتا ہوںلیکن یہاں ایک تعجب کی بات ہے کہ جب میں ان
راستوں پر چلتا ہوں تو نہ مجھے قبرستان سے کسی بھوت یا آسیب کا ڈر ہوتا ہے
اور نہ ہی کسی آوارہ کتے کا ‘مجھے ڈر لگتا ہے تو صرف انسانوں سے ان انسانوں
سے جن کیلئے شاید میرے خون کی قیمت کچھ نہ ہو‘شاید وہ جانتے نہ ہوں کہ میں
جس گھر کی اوڑھ جارہا ہوں وہاں میری ایک بوڑھی ماں میرے آنے تک جاگتی رہتی
‘میری منتظر بہنیں جو میرے آتے ہی کھانا گرم کرنے بیٹھ جاتی ہیں‘اور جب تک
میں پہنچ نہ جاﺅں انہیں سکوں نہیں ملتاشاید ان انسانوں کو مجھ سے منسلک ان
رشتوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں یہی وجہ ہے میں آج یہ کہنے پر مجبور ہوںکہ
مجھے آسیب سے ڈر نہیں لگتا صاحب انسانوں سے لگتا ہے- |