دنیا کے نقشے پر سب سے الگ سب سے جُدا پہچان والا میرا
مُلک پاکستان ہی تو ہے جس کو قُدرت نے چار موسم دیے دریاوں سے نوازا، نہروں
کا زبردست سسٹم موجود ہے،تیل کے زخیرے گیس کی نعمت سمندر پہاڑ صحرا اور
زبردست افرادی قوت مگر ہم روز پستی کی طرف اپنا سفر جاری و ساری رکھے ہوے
ہیں،اگر کچھ نہیں ہے تو ایک ایماندار لیڈر ۔ایک رہنماجو صرف پاکستان کے لیے
سوچے ، پاکستان کو دنیا کے نقشے پر سب سے الگ اور مثبت مقام دلا سکتا ہو ،
یہ رہنما کب ہمارے ملک کو نصیب ہو گا ، یہ تو اﷲ ہی جانتا ہے ، ایک بات مگر
میں واضع کرنا چاہتا ہوں ، پاکستان میں مخلص ایماندار لوگوں کی کمی نہیں،
صرف انکو آگے لانے کی ضرورت ہے ، اور اس کے لیے بہترین کوشش عوام ہی کر
سکتے ہیں ، یہ نہیں کہ پاکستانی عوام کوشش نہیں کر رہے ہیں، اپنے طور پر اب
ہر پاکستانی فکر مند ہے ، زرداری صاحب کو آزمانے کے بعد بات میاں صاحب تک
پہنچ گئی ، مگر عوام میں موجود بے چینی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ،اگر
میاں صاحب بھی ناکام ہوے تو پاکستان کے شہری کسی اور آپشن کو استعمال کریں
گے، وہ آپشن بھی وقت آنے پر سب کے سامنے ہو گا -
زرا ماضی کا سفر کرتے ہیں ، جب ہم غریب ملک ضرور تھے مگر پھر بھی تھے کمال
کے ہم لوگ، پچاس کی دہائی سے لیکر نوے کی دہائی تک سکواش کے چمپیئن
پاکستانی تھے،آج پہلے پچاس کھلاڑیوں میں پاکستانی کھلاڑی نظر نہیں
آتا،کُشتی کے کھیل میں ہمارے کھلاڑی آسانی سے اولمپک کھیلتا تھاآج مدت ہوئی
کُشتی کو جنازہ ہوئے ،ہاکی قومی کھیل ہے پاکستانی ٹیم کے بغیر ہاکی کا کوئی
ایونٹ نہیں ہوتا تھا ، ہر دوسرا ورلڈ کپ ہم جیتتے تھے ، آج ورلڈ کپ کے لیے
مشکل سے کوالیفائی کرتے ہیں، اور تو اور کوریااور چین کو ہم نے ہاکی
سیکھائی ، آج ان سے میچ جیتنا خواب لگتا ہے،سنوکر کے دو عالمی چمپین
پاکستانی بنے ، دونوں اپنے بل بوتے پر بغیر کسی کوچ کے ، باکسنگ کے
پاکستانی تاریخ ساز حسین شاہ کو ہم بھول چکے ،اور ابرار حسین کو گولیوں سے
چھلنی کروا بیٹھے ، مہر اﷲ لگتا ہے لیاری میں کہیں چنے چاٹ بیچ رہا ہو گا،
مخلص اور درد دل رکھنے والے پاکستانی چُن چن کے عبرت کا نشان بنا دیے گے،
حکیم محمد سعید ا سے اسکا آغاز ہوتا ہے ، اور ڈاکٹر غلام مرتضی ملک ،
پروفیسر آفتاب نقوی مولانا حسن جان ،سمیت سینکڑوں عالم دین ، صحافی ، استاد
ڈاکٹر دانشور اور اپنے اپنے شعبوں میں علم کے مینار ہم گرا بیٹھے ہیں، اور
تو شاعر بھی مذہبی فرقہ بندیوں کی بھینٹ چڑ گے اس سب کے باجود کسی ایک کے
قاتل کوہمارا سارا عدالتی نظام سمیت پولیس کا نظام اور حکومت عبرت کا نشان
نہ بناسکے ،پاکستان کے ادارے ایک ایک کر کے تباہ برباد ہو چکے ہیں ، کبھی
ہمھیں سارا دن بجلی نصیب ہوتی تھی ، اب صرف چار گھنٹے ،ریلوے کا پہیہ کبھی
چلتا تھا ، اب ریلوے کے زنگ الود لوہے کو بادامی باغ کی سٹیل ملیں ، گاڈر
سریا بنانے کے لیے تیار ہیں،ہماری سٹیل مل ختم ہو چکی ، جو کچھ ہے وہ نہ
ہونے کے برابر،پی آئی اے ماضی کاحصہ بن چکی، مگر آفرین ہے ہمارے پاکستانیوں
پر ، وہ آج بھی پُر امید ہیں وہ آج بھی کسی مسیحا کے منتظر ، باجود اسکے کہ
غربت و بھوک کا جن منہ کھلے کھڑا ہے مگر میرے پاکستانی بھائی آج بھی اس آس
پے زندہ ہیں کہ کبھی تو کوئی آئے گا جو صرف انکے لیے سوچے گا ، جو انکے
بچوں کا مستقبل سنوارے گا، دیکھیں ، بیچاری دکھوں کی ماری اس قوم کے حالات
کب بدلتے ہیں ، اتنے دُکھ سہنے کے باوجود اگر یہ قوم پر اُمید ہے تو کم از
کم اب تو انکا حق بنتا ہے کہ کوئی آ جائے ْ کیا خیال ہے ؟ |