میلان طبع

میلان طبع یعنی فطرت کا جھکاؤ یا طبیعت کا راغب ہونا

چونکہ انسان ابتدا سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کا عادی ہے کوئی بھی انسان تن تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتا کسی نہ کسی حوالے سے ہر انسان کو دوسرے انسان کی ضرورت رہتی ہے انسانوں کا انسانوں کے ساتھ مل کر رہنے سے ہی معاشرہ وجود میں آتا ہے

فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے افراد کے بغیر معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور معاشرہ ہی افراد معاشرہ کی پہچان ہے افراد و معاشرہ باہم لازم و ملزوم ہیں ہیئت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بظاہر تمام انسان ایک جیسے ہیں کلی طور پر ایک جیسے جسمانی اعضاء ہونے کے باوجود ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے ہر انسان کی اپنی ایک پہچان ہے اور جداگانہ حیثیت اور انفرادیت ہے اور یہی پہچان انسانوں میں ایک دوسرے میں امتیاز اور فرق کو واضح کرتی ہے

جس طرح ظاہری طور پر انسان کی ایک الگ پہچان ہے فطری میلان اور رجحانات کے حوالے سے بھی انسانوں میں باہم اختلاف رہتا ہے میلان طبع انسان میں کس طرح در آتا ہے اور انسان کیوں کسی سمت جھکاؤ اور رغبت محسوس کرتا ہے تو اس کا جواب ہے تجسس

تجسس ہمیشہ سے انسان کی فطرت میں رہا ہے اور یہ تجسس ہی ہے جو انسان کو کسی سمت راغب کرتا ہے تجسس کا محرک انسان کی کسی فرد میں، کسی شے میں، کسی من‍ظر مظاہر فطرت میں دلچسپی ہے
دلچسپی انسان میں تجسس پیدا کرتی ہے اور تجسس انسان میں رغبت پیدا کرتا ہے اور یہ رغبت ہی میلان طبع ہے

یہی فطری میلانات و رجحانات مل کر انسان کی شخصیت بناتے ہیں چونکہ ہر انسان کے فطری میلانات و رجحانات ایک دوسرے سے متضاد ہوتے ہیں اسی لئے ہر انسان کی شخصیت دوسرے انسانوں سے متضاد و متصادم ہوتی ہے اور یہ تصادم و تضاد ہی دنیا میں مختلف اوقات میں مختلف انوع ایجادات و اختراعات کا موجب رہا ہے

مختلف النوع ایجادات و اختراعات کی تشکیل تک تو یہ تصادم اور تضاد درست ہے کہ جو معاشرے میں مثبت تغیر و انقلاب کی صورتحال پیدا کرنے کا مؤجب بنتا ہے لیکن یہ تضاد اور تصادم منفی اور شدید نہیں ہونا چاہیئے کہ معاشرے میں ناقابل برداشت خسارے کا باعث ثابت ہو

ہر انسان کی شخصیت کی طرح کسی بھی چیز کے متعلق ہر انسان کے افکار و نظریات بھی ایک دوسرے سے متصادم رہتے ہیں ہر انسان ہر چیز کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اور جسے اپنی دانست میں بہتر سمجھتا ہے اسے ہی درست مانتا ہے تو پھر اثبات و نفی کا فرق کیسے واضح ہو، کیسے اندازہ لگایا جائے منفی رجحانات کیا ہیں، اور مثبت رجحانات کیا ہیں؟

چونکہ انسانی زندگی چار اہم بنیادی عناصر آگ، پانی، مٹی اور ہوا سے مرکب ہے جو کہ تاثیر و خواص کے اعتبار سے یکسر مختلف ہیں خود انسان کی اپنی تشکیل مذکورہ چار عناصر کے ملاپ کا نتیجہ ہے لازم ہے کہ ہر انسان پر ان تمام عناصر کی تاثیر مختلف اوقات میں مختلف طریقے سے اثر پذیر رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان عناصر کے اثرات کے زیر اثر انسان بھی مختلف اوقات میں مختلف کیفیات میں مبتلا رہتا ہے اسی لئے انسان کا مزاج اسکا میلان اور رجحانات تبدیل ہوتے رہتے ہیں

انسانی شخصیت پر مختلف اوقات میں ہر دو منفی و مثبت رجحانات اثر انداز ہوتے رہتے ہیں اور انسانی شخصیت پر یہ اثرات انسان کے معاشرے، ماحول اور حالات و واقعات کے زیر اثر طاری ہوتے ہیں لیکن کسی پر یہ اثرات مستقل نہیں عارضی ہوتے ہیں اور ان میں تبدیلی ممکن ہے

انسان کی یہ خاصیت ہے کہ وہ کسی بھی کیفیت میں ہمیشہ مبتلا نہیں رہتا بلکہ ہر آن انسان کا مزاج اسکی کیقیات اسکی پسند و نا پسند تبدیل ہوتی رہتی ہے انسان کبھی منفی رجحانات کے زیر اثر برائی کی طرف مائل ہونے لگتا ہے تو کبھی مثبت رجحانات کے زیر اثر انسانی فطرت کا جھکاؤ انسان کو بھلائی کے راستے پر گامزن رکھتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ انسان اس راستے پر مستقل گامزن رہے

زندگی کے متعلق ہر انسان کا اپنا نقطہ ن‍ظر ہے جو نظریہ ہماری نظر میں بہتر اور مستند ہے ممکن ہے دوسرے اس سے اتفاق نہ کرتے ہوں اسی طرح شر اور خیر کے متعلق بھی ہر انسان کا اپنا نظریہ ہے ہر انسان اسی بات کو درست سمجھتا ہے جو اسکی اپنی دانست میں درست ہے اسی راستے پر چلنا پسند کرتا ہے جو اس کی نظر میں بہتر ہے بھلے ہی دوسروں کا نظریہ اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہو جب ہر انسان کا نظریہ متضاد ہے تو پھر خیر اور شر میں تمیز کیونکر ممکن ہو سکتی ہے

مذکورہ مباحث درست صحیح لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خالق نے انسان کی تربیت کے لئے آدمی کی پیدائش سے ہی اس پر اپنی پیش بہا عنایات کا سلسہ جاری رکھا ہے انسان کی تربیت اور رہنمائی کے لئے ہر زمانے میں اپنے خاص بندوں کو ہدایت کی روشنی دیکر دنیا میں بھیجا ہے جنہوں نے انسانوں میں خیر و شر میں تمیز کرتے ہوئے اپنے لئے خیر کا راستہ منتخب کرنے اور شر کا راستہ ترک کرنے والی ہدایت کی روشنی واضح کر دی ہے اپ یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اپنے لئے کس راستے کا انتخاب کرتا ہے

انسان کو قدرت کی طرف سے خیر و شر ہر دو راستوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے اور یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ انسان کے لئے کس راستے پر چلنا اور کس راستے کو ترک کرنا بہتر ہے انسان اپنی زندگی کا راستہ منتخب کرنے میں آزاد بھی ہے اور خود مختار بھی اب یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے کس راستے کا انتخاب کرتا ہے

جبکہ انسان کو قدرت کی طرف سے ایسی نعمتوں سے بھی نواز دیا گیا ہے کہ جن کے بل پر انسان خیر و شر میں باآسانی تمیز کر سکتا ہے انسان کو قدرت کی طرف سے عطا کردہ دل، دماغ، عقل اور دل ایسی نعمتیں ہیں جن کے درست استعمال سے حاصل ہونے والا نور بصیرت ایسی روشنی ہے جو انسان پر ہر چیز کے منفی و مثبت ہر دو اثرات کو واضح کردیتی ہے

کہتے ہیں کہ انسان کا دل ذات باری کا مسکن ہے لیکن اس دل کو واقعی میں خالق کا مسکن بنانے کے لئے دل کو ہر آلائش سے پاک صاف کرکے بالکل آئینے کی طرح شفاف کرنے سے ہی دل کو خالق کا مسکن بنایا جا سکتا ہے اسی صورت دل کو وہ نور وہ روشنی میسر آتی ہے جو خیر کے تمام در وا کرتی ہے اور انسان پر شر کے اندھیرے اس طرح عیاں کرتی ہے کہ وہ کبھی شر کی سمت جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا

کہتے ہیں کہ انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوا ہے اور اصل میں یہی فطرت سلیمہ ہی انسان کا میلان طبع ہے جو انسان کو برائی کے راستے پر جانے سے روک دے اور بھلائی کے راستے پر گامزن کر دے یہی میلان طبع انسان کو نور بصیرت کی روشنی سے آبنا کرتی ہے اور پھر یہی روشنی انسان کو شر سے روکتی اور خیر کی طرف بلاتی ہے جو انسان کو کامیابی کی اس منزل تک پہنچاتی ہے جو انسان کا اصل مقام ہے کہتے ہیں کہ انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوا ہے اور اصل میں ہیہ فطرت سلیبہ ہی انسان کا میلان طبع ہے جو انسان کو برائی کے راست پر جانے سے روک دے اور بھلائی کے راستے پر گامزن کر دے
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 455698 views Pakistani Muslim
.. View More