جستجو- لالچی لکھاری

لالچی لکھاری

اف یہ امریکی کتنے لالچی ہوتے ہیں، ہمارے ایک دوست نے اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا۔ کیوں کیا ہوا، کیا ہمارے ملک پاکستان اور دیگر ممالک میں بھی لالچیوں کی کوئی کمی ہے۔ ہم نے تو اس بارے میں ایک مستقل شعبہ ہی قائم کیا ہوا ہے، نیب کا، جو ہر اس غریب کا احتساب کرنے پر تلا رہتا ہے جو جلد از جلد امیر بننے کی سر توڑ کوششیں کرتا ہے۔ مثلاً بنکوں سے قرضے لے کر ہڑپ کرکے، یا سیدھے سیدھے بنکوں اور سناروں اور جوہریوں کو لوٹ کر۔ بھائی تم بھی کس جستجو میں لگے رہتے ہو، ایران توران تک ہی رہو، امریکہ جیسے دور دراز اور دشمن٫ جان تک کیوں جا پہنچے، ہم نے استفسار کیا اور ایک دوستانہ سرزنش بھی کی۔

بڑے بھائی، آپ بھی تو میری پوری بات سنتے نہیں، اور جلد بازی کرتے ہوئے لقمہ دینے لگتے ہیں، انہوں نے کسی قدر ناراض ہوتے ہوئے جواب دیا۔ اچھا تو بولیے، کیا بات ہے ان امریکیوں کی، جن سے آپ اس قدر خفا ہیں۔ دیکھیں جی، وہ گویا ہوئے۔ یہ امریکی ادیب، ادباء اور شاعر و شعراء وغیرہ ہیں نا،،،،، جی، جی فرمائیے، ہم نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر ان کی قطع کلامی کی جسے انہوں نے اس مرتبہ اپنے جوش و خروش کی وجہ سے نظر انداز کردیا۔ اب ان کے منہ سے باقاعدہ جھاگ اڑ رہے تھے۔ دیکھیں جی، ان لوگوں نے نومبر 2008 سے قلم چھوڑ، ڈنڈا پکڑ ہڑتال کر رکھی ہے۔ ہالی وڈ کے اچھے اچھے ڈرامہ اور فلم پروڈیوسر چیں بول گئے ہیں۔ اچھا، ہم نے دانتوں تلے انگلی دبا کر کہا، آخر ایسا کیوں؟ تو کیا اب ہمیں مزید اسلام دشمن مگر پرکشش رال ٹپکوانے والی فلمیں اور جملے سننے اور دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔۔۔ یہ تو ایک طرح سے مقامِ شکر ہے۔ لیکن آخر انہوں نے ہڑتال کیوں کر رکھی ہے، کیا امریکی سنسر اتھارٹی نے بھی، ہماری پاکستانی پیمراکی طرح، کوئی کالے قوانین بنا کر ان کے تیکھے جملوں اور خوف ناک شکلوں پر سنسر عائد کردیا ہے۔ نہیں جناب، یہ لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ادیبوں کے حقوق؟ یہ بھی کچھ ہوتے ہیں؟ اب ہمیں اس موضوع میں کچھ دلچسپی پیدا ہونے لگی۔ حروف کی حرمت کا تو سنا تھا ہم نے۔ مگر اس کا تعلق حقوق سے نہیں بلکہ ذمہ داریوں سے ہے۔ اچھا تو پھر کیا ہوا۔ ان قلمکاروں کا مطالبہ کیا ہے؟ ہم نے ان سے بے تاب ہوکر پوچھا۔ وہ بولے: یہ لوگ اپنی آمدنی میں اضافہ کے لیے، اور انٹرنیٹ پر اپنی لکھی ہوئی تحریروں کا معاوضہ طلب کر رہے ہیں۔ اور اب 90 روز کی جدوجہد کے بعد اس بارے میں کامیابی کی کچھ امید ان ہڑتالیوں کو ہو چلی ہے۔ یہ سننا تھا کہ ہمارا حسد اور رشک سے برا حال ہوگیا، اور ہم ایک مراقبہ میں چلے گئے۔

پاکستان رائڑز گلڈ کا قیام کئی عشروں قبل عمل میں آیا تھا۔ متحدہ پاکستان کے تمام اہم شاعر اور ادیب جمع ہوئے۔ ہمارے غالب کے خانوادہ سے تعلق رکھنے والے محب پاکستان، اور بڑی حد تک عملیت اور ترقی پسند شاعر اور ادیب اور دانش ور جناب جمیل الدین عالی جی اس کے سرخیل بنے۔ خاصی قراردادیں پیش کی گئیں اور منظور ہوئیں۔ ان میں ادیبوں کے معاوضے کی مانگ بھی شامل تھی۔ تاہم آج تک پاکستانی ادیبوں اور قلم کاروں کو نہ تو معاوضہ ہی ملا، اور نہ ہی معاشرہ میں خاطر خواہ قدر و منزلت نصیب ہوئی۔ یعنی بقول شخصے، نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم۔ اور نہ ہی ایسے قلم کار کسی قابلِ ذکر تعداد میں نظر آئے جو صرف قلم کے بل بوتہ پر سرمایہ کار بن گئے ہوں۔ ہاں اخبارات اور برقی میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے والوں، توندیلے موٹی عقل والے سیٹھوں کو اس زمرہ میں شمار نہ کیا جانا چاہیے۔ پاکستانی ادیبوں اورقلم کاروں کا شمار صوفیوں اور درویشوں میں ہوتا ہے۔ یہ صرف دعا دیتے ہیں امیروں کو، اور وہ بھی بلا کسی مالی لالچ کے۔ مفت میں محنت کرتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں، لکھتے پڑھتے ہیں، اور مفت ہی میں ٹی وی چینلوں کے مذاکرات میں شرکت کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان میں سے اکثر مرزا غالب کی طرح فرشتوں کے لکھے پر ناحق پکڑے بھی جاتے ہیں۔

تو پیارے قارئین، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ امریکی واقعی بڑے لالچی ہیں۔ درویش صفت صوفی پاکستانی ادباء اور شعراء کرام زندہ باد۔ کم از کم ان پر کسی طمع کا الزام نہیں عائد کیا جاسکتا۔ ان میں جو قلمکار اور صحافی کسی طرح چند پیسے کما پاتے ہیں، انہیں دیگر لنڈورے اور محروم “لفافہ منش” کا پرحقارت نام دیا کرتے ہیں۔ تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستانی ادیبوں کی بھوک صرف روحانی ہوتی ہے، اور یہ سب ہماری طرح نام و نمود کے فقیر، اور چند حروف٫ ستاِئش کی مار ہوتے ہیں۔ اور اب ہمیں یہ بھی سمجھ میں آرہا ہے کہ وہ کیوں آٹے دال چاول کی عدم دستیابی پر خاموش اور مہر بہ لب ہیں۔ آپ کو بھی سمجھ آئی، یا آکر چلی گئی۔۔۔۔
محمد بن قاسم
About the Author: محمد بن قاسم Read More Articles by محمد بن قاسم: 4 Articles with 7256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.