انشاء جی اٹھو، اب "کوچ" کرو
ہمارے کرکٹر حضرات وہ واحد پروفیشنلز ہیں جو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں
بلکہ صرف وعدے وعید کے بل بوتہ پر پیسہ کماتے ہیں۔ میچ ہرائیں، یا غلطی سے
جتائیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
ایک لیڈر کی جو صفات اور اقدار ہونی چاہئیں وہ ان میں ناپید ہیں۔ ہمارے موجودہ
کرکٹ کیپٹن صاحب سیریز شروع ہونے سے پہلے ہی یہ چھکا لگا دیتے ہیں کہ ہم جیتنے
کی گارنٹی نہیں دے سکتے۔ جب یہ حضرت ابتداء ہی غلط کریں گے، اور اہداف و مقاصد
کے لیے عزم کا اظہار نہیں کریں گے تو دیگر ٹیم کے ارکان کو کس طرح بڑھاوا دیں
گے؟ چنانچہ اس پس منظر میں شعیب ملک کا یہ بیان خاصہ معنی خیز اور سمجھ میں آنے
والا ہے کہ بھئی، ہندوستانی لڑکی، عائشہ صدیقی، سے صرف شادی کا وعدہ ہی تو کیا
تھا، کوئی شرعی شادی تو نہیں کی تھی۔ گویا کہ وعدے تو ہوتے ہی کچے ہیں۔ یہ ایک
شرمناک صورت حال ہے۔ ایک مثالی نظم و ضبط کے ماحول میں ایسے بیانات کی قوم کو
شدید مذمت کرنی چاہیے، اور اس معاملہ کا فیصلہ ہونے تک شعیب ملک کو خود ہی ٹیم
کی رہنمائی سے گریز کرنا چاہیے۔ فی الحال تو یہ صاف لگ رہا ہے کہ شعیب ملک گگلی
پہ گگلی پھینک رہے ہیں اور وہ گیندیں ہندوستانی صدیقی خاندان کو سمجھ نہیں آرہی
ہیں۔ دیکھیں، آخر میں ایکشن ری پلے اور میچ ریفری کیا فیصلہ دیتے ہیں۔ خواتین و
حضرات، چونکہ یہ میچ اس وقت فسادات٫ مذکورہ کی وجہ سے ملتوی ہے، ہم فی الحال آپ
کو مرکزی صفحہ پرجانے اور گھومنے پھرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
دوستو، ہم ابھی پاکستانی کرکٹ پر یہ سطور لکھ پڑھ کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ ہم ٹی
وی دیکھ بیٹھے۔ پی سی بی کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف نے ایک مذاکراتی پروگرام،
میں جمعہ، 8 فروری 2008 کو یہ استدلال پیش کیا کہ ٹیم ممبران غیرملکی کوچ کو ہی
ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہ کہ پاکستانی کوچ سفارش اور تعصبات کے چکر میں پڑ جاتے
ہیں۔ اگر یہ دلیل مان لی جائے تو نہ صرف تمامتر پی سی بی، بشمول چیئرمین، بلکہ
ٹیم بھی غیرملکیوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پاکستانیوں
پر کسی بھی معاملہ میں اعتبار کرنا دشوار امر ہے۔ تو اگر اس استدلال کو تجزیہ
کے ساتھ معاشرہ کے تمام طبقات پر منطبق کردیا جائے تو پاکستان کے تمام مسائل کا
حل یہی ہے کہ یہاں غیرملکیوں کو لا بسایا جائے۔ ابن٫ انشاء تو یہ کہہ کر ہی چل
بسے کہ یہ وہ پاکستان ہے جہاں پاکستانی قوم کے علاوہ تمام قومیت کے لوگ ہنستے
بستے ہیں۔۔۔ اور پاکستانی روتے دھوتے ہیں۔ واقعی کتنا کڑوا سچ ہے یہ۔ اب آپ
اپنی رائے اس بارے میں ہمیں بتائیں۔ اور جب تک ہم ستم ظریف ابن انشاء مرحوم کا
یہ مصرعہ گنگناتے ہیں : ۔۔۔
انشاء جی اٹھو، اب "کوچ" کرو ۔۔۔ اس شہر میں جی کا لگانا کیا
جاتے جاتے ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ انشاء جی کو شاعری کے مقابلہ میں برسوں پہلے ہی
کرکٹ کوچنگ جیسے پرکشش اورذمہ داریوں سے مبرا، محفوظ پیشہ کا خیال کیسے آگیا
تھا
|