گرم جہاد میں اسلامی اخلاقیات کانفاذ

۲۹مئی ۱۳ء کو مہران ہوٹل میں icrcاورکراچی یونی ورسٹی کے اشتراک سے سہ روزہ اسلامک لاء ٹریننگ کورس کاانعقاد ہوا،جہاں ہم نے ذیل کی معروضات پیش کیں:
معزز سامعین کرام ،میں نے ادارے کے طرف سے دئیے گئے عنوان ’’ مسلح تصادم میں اسلامی قوانین کا نفاذ،تاریخی تناظر‘‘ میں کچھ تبدیلی کرکے ’’ گرم جہاد میں اسلامی اخلاقیات کا نفاذ‘‘ سے معنون کیاہے ،مجھے امید ہے کہ کار پردازان ِ ادارہ اسے تحسین کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔

عزیز دوستو، ایمان اور اسلام دونوں اصطلاحوں کے الفاظ میں غور کرنے سے بڑی آسانی سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے،کہ ان کا مأخذ امن وسلامتی ہے، یہ دونوں عنوان اس بات کا دعوی ہے کہ یہ مذہب نہ صرف انسانی معاشرہ بلکہ پوری کائنات میں امن وامان اورسلامتی وخیرسگالی کاداعی ہے، کیاآپ نے کبھی غور نہیں کیا کہ اس دین کی پانچوں بنیادیں بنی نوع بشری میں تفرق کے بجائے اجتماعیت اور توڑ کے بجائے جوڑ کے مظاہر ہیں ، کلمہ طیبہ ، اقامت صلاۃ ، ادائے زکاۃ ، صیام رمضان اور حج بیت اﷲ میں سے ہرایک امن ،سلامتی،اجتماعیت،جوڑ، خیر سگالی، الفت، محبت اور مودت پر شاہد عدل ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اسلام کے ان ارکانِ خمسہ کا جائزہ لے کر اس دین کے امن وسلامتی کے دعوے کو مبنی برحقیقت ہونے کا دو اور دوچار کی طرح نتیجہ نکال سکتاہے، توکیا ضد ،عناداور ہٹ دھرمی سے بچاہواکوئی قلب ِسلیم رکھنے والا دانش ور، تجزیہ نگار اور مؤرخ ہے جودنیا کے سامنے اس حقیقت کو طشت ازبام کردے ؟

معزر سامعین کرام ، جہاد اسلام کے بنیادی ارکان خمسہ میں سے نہیں ہے ، یہ ایک ضرورت ہے، یہ ایک اضطراری حالت ہے،بالفاظِ دیگر یہ ایک رد عمل کانام ہے، ظاہر سی بات ہے کہ جب آپ اپنے مکان ،ادارے ،محلے، شہر، ملک اورکل کائنات میں امن ، سلامتی ، حسن اخلاق، حسن معاشرت،حسن سیرت وکردار کے داعی ہیں،رحمۃ للعالمین پیا مبر کے وارث ونائب ہیں ،آپ ایک مثالی اور ماڈل معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں، آپ اور آپ کے اسلاف نے اس کے لئے جانی و مالی بیش بہا قربانیاں بھی دی ہیں ، لیکن کچھ افراد ،اقوام ، ممالک ، گروپزاور کچھ افکار ونظریات آپ کے اس مشن کو سبوتاژ کرناچاہتے ہیں ،اس میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں ،توکیاآپ ہابیل کی طرح قابیل کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کھڑے رہینگے ، یا پھراپنے تعمیر کردہ چمن زار وگلستاں کو بچانے کے لئے جان ومال کی پرواہ کئے بغیر میدان میں کو د پڑ ینگے ، کیا اس نقطۂ نظر کو پیش رکھکر آج چودہ سو سال کے بعد مہذب اقوام نے ان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے مقابلے کے لئے’’گرم تعاقب‘‘کے نام سے یہی تکنیک نہیں اپنائی ؟ کیا اس میں دفاعی اور اقدامی سب شامل نہیں ہیں ، تو اگر انسانی عقل اپنی نارسی سے اس نکتے تک صدیوں اور ہزاریوں میں پہنچ سکتی ہے، تو وحی اور نبوت کی شکل میں دینی نقل اگر پہلے ہی فرصت میں اس تک پہنچ گئی ، تو اس میں تردد اور تذبذب کیوں اور کیسے ؟؟

یادرکھئے گا ایمان امن چاہتاہے ، اسلام سلامتی چاہتاہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین اورکائنات میں اضطراب اور بے راہ روی روکنے کے لئے اسلام میں اقدامی اور دفاعی دونوں طرح کے جہاد ہیں ، اسلام کفرو کافر کو تخریب ، نقضِ امن اور دنگاوفساد سے جب بھی روکتاہے، اسے جہاد کہتے ہیں ، چنانچہ کفر اور کافر جہاں بھی پر امن ہیں ، انسانیت کی تباہی کے چکروں میں نہیں ہیں ، اسلام اور ایمان ان سے تعرض نہیں کرتے ، اس کی مثال آپ اسلا می حدود اور قصاص سے سمجھئے کہ کسی کا قتل وجرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے، تو حدود وقصاص کا اس سے کیا تعلق ، گویا جہاد کفر واہل کفراور بغاوت و اہل بغاوت کی حال میں تخریبی عمل اور استقبال میں تخریبی سوچ کا رد عمل ہے، اسی لئے مجاہدحسب حالات کبھی دفاع اورکبھی اقدام پر مجبور ہوتاہے۔ بہر حال یہاں ہم اس حوالے سے اسلام کے چند زرین قوانین پیش کر تے ہیں:
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنگ کا مقصد دشمن کا جسمانی طور پر خاتمہ کرنا نہیں ہے ، جدید بین الاقوامی انسانی فلاحی قوانین بھی یہ کہہ کر کہ جنگ کا مقصد دشمن کی جنگی طاقت اور جنگی استعداد کو کمزور کرنا ہونا چاہئیے،اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو نہی دشمن کی جنگی استعداد کمزور ہوجائے ، حملوں کو روک دینا چاہئے ۔

جنگ کے اصول وقوانین میں اسلام نے جو بنیادی اصلاح کی ہے وہ یہ ہے کہ طاقت کے استعمال کو صرف شریک جنگ تک محدود کیاجائے۔

اسلام کے قانون جنگ کا دوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ قانونی طورپر تسلیم شدہ سیاسی حکومت کی اجازت کے بغیر طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔

اسلام کے قانون جنگ کا تیسر اصول عملی طورپر جنگ میں حصہ نہ لینے والے افراد سے متعلق ہے، طبی امداد دینے والے اور اسی قبیل کے دوسرے افراد ، حتی کہ اگروہ جنگجوؤں اور حملہ آوروں کو مدد بھی فراہم کررہے ہوں ، انہیں جنگ میں شریک افراد کا حصہ نہیں سمجھا جاتا، رعایت نہ صرف طب سے متعلقہ لوگوں کو دی گئی ہے ، بلکہ دوسرا امدادی عملہ جن میں نرسیں ، خدمت گار ، کھانا پکا نے والے، شہری ضروریات کی فراہمی کرنے والے ، بہت عمر رسیدہ سپاہی اور وہ بوڑھے افراد جو جنگ میں حصہ نہ لے رہے ہوں ، بھی اس رعایت میں شامل ہیں ان سب افراد کو قتل اور طاقت کے استعمال سے مستثنی قرار دیا گیاہے۔

چوتھا اصول یہ ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کیاجائے جس میں دھوکہ دہی کا عنصر شامل ہو ، اس با ت قرآن پاک کی دلیل حاصل ہے، قرآن پاک کی بہت سی آیات ہیں جن میں دھوکہ دہی اور کسی چیز کو ، حتی کہ دشمن سامنے بھی غلط انداز میں پیش کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

اس طویل تمہید کے بعد اگر ہم جہاد کی لغوی واصطلاحی تعریفوں ،یا انواع واقسامِ جہاد اور اس کے احکام میں لگ جائینگے ،تو شاید مقررہ وقت کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھوٹ جائے،بنا بریں ہم یہاں ’’ جہاد میں جہاد ‘‘ کے کچھ نمونے پیش کئے دیتے ہیں ۔

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌ٭ بنونظیرنے ایامِ صلح میں معاہدۂ امن کے باوجود پیغمبرِاسلام ﷺ کو شہید کر نے کی ناپاک کوشش کی ،جس کے رو سے ان کو مدینہ میں رہنے کی گنجائش ختم ہوئی، تو انہیں صرف جلا وطن کیاگیا۔بنوقریظہ نے حالت جنگ میں اس طرح کا غدر کیا ،اور تمام مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی سازباز کی ، چانچہ ان کے صرف مردوں کو ان کے مقرر کردہ حَکَم کے کہنے پرتہِ تیغ کیاگیا۔’’گرم تعاقب ‘‘ کی اصطلاح میں اگر دیکھا جائے تو یہ عین انصاف ہے، اس شریر قوم سے تنگ آکر ہٹلر نے کیا کیاتھا، وہ آپ کے سامنے ہے۔

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌ٭ حضرت علی ؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ غزوۂ خندق میں ایک موقع پرجب وہ اپنے مد مقابل انتہائی طاقتوردشمن (عمروبن عبد وَدالعامری)کو پچھاڑ چکے، تو انہوں نے حضرت علی ؓ پر نیچے سے تھوک دیا، تو وہ ان سے یکدم پرے ہٹ گئے ،کسی نے پوچھا ،حضرت اس وقت تو آپ ان کا کام بڑی سے تمام کرسکتے تھے؟ فرمایا ،میری ان سے ذاتی کوئی دشمن نہیں ہے،نہ ہی ہم اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام لیتے ہیں۔(دلائل النبوۃ؍ج۳؍۴۳۲)،اسی واقعہ کے ذیل میں بعض مؤرخین نے حضرت علی کا اس جنگ میں ایک اور عجیب وغریب واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مبارز کو انجام تک پہنچایا، اورانکی تلوار،ڈھال اور زرہ لئے بغیر خالی ہاتھ لوٹے، نبی کریم ﷺ یا حضرت عمرؓ کے پوچھنے پر بتایا، ان کی شرمگاہ کھل گئی تھی ،میں شرم کے مارے سب کچھ چھوڑ کر واپس چلا آیا۔۔۔یقیناًدنیاکی تاریخ کسی بھی گھمسان کی جنگ میں حسنِ اخلاق کے اس کردار کا نمونہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌ٭ دوسرے خلیفہ راشد کے زمانے میں ، مسلمانوں اور ایرنیوں کے مابیں جنگ ہورہی تھی ، ایک ایرانی درخت پر چڑھ گیا اور اسکی چوٹی پر پناہ لے لی ، ایک مسلمان سپاہی نے اسے پالیا اور فارسی میں اسے کہنے لگا ، ماترس ، یعنی مت ڈرو، ایرانی فوجی یہ سمجھا کہ شاید اسے پناہ اور تحفظ دے دیاگیاہے، چنانچہ وہ نیچے اترآیا ، تاہم مسلمان فوجی نے اسے قتل کر ڈالا، حضرت عمرؓ کو اس معاملے کی خبر دی گئی ، انہوں نے ایک پالیسی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے یہی فارسی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر کوئی شخص دشمن فوجی کو ’’ ماترس ‘‘ اور بعد میں اسے قتل کتے پایا گیاتو اس پر قتل کا مقدمہ چلایا جائے گا اور وہ سزائے موت کاحق دار ہوگا، ایسے عمل کو دوسرے خلیفہ راشد نے قتل کے برابر گردانا صرف اس وجہ سے کہ ارادے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ، یہاں دھوکہ دہی کو اس کے لغوی معنوں سے کہیں زیادہ وسیع کر کے منع کردیاگیا۔

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌ٭ مسلمان حکومت نے جدید ترکی اور مصر کی سرحدوں کے قریب کہیں آباد غیر مسلم لوگوں سے معاہدہ کرلیا، یہ لوگ مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کیا کرتے تھے ، خاص طور پر وہ تجارتی قافلے جو عرب اور یورپ کے درمیان سفر کرتے تھے یہ انہیں لوٹ لیا کرتے ، سلطنت امیہ کے بانی حضر ت امیر معاویہ ؓ نے ان کے خلاف قدم اٹھانے کا فیصلہ کی اتاہم مسلمانوں نے ان سے جو معاہدہ کررکھاتھا اس میں وقت کی پاسداری ضروری تھی اور اس معاہدے میں ہرسال توسیع کردی جاتی تھی ، ان کے خلاف قدم اٹھانے کے لئے خلیفہ نے انتظار کی یہاں تک کہ یہ معاہدہ ختم ہونے کو آگیا ، اس معاہدے کے ختم ہونے سے ایک ماہ قبل ، انہوں نے تیاری کی اور اپنی کمان میں فوج کو حکم دیا کہ وہ اس علاقے کی جانب سے پیش قدمی کریں جہاں یہ مشکلات پیدا کرنے والے لوگ رہائش پذیر تھے، ان کا خیال تھا کہ وہ معاہدے کی آخری تاریخ تک انتظار کریں گے اور پھر معاہدے میں توسیع کرنے کے بجائے ، اگلی ہی صبح ان لوگوں کو سزا دیں گے، تکنیکی لحاظ سے ،قانونی ،آئینی اور آج کی زبان میں بین الاقوامی قانون کی روسے ان کا یہ قدم جائز ہوتا، وہ اپنے ہی علاقے میں نقل و حرکت کررہے تھے اور معاہدے کے عرصے میں ان کے خلاف کوئی قدم بھی نہیں اٹھارہے تھے، لیکن یہ خلیفہ کی ذاتی رائے تھی اور اس پر دوسروں سے مشاورت نہیں کی گئی تھی ، ایک صحابی رسول ﷺ عمربن انباسہ ؓ گھوڑے پر سوار ہوکر تیزی سے اس جانب بڑھے جس سمت مسلمان فوج پیش قدمی کر رہی تھی ، خلیفہ کو خبر دی گئی کہ کوئی شخص نزدیک آرہاہے، جب وہ قریب آئے تو دیکھا گیا کہ وہ صحابی رسولﷺ عمر بن ابناسہ ؓ ہیں، جب حضرت عمرؓنے مسلمان فوج کو جالیا وہ زور وشور سے چلارہے تھے ’’وفاء لاغدر‘‘ اپنا وعدہ پورا کرو، دھوکہ دہی کے مرتکب نہ ہو‘‘ ۔

خلیفہ تک پہنچنے کے بعد انہوں نے معاہدے کے متعلق اپنے فہم اور تعبیر کو واضح کیا اور یہ کہ خلیفہ کا یہ قدم کیسے دھوکہ دہی میں شامل ہے،حضرت عمر ؓ نے کہا کہ جب ایک مسلمان ریاست کچھ افراد کے ساتھ کوئی معاہدے کر بیٹھتی ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ ۳ باوجود اس کے کہ ان کے ارادے دسمنی کی جانب مائل ہوں ، پر امن رہاجائے طرفین کو جذباتی طورپر پرـ امن رہنا چاہئے ، یہ حقیقت کہ ایک مسلمان حکمران نے معاہد قوم کے خلاف فوجی کارروائی کا سوچا اور اس ارادے کے ساتھ اپنی فوجوں کو حرکت بھی دی اس کا مطلب یہ ہواکہ وہ معاہدے کی اصل روح یعنی معاہدے کے عرصے میں پر امن رہنے کے عزم کے خلاف ایک حرکت کے مرتکب ہوئے۔

چنانچہ مسلمانوں کو یہ حکم دیاگیاہے کہ اگروہ معاہدے کوختم کرنا چاہیں تو انہیں اپنے ارادے کا اعلانیہ اظہار کرنا چاہیے تاکہ دشمن کی موجودہحالت کے بارے میں آگاہ ہوجائے اور اسے پتہ چل جائے کہ مسلمان ان کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں چنانچہ وہ بھی اسی طرح تیار رہے، صرف اسی صورت میں مسلمان ان کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں جن کے ساتھ ان کا امن کا معاہدہ تھا، خلیفہ حضرت معاویہ ؓ (۴۰۲ ء ۴۸۰ء) سمیت مسلمان فوج نے اس تشریح کو قبول کیا اور فورا ہی اپنے اقدامات کو ختم کرکے ، دمشق واپس روانہ ہوگئے۔

ٌٌٌ٭ ۱۰۵ ھ اور ولید ابن عبد الملک کا عہد تھا ، جب اسلامی فوجیں سمرقند میں فاتحانہ داخل ہوئیں ، دیکھتے ہی دیکھتے سمرقند اسلامی ریاست کا حصہ بنادیاگیا، عدلیہ سمیت تمام محکمے وجود میں آگئے ، ابھی مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ سمرقند کے مقامی مذہبی پیشوا، اسلامی عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ سمرقند میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت خود اسلامی قانون کی روسے ہی ناجائز اور غیر قانونی ہے ،لہذا عدالت اس حکومت کو ختم کرکے مسلم فاتحین کو سمرقند سے نکل جانے کا حکم جاری کرے ۔قاضی نے انہیں اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کرنے کو کہا، تو ان کی پہلی ہی دلیل آخری او رحتمی بھی ثابت ہوئی ، مذہبی پیشواؤں کا استدلال تھا ، آپ کے مذہب کے قانون کے تحت مسلم افواج کے کمانڈر پر لازم ہے کہ کسی ریاست پرحملہ کرنے سے قبل وہ دعوت اسلام دے ،اگر یہ دعوت رد کردی جائے، تو پھر وہ جزیئے کی شرط کے ساتھ سرنڈر کا حکم دے ،اگریہ مطالبہ بھی رد کردیا جائے، تو تب مسلم افواج اس ریاست پر حملہ آور ہوسکتی ہیں ، قاضی نے تصدیق کی کہ بالکل ایساہی ہے، تو ان مذہبی پیشواؤں نے انکشاف کیا، کہ فتح سمرقند کے موقع پر مسلم فاتحین نے اس قانون کو مکمل طورپر نظر انداز کیا، نہ تو دعوت اسلام دی گئی اور نہ ہی جزیئے کی شرط کے ساتھ سرنڈر کا مطالبہ کیا گیا، قاضی کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا، اس نے فوری طورپر سمرقند کے فاتح نامور سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کو عدالت میں طلب کرلیا، قاضی نے قتیبہ بن مسلم سے صرف ایک سوال کیا، کیاواقعی ایساہی ہواہے، جیسا یہ مذہبی پیشوا بیان کررہے ہیں ؟ قتیبہ بن مسلم نے ان کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کچھ وضاحتیں اور وجوہات پیش کرنی شروع کردیں ، عدالت نے تمام وضاحتیں مسترد کرتے ہوئے پہلی سماعت پر تاریخ ساز فیصلہ صادر کردیا، مسلم عدالت نے سمرقند پر اسلامی حکومت کوناجائز اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ،نہ صرف اس کے خاتمے کا حکم دیا، بلکہ بلاتاخیر سمرقند سے نکل جانے کا حکم دیا، فیصلہ سناتے ہی قاضی نے اپناقلمدان سمیٹا اور کمرۂ عدالت خالی کردیا، مسلم لشکر نے سمرقند سے کوچ شروع کیا ،تو شہر کے باہر وہی مقامی مذہبی پیشوا ایک بار
پھر قاضی اور قتیبہ بن مسلم کے سامنے آگئے ،انہوں نے ان کے گھوڑوں کی لگام پکڑ کر کہا، سمرقند نے اپنی تاریخ میں ایسا منصف فاتح کبھی دیکھا اور نہ ہی مستقبل میں کبھی دیکھ سکے گا، خدارا ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں اب یہ ہماری ہی خواہش ہے کہ آپ ہی ہم پر حکومت کریں ،یوں سمرقند پر اسلامی حکومت قائم ہوگئی ، یہی واقعہ اہل سمرقند کے قبول اسلام کابھی سبب بنا۔

ٌ٭ تاریخ شاہد ہے صلیبی جنگوں کے دوران مسلم عوام اور حکمرانوں کے ساتھ مغربی غارت گروں نے کیا نارواسلوک کیا ، اور اہل اسلام کے ہاتھوں ان حملہ آور فوجیوں اور بعض مقامات پر یورپی بادشاہوں کی قید وبند کی حالت میں کتنا عجیب حسن معاملہ کیاگیا۔

ٌ٭ فی زمانہ ایوان ریڈلی اور ان جیسے بہت سے مغربی قیدیوں کے واقعات میڈیا نے کھل کر بیان کئے ہیں ،مجاہدین انہیں اذیتیں دے سکتے تھے ، انہیں بھوکا پیاسا رکھ سکتے تھے ، خواتین قیدیوں کے ساتھ جنسی کے امکانات موجود تھے ، لاشوں کی بے حرمتی ممکن تھیں ، لیکن سب کچھ اگر کسی نے کیا تو وہ ان لوگوں نے کیا جو مہذب کہلاتی ہیں ، عافیہ صدیقی کے ساتھ ظالمانہ سلوک ، مساجد ومعابد اور سکول ہسپتالوں کو نشانہ بنانا، ڈروں حملوں میں معصوم لوگوں کو ہدف کرنا، باگرام ،ابو غُریب اورگوانتانامو بے میں انسانیت کی لرزہ خیزتذلیل ، قرآن کریم کی بے حرمتی کے متعدد واقعات ، لاشوں پر پیشاب ، پورے مذہب کوبدنام کرکے اسلامو فوبیا کا ہوا کھڑانا ، قانون بین الاقوام میں ممنوع انگنت اقسامِ اسلحہ استعمال کرنا، یہ کس کے کارنامے ہیں ، افسوس سے کہنا پڑتاہے ، یہ ان لوگوں کے کارنامے ہیں ، جو دنیا کو تہذیب وتمدن ، حقوقِ انسانی اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری سکھاتے ہیں ، ہم مغربی اقوام کا احترام کرتے ہیں ، ان کی ترقی کو سلام کرتے ہیں، مگر کاش ،ان اقوام کو بحیثیت ِاقوام عقل وہوش آجائے، کہ ان کے حکمرانوں اور ان کے اہل اقتدار نے انہیں دنیا میں کتنی نفرت دلائی ، انہیں کس قدر بدنام اور رسوا کیا، ان کے دامن کو کس حد تک داغدار اور تار تار کردیا، اے کاش ۔

٭ اب ایک جھلک یہ بھی ،طالبان کے جیلر بابا جیلانی سے میں نے ایک موقع پر پوچھا ،آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نیٹو سپاہی تمھارے ہاتھوں جسمانی قیدی بننے کے بعد آپ کے روحانی قیدی بن جاتے ہیں، کہیں برین واش تو نہیں کر تے آپ لوگ ، وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا، نہیں جی،برین واش نہیں کرتے ،شکم واش کرتے ہیں، خود روکھی سوکھی کھاتے ہیں ، انہیں بادام ، پستہ ،مکھن اوردودھ و گھی میں توڑی ہوئی روٹی کہلاتے ہیں،ان کی عزت کر تے ہیں،احترام کرتے ہیں،مہمان کی طرح رکھتے ہیں،ان کے خاندانوں سے ان کے رابطے کراتے ہیں،ان کے لئے اور ان کی اقوام کے لئے دعائیں کر تے ہیں،نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

ایک جرمن خاتون صحافی نے مجھ سے میرے آفس میں انٹرویو کے درمیان پوچھا،یورپ میں خواتین کے حقوق کا بہت خیال رکھاجاتاہے ، مسلمانوں کے یہاں اس حوالے سے کوتاہی کی بات کی جاتی ہے، آپ کیا کہینگے؟ میں نے کہا، اس کا جواب عافیہ اور ریڈلی کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے موجود ہے۔

٭ فلسطین میں مسلمان بچوں ، بوڑھوں ، نوجوانوں ، قیدیوں اور مساجد ورہائشی بستیوں میں کیاہورہاہے، کیایہ حالات آج کے کسی ذی شعور سے مخفی ہیں ، کیا ان سب کچھ میں صہیونیوں کو یورپ اور بالخصوص امریکہ کا آشیر باد حاصل نہیں ہے؟
لمثل ھذا یذوب القلب من کمد- ان کان فی القلب اسلام وایمان

٭ لیبیا کے کرنل معمر قذافی کے خلاف کارروائی ہو یا مالی کے بے چارے طوارق ،افغانستان کی امارت اسلامیہ ہو یا صومالیہ کے کمزور قبائل ،عراق کے لیڈر صدام حسین ہو ، یا چیچینیا کے رشین فیڈریشن میں محصور رہنما جو ہر دودایف ،ان تہذیب یافتہ کہلانی والی اقوا م نے بھوکے بھیڑیوں کی طرح ان پر کس بے رحمانہ ،بے باکانہ ،بے ترسانہ اور توہین آمیز انداز میں یلغار کی ، یہ آیندہ نسلوں کے لئے ایک سوہانِ روح اورغم تاریخ ہے۔

٭ بوسنیا میں جب تک خون کی ندیاں نہ بہائی گئیں ، عزتیں نہ لوٹی گئیں ، نسلی تطہیر کی شرمناک کردار ادا نہ کئے گئے ، اس وقت تک ان طاقتور اقوام کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگی ، آج جب وہی تاریخ مکمل طور پرشام میں اور ایک حدتک برما میں دھرائی جارہی ہے، تاریخ انسانی کا ایک المناک سانحہ رقم کیا جارہاہے ،ان متمدن اقوام پر مشہور ضرب المثل سو فیصد منطبق ہو رہی ہے کہ’’ خوئے بد را بہانہ بسیار‘‘۔

لیکن اﷲ تعالی کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ اہل اسلام نے یہاں ان بدترین حالات میں بھی حق او ر سچ کا دامن تھامے رکھا، کوئی سچا واقعہ جو ان حق پر ستوں کے لئے آیندہ کی انسانی تاریخ یاقانون بین الاقوام میں باعث شرم وخجالت ہو،دنیاکی کوئی طاقت پیش نہیں کرسکتی ،کیا اس’’ صورۃ منتزعۃ‘‘ اور مجموعی صورتِ حالات سے مسلح تصادم میں اسلامی اخلاقیات کے نفاذ کی چمکداراورخیرہ کن کرنیں نہیں پھوٹتیں ؟ پراﷲ تبارک وتعالی نے سچ فرمایا ہے :’’فانھا لاتعمی الأبصار، ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور‘‘ ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 828928 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More