چائنا ہی چائنا

پچھلے سال کسی کام سے ایک دن کے لیے لاہور جانا ہوا ۔ ایک پرانے دوست سے ملنے کے لیے تھوڑا وقت نکالا اور پہنچ گئے موہنی روڈ۔وہاںموصوف ایک چھوٹا سا الیکٹرک اسٹور چلاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کے پارٹنرکاروباری دورے پر چائناگئے ہوئے ہیں۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ ایک اسٹور کا سامان چائنا سے لایا جاتا ہے!اس نے یہ بتا کر ہماری حیرت میں اضافہ کر دیا کہ دو تین مہینے میں ایسے چکر لگتے رہتے ہیں اور بہت سارے الیکٹرک آئٹم وہاں سے بہت کم قیمت پر مل جاتے ہیں، جو پھیرے کے اخراجات نکال کر بھی بہت اچھا نفع دے جاتے ہیں اور اب ہم کئی دکانداروں کو ہول سیل میں بھی مال سپلائی کرتے ہیں۔ اگلے ایک سال میں ہمیں کراچی اور اندرونِ سندھ کے بھی کئی اوسط درجے کے کاروباری حضرات کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ لوگ باقاعدگی سے کاروباری دورے پر چینجا رہے ہیں۔ یہ سن کر ہمیں نوے کی دہائی یاد آگئی، جب ہم سنتے تھے کہ فلاں شخص مہینے دو مہینے میں سنگاپورچکر لگاتا ہے اور وہاں سے گھڑیاں، الیکٹرک آئٹمز مثلاً کیمرے ، ٹیپ ریکارڈر وغیرہ لاتا ہے،جو نہ صرف معیار میں اعلیٰ ہوتا تھابلکہ مقامی مارکیٹ سے کافی کم قیمت پر بھی پڑتا تھا۔ اس وقت یہ پھیریے سنگاپورکے ساتھ بنکاک اور دبئی وغیرہ بھی جاتے تھے۔

”یعنی اب اس فہرست میں چین کا اضافہ ہو گیا ہے ۔“ ہم نے کہا تو وہ ہنس پڑا۔” اضافہ کیا مطلب اب تو پھیریے کی فہرست میں چائنا ہی چائناہے یا پھر دوسرے نمبر پر دوبئی.... سنگاپور، بنکاک وغیرہ تو اب پرانی بات ہو گئی۔“

شاید یہی وجہ ہے کہ آج انگریزی کے بعد پاکستان میں جس بیرونی زبان کے سیکھنے کا سب سے زیادہ رجحان نظر آ رہا ہے ، وہ چینی زبان ہے۔اس کی بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ پاکستان میں کئی چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، اور چینی زبان جاننے والے نوجوانوں کو چینی کمپنیمیںملازمت ملنے کا زیادہ چانس ہوتا ہے ،اس کے علاوہ چونکہ چائنا کے مال کے لیے بھی اب مقامی پھیریے اور دکاندار بھی براہ راست چائنا کا رخ کر رہے ہیں، اس لیے کاروبار بھی ایک وجہ بن گیا ہے چینی زبان سیکھنے کا ،کیوں کہچینی دنیا بھر میں رابطے کی بین الاقوامی زبان انگریزی میں عموماً بہت کمزور ہوتے ہیں اورجو کچھ انگریزی جانتے بھی ہیں تو وہ بھی حتی الامکان اپنی زبان کو ہی اولیت دیتے ہیں۔یوں چینیوں کے اس قابل فخر عمل کی وجہ سے جولوگ اُن سے کاروبار کرنا چاہتے ہیں، اس پر مجبور ہیں کہ بہرطور چینی زبان کی شد بد حاصل کریں۔چینی زبان سیکھنے کے رجحان میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ اب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کی فہرست میں یورپ اور امریکا کے ساتھ چین بھی موجود ہے جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنایورپ و امریکہ کے مقابلے میں کہیں سستا بھی پڑتا ہے اور تعلیم کا معیار بھی کسی طرح یورپ کی یونیورسٹیوں سے کم نہیں۔شاید یہی وجوہات ہیں کہ صرف پرائیوٹ سیکٹر میں ہی نہیں بلکہ چینی زبان کی اہمیت کا اعتراف پچھلے چند سالوں میں سرکاری سطح پر بھی ہوا ہے، جس کی مثال2011ءمیں سندھ حکومت کا ،2013ءسے تمام اسکولوں میں درجہ ¿ ششم سے چینی زبان کی تعلیم لازمی کرنے کا فیصلہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم کا جو انفرااسٹرکچر اور معیار ہے اور چینی زبان جیسی دنیا کی سب سے مشکل زبان کے اسکول لیول میں سیکھنے کے لیے جو تیاری اور پلاننگ ضروری ہے، اس کی عدم موجودگی کے باعث ہمارے خیال میں یہ فیصلہ عملی صورت اختیار نہیں کر سکتا اور اگر اس پر عمل کر بھی لیا جائے تو سوائے وقت کی بربادی اور سرمائے کے زیاں کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ خیر یہ الگ بحث ہے، بات ہو رہی تھی چین کے دنیا کے ہر میدان میں دمادم کامیابیاں حاصل کرنے کی، جس کی وجہ سے وہ نگاہیں جواعلیٰ تعلیم کے حصول یا محفوظ سرمایہ کاری کے لیے پہلے یورپ اور امریکا کی طرف اٹھتی تھیں اب چین کی طرف متوجہ ہیں....

اس وقت کا سچ تو یہ ہے کہ چین جو مشرقی ایشیا میں واقع دنیا کی نہایت قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے ،ہر طرف چھا رہا ہے۔وہ عالمی کساد بازاری میں سرمایہ داروں کے لیے امید کی نئی کرن ہے۔ اس نے اپنی تجارتی پالیسیوں اور آسان ویزہ شرائط سے یہ باور کرا دیا ہے کہ اس وقت جو چین سے کاروبار کرے، وہ فائدے میں ہے۔

چین ‘جس نے ہمیشہ دنیا کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا( صرف چاربڑی ایجادات یعنی کاغذ، قطب نما، بارود اور چھاپہ خانہکو دیکھ لیجیے،اور فیصلہ کر لیجیے کہ ان ایجادات کا انسان کی ترقی میں کتنا بڑا حصہ ہے!)آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔معیشت سے لے کر دفاع تک ،صنعت سے لے کر کمپیوٹر ٹیکنالوجی تک اور خلابازی سے لے کر سماجی، سائنسی، زرعی شعبوںمیں انقلاب آفریں ترقی کی بدولت روئے زمین پر ہر جگہ چین کا ڈنکا بج رہا ہے۔ ماہرین چین کی اس برق رفتار ترقی پر انگشت بدنداں ہیںاور یہ پیش گوئیاں کررہے ہیں کہ مستقبل کا سپر پاور مغرب سے نہیں بلکہ مشرق سے ہو گا جو کوئی اور نہیں صرف چین ہے۔ہمارے خیال میں چین کی اس بے مثال ترقی کا رازچینیوں کی ان تھک محنت، حب الوطنی اوردیانت دارانہ قیادت میں مضمر ہے۔چینی دنیا بھر میں اپنی انتھک محنت کے لیے مشہور ہیں۔وہ کسی بھی کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو شفٹوں میں کام کو اس طرح سے جاری رکھتے ہیں کہ ایک منٹ کے لئے بھی کام میں رخنہ نہیں پڑتا۔ گزشتہ سال سوشل میڈیا پر چین کے حوالے سے ایک ویڈیو بہت پاپولر ہوئی ، جس میں دکھایا گیا تھا کہ بیجنگ سے باہر کسی شہرمیں چینیوں نے ایک پندرہ منزلہ ہوٹل کی عمارت صرف چھ دن میں تعمیر کردی۔اسی طرح 2008ءمیں چین میں منعقد ہونے والے اولمپک میں بھی چینیوں نے اپنی اس مستعدی اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، جب انہوں نے صرف تین ماہ میں اولمپک اسٹیڈیم تیار کر لیا تھا۔چین کی یہ معرکة الآرا کارکردگی انٹرنیشنل میڈیا پر کئی روز چھائی رہی۔

چین کی دنیا بھر کی مارکیٹوں میں گرفت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹ پر ہی چائنا چھایا ہوا نہیں ہے ، جہاں آپ کو کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کی مارکیٹوں میںپھیری والوں کی ”چائنا ہے چائنا“ کی صدائیں سنائی دیتی ہیں، بلکہ یورپ اور امریکا(جو ہر میدان میں چین کا سب سے بڑا حریف سمجھا جاتا ہے)میںبھی آپ کو 70فیصد اشیاءچین کی نظر آئیں گی جو مزے کی بات یہ ہے کہ ان ترقی یافتہ ممالک کے معیار کی بھی ہوتی ہیں، ورنہ ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چائنا ہے تو معیار دو نمبر ہو گا، جب ہی اتنا سستا ہے،لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ چائناہر ملک کی ڈیمانڈ ا ور ریٹ کے مطابق اسی معیارکا مال بناکر دیتا ہے۔

قصہ مختصر آپ نے بچپن میں وہ مشہور کہانی پڑھی ہو گی جس میں بتایا گیا تھا کہ زمین کے نیچے دفن خزانے کسی ایک جگہ نہیں رہتے، یہ چلتے رہتے ہیں اور آواز دیتے رہتے ہیں کہ ہم یہاں ہیں،جو ان کی آواز پردھیان دیتا ہے، وہ انہیں حاصل کر لیتا ہے۔شاید یہی حال زمین کے اوپر موجود خزانوں کا ہے۔ سرمایہ وہاں جاتا ہے جہاں مزید سرمایہ ہوتا ہے، اور چینیوں کی ذہانت، قابلیت ، علم اور محنت کی بدولت ساری دنیا کا سرمایہ تیزی سے کھنچ کر چائنا میں آرہا ہے۔

چین اور پاکستان ایک دوسرے کے دیرینہ دوست ہیں۔ چینی نومنتخب وزیراعظمکا حالیہ دورہ اس دوستی کے رشتے کو اور مضبوط کر گیا ہے ۔چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہمیں پاکستان سے دوستی پر فخر بھی ہے، ناز بھی، ہم سونا پھینک سکتے ہیں لیکن پاکستان سے دوستی نہیں چھوڑسکتے۔“ اللہ کرے ایسا ہو، لیکن بہرحال نئے پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ چین کی دوستی پر تکیہ کر کے ان سے ہمیشہ امداد مانگنے کی بجائے ان کی عقل دنگ کردینے والی اقتصادی، معاشی، دفاعی اور سائنسی ترقی کے بنیادی اسباب پر غور کرکے خود کفالت کا راستہ اختیار کریں،کیوں کہ ریاستی دوستیاں باہمی مفاد سے وابستہ ہوتی ہیں۔پاک چین دوستی میںبھی سب سے بڑا عنصر” دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے “کا آفاقی اصول کارفرما رہا ہے، لیکن جب دشمن سے دشمنی ختم ہوتی ہے تو پھر دشمن کے دشمن سے دوستی بھی نئے مفادات سے مشروط ہوتی ہے۔اور سب کو معلوم ہے کہ چین بھارت دشمنی کی برف کئی دھائیوں کے بعد اب پگھلنے لگی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان افہام و تفہیم اور مذاکرات کی بات ہو رہی ہے ، نئے معاہدے ہو رہے ہیں۔اس کی تازہ مثال ابھی دس دن پہلے چین کے نو منتخب وزیراعظم لی کی چیانگ کا پاکستان سے پہلے بھارت کا تین روزہ دورہ ہے، جو نہایت کامیاب بھی رہا ہے!

Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 186452 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More