آخر کار طویل انتظار کے بعد
وزیراعظم کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں تمام ہی نے ایک ساتھ قدم
سے قدم ملا کر چلنے اور سارے مفادات کو کنارے رکھنے کی بات کہی ہے۔واضح رہے
کہ یہ میٹنگ گزشتہ دنوں چھتیس گڑھ میں کانگریسی کارکنوں پر ہوئے نکسلی حملے
کے بعد اس لئے بلائی گئی تھی کہ اب اس معاملہ پر کون سا رخ اختیار کیا
جائے۔اور شاید ایسا پہلی مرتبہ ہوا جیسا کہ خبروں میں بتایا جا رہا ہے
تقریبا تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ نکسلیوں کی
لعنت سے ملک کو پاک کرنے کے لئے سخت سے سخت قدم اٹھائے جانے چاہئیں اور
جمہوریت کو بچانے کی خاطر کوئی بھی انتہائی قدم اٹھایا جا سکتا ہے اس میں
کسی بھی قسم کے لیت و لعل سے کام نہیں لیا جانا چاہئے۔ اس موقع پر سیاسی
جماعتوں نے دہلی میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں مسلح عسکریت پسندی کو
دبانے کے لئے تمام جائز طریقوں کے استعمال کی نہ صرف وکالت کی بلکہ اس بات
پربھی زور دیا کہ وہ مہلک ماونواز نظریات کو قبول نہیں کر سکتے۔اس معاملے
پر کسی طرح کے معاہدے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے تمام جماعتوں نے متفقہ
طور پر منظور قرارداد میں ماونواز باغیوں کے خلاف مسلسل مہم اور نکسل
متاثرہ علاقوں کی تیز ترقی کی مرکزی حکومت کی دو سطحی حکمت عملی کی حمایت
کی۔
بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر ایک قرارد اد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا
کہ پا رلیمانی جمہوریت اورہندوستانی آئین کو تشددآمیز طریقوں سے نقصان
پہنچانے کے لئے ماونواوازوں کا گمراہ کن مقصد کے ساتھ اس کی انتہا پسندی پر
مبنی رجحان سے خطرناک شئے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔اجلاس میں فیصلہ لیا گیا کہ
ریاست ماونوازوں کے خلاف جدوجہد کی کمان سنبھالے گی اور مرکزی حکومت اس
سلسلے میں ہر طرح کا تعاون ومدد فراہم کرائے گی۔تجویز میں کہا گیا ہے کہ ہم
ان سے (مرکز اور ریاستوں سے) درخواست کرتے ہیں کہ ملک اور اس کے اداروں کی
حفاظت کے لئے اور مسلح انتہا پسندی اور تشدد کو روکنے کے لئے تمام جائز
طریقوں کا استعمال کیا جائے۔ اس اجلاس میں وزیر داخلہ سشیل کمار شندے،
کانگریس صدر سونیا گاندھی، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈر
سشما سوراج اور ارون جیٹلی، بی ایس پی صدر مایاوتی، سپا صدر ملائم سنگھ
یادو، شیوسینا کے اننت گیتے اور جے ڈی یو کے صدر شرد یادو وغیرہ لیڈروں نے
حصہ لیا۔اس اجلاس میں سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ 25 مئی کے
واقعہ نے اس علاقے میں تمام سیاسی کارکنوں کو دہشت زدہ کرنے کے ارادے سے
اور لوگوں کی سیاسی سرگرمی کو روکنے کے لئے سیاسی کارکنوں پریہ حملہ کیا
تھا۔ تجویزمیں کہا گیا ہے کہ یہ جمہوریت، اور اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ
تھا۔اس لئے ہم تمام لوگ عہد کرتے ہیں کہ ہم متحد رہیں گے ،ہم ایک آواز میں
بات کریں گے اور ایک متحدہ مقصد اور عزم کے احساس کے ساتھ قدم اٹھائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں ہر معاملہ کی طرح اس معاملہ پر بھی
یوں تو بہت پہلے سے باتیں ہوتی رہی تھیں تاہم اس خبر کے آنے کے بعد حسب
معمول ایک مرتبہ پھر بحث و مباحثہ اورتنقید و تنقیح کا دور جاری ہو گیا ہے
کچھ اس کو دیر آید درست آید کے مصداق بہتر فیصلہ سے تعبیر کرتے ہوئے عملی
اقدامات جلد سے جلد کئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کچھ انتہائی عجلت میں
ایسا کوئی بھی فیصلہ سے گریز کرنے کی بات کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ کسی
بھی قسم کا تشدد آمیز رویہ نہ اپنایا جائے کیونکہ ’تشدد کا جواب تشدد‘ کبھی
بھی دنیا کے لئے مفید ثابت نہیں ہوا ہے۔اس معاملہ میں لوگ ماضی قریب میں
افغانستان ،عراق اور اسی طرح پاکستان وغیرہ میں ہونے والی واردات اور
کاروائی کی مثال دے رہے ہیں۔پاکستان کا اپنے ملک میں لال مسجد میں کیا جانے
والا آپریشن ،یا پھر اسی طرح خالصتان والے مسئلہ میں اندرا گاندھی کے ذریعہ
کرایا گیا بلیو اسٹار آپریشن جیسے واقعات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔حالانکہ
اس سلسلہ میں یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیانکسلیوں کایہ معاملہ بھی
ویسا ہی ہے ؟یا یہ کوئی الگ قسم کا تشدد ہے؟ اوریہ کہ اس کو کس زمرے میں
رکھا جائے گا ؟اس سلسلہ میں حالانکہ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ظلم تو ظلم
ہے خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو چاہے چھوٹا ہویابڑا، کم یا زیادہ۔لیکن اس
کا خاتمہ کیسے ہوگا اس کو بہت باریکی سے دیکھنا ہوگا۔
حالانکہ اس اجلاس میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ریاستی حکومتوں اور خاص طور
پر چھتیس گڑھ حکومت کو اس بات کا یقین کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے کہ نکسل
متاثرہ علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کے لئے مزید مثبت ماحول بنے۔ان کے بقول
مرکزی حکومت اس کام میں ریاستوں کو مکمل تعاون دینے کے لئے مصروف عمل ہے۔اس
مسئلے کو مستقل طور پر جڑ سمیت اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہمیں تمام اقدامات
اٹھانے کی ضرورت ہے تاہم ان کے مطابق فوری طور پر یہ بھی یقینی بناناہے کہ
نکسلی تشدد پر لگام کس طرح کسی جائے اور چھتیس گڑھ جیسے حملوں کی تکرارپھر
مستقبل میں نہ ہو۔وزیر اعظم نے کہاہے کہ حکومت گمراہ کن نوجوانوں کی فکر و
جذبات کے بارے میں حساس رہے گی اور اگر ماضی میں ان کے ساتھ کوئی نا انصافی
ہوئی ہے تو اسے دور کیا جائے گا ،اور ان کے یہاں بے گانگی کے احساس کو بھی
ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔جبکہ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے یہ کہتے
ہوئے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے مشوروں کے مطابق نکسلیوں کے خلاف
بہت سخت کارروائی پر غور کر رہے ہیں، انہوں نے ریاستی حکومتوں سے اپیل کی
ہے کہ قانون کی حکمرانی کے لئے اپنے وسائل کے ساتھ ساتھ مرکز کی طرف سے
فراہم کئے گئے وسائل کا استعمال کریں اور متاثرہ ریاستوں میں ترقی کی
سرگرمیوں کو تیز کریں۔خبروں کے مطابق جب وزیر داخلہ سے پوچھا گیا کہ کیا
حکومت نکسلیوں کے خلاف فوج کا استعمال کرے گی تو انہوں نے کہا کہ گرچہ میں
فوجی مدد لینے کے معاملے پر کچھ نہیں کہوں گا لیکن ہم بہت سخت کارروائی پر
غور کر رہے ہیں۔
یہاں پر اس بات سے قطع نظر کہ اس معاملہ میں واقعی کوئی کاروائی ہوگی بھی
یا نہیں اور کاروئی ہونے کے بعد بھی کسی قسم کے مثبت اثرات مرتب ہونگے
یانہیں ؟کچھ کہنا مشکل ہوگا تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس سے بہر حال
انکار ممکن نہیں کہ ہمارے یہاں منصوبے تو خوب بنتے ہیں اور ان کو جلد سے
جلد عملی جامہ پہنانے کی بات بھی ہوتی ہے۔لیکن حقیقی معنوں میں ایسا کچھ
ہوتا نہیں۔شاید اسی وجہ سے بہت سے معاملوں میں شہ زوروں ،معاشرے میں انارکی
پھیلانے والوں اور اسی طرح لوگوں کے ساتھ حق تلفی و نا انصافی اور ظلم و
تشدد برپا کرنے والوں،کو اور موقع مل جاتا ہے اور مظلوم پستے رہتے ہیں۔یہاں
پر صرف اس معاملہ کی بات نہیں ہے بلکہ ہزاروں ایسے واقعات ہیں جس پر نہ
جانے کتنی قرار داد پاس ہوئیں،کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور کتنے ہی قوانین
بنے لیکن ہوا کچھ بھی نہیں اور نتیجہ وہی نکلا صفر کا صفر۔ اب اس معاملہ
میں بھی ایسا ہی ہوگا یا کچھ اور ، یہ کہنا بے جاہے۔مگریہ بھی حقیقت ہی ہے
کہ کاروائی نا ہونے کی وجہ سے کرائم میں اضافہ ہوتا ہے اور بجائے اس کے کہ
وہ ختم ہو اس میں مزیدافزودگی ہوتی رہتی ہے اور اس کی سیکڑوں مثالیں موجود
ہیں۔یہ کوئی ہوا ہوائی یا یونہی کہہ دینے والی بات نہیں ہے۔
اس معاملہ میں چونکہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ جیسی اہم شخصیات کچھ کرنے کا
ارادہ رکھتی ہیں اور ملک کے تقریبا تمام ہی پارٹیوں نے اسے ہری جھنڈی
دکھانے کی بات کہی ہے تو ہو سکتا ہے کہ واقعی اس مرتبہ کچھ ہو لیکن اس کا
مطلب ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ ظلم کا جواب ظلم سے دئے جانے میں
حیوانیت کا ننگا ناچ ناچا جائے ،ماضی میں ایسا ہوا ہے اور کئی جگہ تو ایسا
بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ قصور کسی اور کا تھا اور زد میں کوئی اور آ
گیا۔کشمیر اور اسی طرح دیگر کئی جگہوں پر فوج کو چھوٹ دئے جانے کا جو نتیجہ
بر آمد ہوا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ ان جگہوں پر فوج نے
جمہوریت اور ملک کی بقاء کے لئے بہت کچھ کیا ہے اور اس کے لئے اپنی جانوں
کا نذرانہ تک پیش کرنے سے گریز نہیں کیا لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اسی فوج
نے وہ وحشت اور درندگی کے گل کھلائے کہ شیطان بھی ایسی حرکتوں سے شرمسار ہو
جائے ،اسی فوج نے بے جا معصوموں اور بے قصوروں کو تشدد و حبس کا نشانہ
بنایا ہے اور خواتین اور نابالغ لڑکیوں کی عزتوں کو تار تار کیا ہے جس کی
خبریں برابر میڈیا میں آتی رہی ہیں۔لہذا اس معاملہ میں بھی احتیاط سے کام
لینے کی ضرورت ہوگی۔ایسا نہ ہو کہ تشدد کے خاتمہ کے نام پرکسی بھی طرح سے
بے قصوروں اور معصوموں کا ناحق خون بہے۔اور کاروائی کے نام پر فوجیوں یا
پولس کو ننگا ناچ ناچنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے ،اس سے معاملہ بجائے
سلجھنے کے مزید الجھ سکتا ہے۔ |