دوسری شادی

اسلامی معاشرے میں مردوں کی دوسری شادی خواہ وہ خفیہ ہو یا اعلانیہ ہمیشہ موضوع بحث بنی رہی ہے تاہم پاکستان میں اس حوالے سے گفتگو کا ایک نیا سلسلہ اس وقت دراز ہوا جب پنجاب اسمبلی میں دوسری شادی کے حوالے سے ایک خاتون قانون ساز ثمینہ خاور حیات نے مردوں کو پہلی بیوی سے اجازت حاصل کئے بغیر دوسری شادی کرنے سے روکنے والے قوانین میں ترمیم لانے کے معاملے میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں موجود قوانین میں ترمیم لانے کی ضرورت ہے اور مردوں کو پہلی بیوی سے اجازت حاصل کئے بغیر دوسری ‘ تیسری یا چوتھی شادی کرنے کی بھی اجازت ہونی چاہئے۔صوبائی اسمبلی میں دوسری شادی کا معاملہ سرکاری محکموں میں غیر شادی شدہ خواتین کی بھرتی کے حوالے سے ایک تحریک پر بحث کے دوران اُٹھایا گیا۔

ہمارے معاشرے کا المیہ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ مذہب کو اپنے مفاد ات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں ‘اس کی واضح مثال دوسری شادی ہے۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام میں مردوں کو بیک وقت چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے تاہم اس کے پیچھے نہ صرف کچھ محرکات بلکہ کڑی شرائط بھی ہیں جنہیں پس پشت ڈالتے ہوئے مرد محض اپنی تسکین اور مفادات کے حصول کے لئے دوسری اور پھر تیسری شادی رچالیتے ہیں اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ چوتھی شادی کے خواب بھی دیکھتے ہیں۔

اس حوالے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ وہ کون سے حالات اور عوامل تھے جن کی بناءپرمذہب نے مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ۔تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سی عورتیں جب مشرف بہ اسلام ہوئیں تو اُن کے شوہر یا دیگر اہل خانہ نے ان سے منہ موڑ لیا۔ ایسے میں انہیں پناہ دینے کے مقصد سے مردوں کو دوسری یا تیسری شادی کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ جنگ اور غزوات کے دوران شہید ہونے والوں کی بیویوں کو بے راہ روی سے بچانے کی غرض سے بھی یہ اجازت دی گئی ‘ جنگ کے بعد آنے والی قیدی خواتین کو سنبھالنا اور ان کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھانا بھی اس اجازت کا سبب بنا ‘ اس کے علاوہ بیوہ اور مطلقہ خواتین کو معاشرتی مساوات دینے کی غرض سے بھی دوسری شادی کی اجازت دی گئی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی صادر فرمادیا گیا کہ بیگمات کے ساتھ مساوات رکھی جائے۔ ان کے حقوق احسن طریقے سے پورے کئے جائیں‘ اگر مرد میں ان چیزوں کی استعداد نہیں ہے تو پھر اسے دوسری شادی نہیں کرنی چاہئے۔

اگر ہم اپنے معاشرے میں دوسری شادی کے محرکات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر مرد ایک شادی والدین کی مرضی سے کرنے کے بعد اپنی پسند سے دوسری شادی کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔اپنی پسند سے کی گئی شادی کے نتیجے میں جو عورت بیوی بن کر اس کے گھر آتی ہے اس کے اور والدین کی پسند کی بیوی کے معیار زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اولاد کی خاطر دوسری شادی کرتے ہیں توکچھ فقط اپنی تسکین کی خاطر۔فی زمانہ مردوں کے لئے دوسری شادی یا تو نمائشی نمونہ ہوتی ہے یا پھر آمدنی میں اضافے کا ذریعہ‘ بہت سے مرد دوسری شادی محض اس لئے کرتے ہیں کہ پہلی بیوی گھریلو اور سادہ طبع ہوتی ہے جنہیں لے کر وہ سوسائٹی میں موو نہیں کرپاتے۔ ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ مرد دل لگی کے طور پر دوسری عورت سے تعلق قائم کرتے ہیں جو نتیجتاً دوسری شادی پر ختم ہوتے ہیں۔

مردو ں کی اکثریت کھلے عام دوسری شادی کی ہمت نہیں کرتی جس کی وجہ سے خفیہ طور پر دوسری شادی کرنا عام سی بات ہوچلی ہے جو دینی لحاظ سے تو ہے ہی غلط ‘ معاشرہ بھی اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔مذہب نکاح کے وقت گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیتا ہے ۔خفیہ طور پر کی جانے والی شادیوں میں پہلی بیوی سے شادی کی اجازت نہیں لی جاتی جو مذہب کے خلاف ہے۔

ہمارے ہاں دوسری شادی کرنے والے مردوں کے پاس شادی کے لئے درست جواز ہوتا ہی نہیں اس لئے وہ عورتوں کے استحصال کا باعث بنتے ہیں بصورت دیگر معاشرے میں ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں ملتی ہیں کہ عورتوں نے اپنے شوہروں کی کھڑے ہوکر شادیاں کرائی ہیں اوران شادیوں کے نتائج بھی نہایت خوشگوار برآمد ہوئے ہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر معاملات درست سمت میں جارہے ہوں تو خواتین کے لئے سوکن یا دوسری عورت کے وجود کو برداشت کرنا ناممکن نہیں ہوتا لیکن جن معاملات میں ان کی حق تلفی اور مردوں کی بے وفائی سامنے آتی ہو ایسے معاملات خواتین کے لئے انا کا مسئلہ بن جاتے ہیں اور پھر بربادی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔مردوں کی خواتین کے ساتھ روا ناانصافی اور حق تلفی معاشرتی انتشار کا باعث بنتی ہے۔ شوہر کی بے رُخی اور مظالم کا شکار خواتین غلط ہاتھوں میں پڑ جاتی ہیں۔ فی زمانہ تو سستی شہرت کے لئے کچھ تنظیمیںایسی خواتین کو حقوق دلانے کے نام پر لوٹتی اور ان کے جذبات کا مذاق اُڑاتی ہیں۔

مفتی محمد عبدالقیوم خان ہزاروی اپنی کتاب ”کتاب انکاح و طلاق “ میں لکھتے ہیں کہ ۔”دوسری شادی کے لئے قرآن کریم میں عدل و انصاف کی شرط ہے۔ اگر عدل نہ کرسکے یا جسمانی یا مالی لحاظ سے حقوق زوجیت ادا نہ کرسکے تو ایک سے زائد شادی کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ایک بیوی کی بھی مالی و جسمانی لحاظ سے توفیق نہیں تو ایک کی بھی اجازت نہیں‘ روزے رکھے جائیں۔ اگر مالی اور جسمانی صحت کے لحاظ سے دوسری شادی کی استطاعت رکھتا ہے تو بھی موجودہ عائلی قوانین ”مسلم فیملی لائ“ کے تحت دوسری شادی سے پہلے بیوی کی اجازت لینا ضروری ہے۔“

یعنی دوسری شادی یا ایک سے زائد شادی اس وقت تک کوئی برائی نہیں ہے جب تک مرد بیویوں کے حقوق پورے کرنے مےں غفلت نہ برتے اور ان کے حقوق کا اسلامی رو سے خیال رکھے۔دوسری شادی کرنے والے مرد کو چاہئے کہ وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے حالات کا بغور جائزہ لے کہ کہیں اس کے قدم سے کسی کی حق تلفی تو نہیں ہورہی‘ اسے پہلی بیوی کی ناراضگی مول نہ لے کر بلکہ اس کی اجازت کے بعد ہی یہ قدم اٹھائے۔ بیویوں کے ساتھ مساوات برتی جائے تاکہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔

پاکستانی قوانین کے تحت کسی مرد کو دوسری شادی کرنے سے قبل اپنی پہلی بیوی سے واضح طور پر اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور شرعی قوانین میں اس رُجحان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے دوسری شادی پر کڑی پابندیاں لگائی گئی ہیں تاہم خاص طور پر دیہی علاقوں میں ایک سے زائد شادیاں کرنے کا رواج اب بھی عام ہے۔

سورہ النساءمیں اسلام میں مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت اس شرط پر دی گئی ہے کہ اگر وہ بیویوں میں انصاف قائم رکھ سکیں ۔ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور قانون میں بھی یہی اجازت مل جائے تو یہ ایک قانونی معاملہ بن جائے گا تاہم اس قانون کے نفاذ کے دوران کوئی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ کوئی مرد اپنی بیویوں کے ساتھ انصاف پر مبنی سلوک روا رکھنے کی شرط پوری کرسکتا ہے بہرکیف قبل از وقت کوئی بات کرنا درست نہیں ہے۔ اس کے نتائج پر صرف اس وقت غور کرنے کا موقع ملے گا جب اس طرح کے مسائل سامنے آئیں گے تاہم اس طرح کے قانون سے معاشرے میں خواتین پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں خواہ کسی خاتون کو ازدواجی زندگی میں پہلی بیوی کے طور پر اس کا کبھی تجربہ نہ ہوا ہو لیکن وہ ہمیشہ اس دباﺅ کا شکار رہے گی کہ کب اس کے شوہر کے دل میں دوسری شادی کی خواہش کی جاگ اٹھے یعنی وہ اس پر غور کرے اور دوسری شادی کی اجازت سے فائدہ اٹھائے۔ اس عورت کا کم از کم ردعمل یہ ہوسکتا ہے کہ وہ خاندان کی معاشی بہبود کے لئے اس حالت پر سمجھوتہ کرے۔ معاشرے کی خواتین کے لئے ذہنی سکون کا خاتمہ صدمے کی مانند ہے ‘اس پر معروضی اور انسانی ہمدردی کے انداز میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.