اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمارے نبی حضور رحمت ِ عالم ﷺ کو تمام جہان سے پہلے اپنے نور
کی تجلی سے پیدا فرمایا انبیاء ، فرشتے، زمین ، آسمان، عرش وکرسی تمام جہان کو حضور
ﷺ کے نورکی جھلک سے بنایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو بے مثل اور خوبیوں کا
جامع بنایا جن کا شمار ہم کرنے سے قاصر ہیں تمام جہان میں کوئی کسی خوبی میں ہمارے
نبی کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخلق اور اللہ تعالیٰ کے
نائب مطلق ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسل اور انبیاء کے بھی نبی ہیں اور
ہر شخص پر آپ کی پیروی لازم ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام خزانوں کی کنجیاں حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دی۔ دین ودنیا کی سب نعمتوں کا دینے والا خدا ہے
اور بانٹنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ (بخاری شریف) اللہ تعالیٰ نے آپ کو
معراج عطافرمائی یعنی عرش پر بلایا اور اپنا دیدار کرایا مگر کچھ لوگوں کو قولِ
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مغالطہ ہوا ہے کہ شب معراج میں آقا علیہ
السلام کو دیدارِ الٰہی نہ ہوا۔ ہم یہاں چند روایت قلمبند کررہے ہیں تاکہ غلط فہمی
کا ازالہ ہو۔ متعدد احادیث اور آثارِ صحابہ میں دیدار الٰہی کا تذکرہ موجود ہے
۔’’الاسراء المعراج‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تحریر فرماتے ہیں کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں دیدار الٰہی سے مشرف ہوئے ۔ امام بخاری
اپنی صحیح میں نقل فرماتے ہیں کہ رب اپنے محبوب سے اتنا قریب ہوا کہ دوکمانوں یا اس
سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ صدرالفاضل مولانا سید محمدنعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ
علیہ سورۂ نجم کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم
کے قلب مبارک نیاس کی (دیدارِ الٰہی کی) تصدیق جو چشم مبارک نے دیکھا۔ معنیٰ یہ ہے
کہ آنکھ سے دیکھا ، دل سے پہچانا اور اس رویت ومعرفت میں شک وتردد نے راہ نہ پائی۔
اب یہ بات کہ کیا دیکھا بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ حضرت جبرئیل کو دیکھا لیکن مذہب
صحیح یہ ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور یہ دیکھنا کس
طرح تھا چشم سر سے یا چشم دل سے اس میں مفسرین کے دونوں قول پائے جاتے ہیں۔ حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب العزت
اپنے قلب مبارک سے دوبارہ دیکھا(رواہ مسلم) ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ آپ نے رب
عزوجل کو حقیقتاً چشم مبارک سے دیکھا۔ یہ قول حضرت انس بن مالک اور حضرت حسن وعکرمہ
کا ہے اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو خلت اور
حضرت موسیٰ کو کلام اور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دومرتبہ
دیکھا (ترمذی) ان روایات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اللہ تعالیٰ کو دیکھا چاہے چشم سر سے ہو یا چشم قلب سے ۔ امام حسن بصری علیہ الرحمہ
قسم کھا کر کہتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں دیدار الٰہی کا شرف
پایا۔ بعض حضرات یہاں پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول پیش کرتے ہیں کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیدار الٰہی کا انکار کیا اور آیت معراج کو دیدار
جبرئیل پر مہمول کرتے ہیں یہاں چند باتیں غور طلب ہے ایک یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا کا قول نفی میں ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اثبات
میں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس کو حبرالامت کا کہا جاتا ہے ۔ مشکلات میں ان ہی کی طرف
رجوع کیا جاتا ہے بلکہ اکثر صحابہ کرام ابن عباس کے ارشاد کی وجہ سے اپنی رائے سے
رجوع کرتے تھے ۔ اور مثبت ہی مقدم ہوتا ہے کیونکہ نافی (نفی کرنے والا) کسی چیز کی
نفی اس لئے کرتاہے کہ اس نے سنا نہیں اورمثبت اثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا
اور جانا تو معلوم ہوا کہ علم مثبت کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ قول حضور ﷺ سے نقل نہیں کیا بلکہ آیت سے
اپنے استنباط پر اعتماد فرمایا ۔یہ حضرت عائشہ صدیقہ کی رائے ہے۔ حاصلِ تحریر یہ ہے
کہ اکثر علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ماتھے کی آنکھوں سے دیدار الٰہی کا شرف پایا۔ تذکرۃ الانبیاء صفحہ۵۸۴ پر علامہ
عبدالرزاق بہترالوی نے معترضین کو دندان شکن جواب دیا آپ نے تحریر فرمایا کہ حضرت
عائشہ کا اشارہ خواب والی معراج کی طرف ہے کیونکہ جاگتے ہوئے معراج حضور ﷺ کو مکہ
مکرمہ میں ہوئی جبکہ حضرت عائشہ آپ ﷺ کی زوجیت میں مدینہ طیبہ میں آئی۔ (حضورعلیہ
السلام کو ۳۴مرتبہ معراج ہوئی) اسی لئے عاشق صادق امام احمدرضا نے فرمایا ؎
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود |