اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں کیا نظر آتا ہے ذرا غور کریں بلکہ غور کرنے کی
ضرورت بھی نہیں پڑے گی آپ کو خود بخود دکھائی دے جائے گا کہ ہم انسانوں کی
کس بستی میں زندہ ہیں سانس لے رہے ہیں یا گھٹن زدہ ماحول میں جبر کے ساتھ
جی رہے ہیں
یہ انسانی معاشرہ جس میں ہم زندہ ہیں بےشمار حیوان نما انسانوں سے بھرا پڑا
ہے جنہیں اپنے جیسے انسانوں کا خون چوسنے کی عادت ہے ان سے بہتر تو گدھ ہے
کہ جو اپنے شکار کا جسم بھنبھوڑنے سے پہلے کم از کم جسم سے جان نکلنےکا
انتظار تو کرتا ہے تاکہ شکار کو تکلیف کا احساس نہ ہو مگر یہ انسان نما
درندہ صفت مخلوق انسان ہو کر بھی زندہ انسانوں کی بوٹیاں اس طرح بھنبھوڑتے
ہیں کہ دیکھنے والوں کو جسم کے ساتھ ساتھ روح کے گہرے گھاؤ بھی صاف دکھائی
دیتے ہیں اور یہی روح کے گھاؤ زندہ انسانوں کو جیتے جی مردہ بنا دیتے ہیں
کون ہیں یہ لوگ؟ یہ لوگ انسانی معاشرے کا ناسور ہیں ان کی پہچان ان کی
چالاکی، مکاری، منافقت، عیاری، لالچ، ہوس، حرص، بے حسی ظلم و زیادتی اور
غرور و تکبّر ہے بے ضرر اور معصوم انسانوں کو ایذا پہنچانا ان کا پسندیدہ
مشغلہ اور وقت گزاری کا تماشہ ہے یہ لوگ اپنی وحشت کے کھیل و تفریح سے نہ
جانے کتنے ہی معصوم و مظلوم جسموں کو انکی روحوں سمیت لہو لہان کرتے رہتے
ہیں لیکن مجال ہے کہ انہیں اپنی اس درندگی کا ذرا بھی احساس ہو جائے
یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے وجود کا ناسور انسانی معاشرے کے لئے لاعلاج مرض کی
صورت اختیار کرتا چلا جاتا ہے کیا وجہ ہے کہ انسانی معاشرے میں درندگی کا
کھیل ختم ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ان ذہنی غلاظتوں میں
ایسی کیا کشش ہے کہ اس میں کمی آنے کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا
ہے آخر کیوں؟
کیوں انسان انسان کا دشمن ہے اور اپنے ہی بھائی بندوں کا خون نچوڑنے پر تلا
ہوا ہے یہ سب انسان کی اپنی غفلت اور بے حسی کا نتیجہ ہے اس کی سب سے بڑی
وجہ یہ ہے کہ انسان خود فراموش ہو گیا ہے اپنے وجود کی اہمیت اور مقاصد کو
بھول چکا ہے، زندگی اور موت کی حقیقت سے آنکھیں چراتے ہوئے مادی زندگی کو
ہی اپنی عبادت اور اپنا خدا سمجھنے لگا ہے اور اس دنیا کو ہی اپنا مستقل
ٹھکانا سمجھنے لگا ہے دنیا کی محبت نے انسان کو انسان کے آگے جھکنے پر
مجبور کردیا ہے
اپنے خالق کے سوا کسی اور کے آگے جھکنے والوں کو کوئی اٹھاتا نہیں بلکہ
ایسے انسان مزید پستی میں گرتے چلے جاتے ہیں ایمان کی کمزوری نے انسان کو
اتنا بزدل بنا دیا ہے کہ وہ نیکی اور بدی میں تمیز ہی بھول بیٹھا ہے اور جب
انسان نیکی و بدی کی تمیز ہی کھو دے تو پھر اس میں " امر بالمعروف و نہی عن
المنکر " پر عمل کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رہتا
یہی کمزوری، یہی خامی بالآخر انسان کو ایسی پستی اور ایسی گراوٹ کا شکار
کرتی ہے کہ معاشرے سے رفتہ رفتہ تمام اخلاقی اقدر کا خاتمہ ہونے لگتا ہے
اور یوں پورا معاشرہ برائیوں کی دلدل میں اس بری طرح دھنستا چلا جاتا ہے کہ
برائیوں کی دلدل میں غرق ہونا ہی ایسے معاشرے کا مقدر اس طرح بنتا ہے کہ
صفحہ ہستی پر اس معاشرے کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا، نیست و نابود
ہوجاتا ہے دنیا سے ایسی قوم کا ایسے معاشرے کا نام و نشان یکسر مٹ جاتا ہے
لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں خدا نہ کرے کہ ہمارے معاشرے پر ابھی ایسا
وقت نہیں آیا کہ صفحہ ہستی سے اس معاشرے کا نام و نشان مٹ جائے یا چند باطل
قوتوں کی دنیاوی کامیابیوں سے مرعوب ہو کر باطل قوتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دے
یا پسپا ہو جائے ہماری قوم، ہمارا معاشرہ اسی لئے قائم ہے کہ ابھی اس
معاشرے میں بہت سے گوہر نایاب موجود ہیں جن کے دم سے دنیا میں ناصرف ہمارا
نام و نشان قائم و دائم ہے بلکہ ہماری قوم کے یہی گوہر نایاب ہیں کہ جن کی
وجہ سے آج بھی یورپی اقوام میں اسلام کا پیغام تیزی سے پھیل رہا ہے جو کہ
اسلام کی سچی تعلیمات کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے
ہماری قوم کے یہی وہ گوہر نایاب ہیں جو آج بھی اپنی قوت ایمانی اور اپنے
اعلٰی اخلاقی اقدار کا دامن تھام کر دنیا میں " امر بالعروف اور نہی عن
المنکر " پر عمل پیرا ہیں اور دنیا کے کسی نا کسی حصے میں خفتہ انسانوں کی
پیداری کے عمل پر کار بند ہیں یہ عمل اسی تواتر سے جاری رہا تو وہ دن دور
نہیں کے دنیا سے ظلم و جبر اور دہشت گری و استبداد کا مکمل خاتمہ ہو جائے
گا اور دنیا پھر سے پر امن ہو جائے گی اعلٰی تہذیب و ثقافت کا گہوارہ بن
جائے گی دنیا میں پھر سے عدل و مساوات، اخوت و بھائی چارہ، ایثار و قربانی
، امن و محبت جیسی اعلٰی اخلاقی اقدار کا دور دورہ ہوگا اور دنیا امن و
محبت کا گہوارہ بن جائے گی
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھا اس وقت
کا انتظار نہ کرے بلکہ اس وقت کو لانے کے لئے خود بھی عملی کوششیں جاری
رکھے اگر ہر فرد اپنے طور پر متواتر اپنے معمولات کا جائزہ لیتا رہے اور
بجائے اس کے کہ خود کو بچانے کے لئے اپنی خامیاں اور کمزوریاں دوسروں پر
تھوپنے کی کوشش کرے بلکہ اپنے اندر موجود کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے
کی مسلسل کوشش کرتا رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ انفرادی کوشش ایک دن اس
اجتماعی انقلاب کا مؤجب ثابت ہوگی جس کا انتظار کرتے کئی نسلیں محض اپنی
بےعملی کی بھینٹ چڑھ کر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں
خدارہ آپ اپنی آئندہ نسلوں کو بے عملی کی بھینٹ چڑھ کر ضائع ہونے سے بچا
لیں خود بھی عمل کا وطیرہ اپنائیں اور انہیں بھی عملی میدان میں اتر کر
لازوال کامیابیوں کی منزل کا پتہ بتائیں یہی ہم سب کے ہماری قوم، ہمارے
معاشرے اور انسانیت کی بھلائی ہے یہی انسانی معشرے کا اور انسانیت کا حق ہے
“ جیو اور جینے دو دکھ نہ دو دکھی نہ ہو ، خوشیاں دو اور خوش رہو “ کہ یہی
آداب معاشرت اور انسانیت کا فرض اولین ہے |