تو اے مولائے یثرب ص آپ میری چارہ سازی کر میری دانش ہے
افرنگی میرا ایمان ہے زناری!
قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی بندے سے فرماتا ہے، خلق لکم ما فی الارض جمیعا۔
یعنی یہ سارا جہاں ہے تمہارے لیے لیکن تم نہیں ہو جہاں کیلئے۔ دیکھو، یہ
پھول، یہ خوشبوئیں، یہ روشنیاں، یہ ہواِئیں، یہ فضائیں، یہ شبنم، یہ موتی،
یہ قوسِ قزح، یہ شفق یہ اُفق، یہ چڑیاں یہ کبوتر، یہ لالیاں، یہ بلبلیں، یہ
مور یہ چکور، یہ بادل یہ نظارے، یہ موسم یہ بہاریں، یہ چاند یہ سورج، یہ
ستارے کرتے ہیں اشارے، یہ سارے تمہارے اگر تم بنو ہمارے!
دیکھو، یہ حسن یہ زندگی، یہ قوت یہ عقل، یہ محبت کہاں سے آتی ہے؟ وہاں سے
جہاں اللہ ہے۔ اللہ کہاں ہے، کون ہے، کیاہے؟ اس نے اتنی بہت سی خوبصورت
چیزیں بنائی ہیں!وہ خود کتنا خوبصورت ہو گا؟ آئیے اس کو تلاش کریں اور اس
کا دیدار کریں کہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں، حتی کہ جنت اور حوریں بھی
نہیں۔ اور اگر آرزو اور محبت نہ ہو تو انسان مردہ ہے!
اللہ تعالٰی سے عشق بندے کے اختیار میں نہیں، کیونکہ بندہ نہایت عاجز اور
بے بس ہے۔ یہ تو اللہ تعالٰی کی عطاہے کہ اس نے ہمیں اپنا شعور اور اپنا
خیال عطا فرما دیا ہے اور یہ اس کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے
اپنی طرف مائل کر لیتا ہے اور اسے اپنا عشق عطا فرماتا ہے اور اس سے نیک
اعمال کرواتا ہے کہ وہ خیر و برکت کی بلندیوں تک جا پہنچتا ہے۔ یہ اس کا
خاص کرم ہوتا ہے!
جس کو چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا
بڑے کرم کے یہ ہیں فیصلے بڑی نصیب کی یہ بات ہے
دیکھو، روح کی تسکین کو حاصل کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ روح ایک خالص شے
ہے اور خالص شے کسی کثیف چیز سے سکون حاصل نہیں کر سکتی۔ اسی لیے تو خالص
ترین شے )عشق حقیقی( ہی تسکین کی باعث ہو سکتی ہے۔ اور خالص شے وہ اوصاف
ہیں جو رب تعالٰی اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے جنہوں نے اس سے سچا عشق کیا۔
اور اس کے حکم پر ہر وقت سر کٹانے کو تیار رہے اور اس کی رضا پر راضی رہے۔
وہ بندے اس دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت میں اللہ تعالٰی کی بارگاہ
میں بھی معزز و مقرب ٹھہرے!
اگر انسان اپنے اندر جھانکنے کی عادت بنالے اور سیاہ و سفید) یعنی اپنی
نیکیوں بدیوں( کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرے تو اس پر مثبت اور منفی پہلو اپنے
آپ کھلنے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر یہی زندگی جو ہمارے لیے آئندہ اذیتوں کی
نشاندہی کرتی ہے،آسودگیوں کی بشارت بھی ہو سکتی ہے۔ اور یہ اس وقت ہو سکتا
ہے جب ہم حقائق کو جاننے، انہیں سمجھنے اور ان کے مثبت پہلووَں تک پہنچنے
کی کوشش کریں، تاکہ کو ئی کمی خامی اور حسرت نہ رہ جائے۔۔۔اور ۔۔۔اور خدا
کا دیدار ہو جائے! وِصال ہو جائے! کمال ہو جائے!
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی!
بے شک جس طرح دودھ میں مکھن ، پھول میں خوشبو، تلوں میں تیل اور چقماق)
پتھر (میں آگ ہو تی ہے یا تار میں بجلی ہو تی ہے اسی طرح ہمارا رب، ہمارا
خالق، ہمارا مالک اور ہمارا رازق ہم میں رہتا ہے۔ بس ہمیں کو سمجھنا اور
دیکھنا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم اس طرف آتے ہی نہیں، دھیان دیتے ہی نہیں۔ بلکہ
اس کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اصل میں ہماری لگن سچی نہیں
ہوتی۔ ہم محض یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالٰی سے محبت ہے جبکہ
ایسا نہیں ہوتا۔ وہ تو رب ہے اور ہم پر بہت مہربان ہے اور ہر وقت ہر جگہ
موجود ہے۔ ہمارے ظاہر میں، ہمارے باطن میں، ہمارے دل میں، ہماری جان میں،
ہمارے خیال میں اور ہمارے ارد گرد موجود ہے، وہ ہم میں ہے اور ہم اس میں
ہیں۔ بس ہمیں اپنے دل کی آ نکھیں کھولنی ہیں اور اپنی سوچ و فکر کو اس کی
طرف لگانا اور اپنے دھیان اور توجہ کو اس کی طرف مرکوز کرنا ہے اور دل پر
چھائی ہوئی خود غرضی،لالچ، مفاد پرستی، دنیا داری،ہوس اور دُوئی کی دھند کو
صاف کرنا ہے۔ دل سے غیریت اور دُوئی کو نکالنا ہے۔ جب یہ دھند صاف ہو جائے
گی تو پھر اجالا ہو جائے گا اور یہ اجالا ایسا ہو گا کہ اس سے سچ مچ کی
حقیقت نظرآئے گی۔ اور ہر وقت ہر طرف خدا ہی خدا نظر آئے گا۔
تجلی تیری کوُ بہ کوُ ، سوُ بہ سوُ ہے
جدھر دیکھتا ہوں ادھر توُ ہی توُ ہے! |