چائلڈ لیبر ہر سال بارہ جون کو پوری دنیا کے ساتھ ساتھ
پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے جس کا بڑا مقصد چائلڈ لیبر کے حوالے سے پوری
دنیا میں پیغام پہنچانا اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ اور اس کے مضمرات اور اس
کے خاتمے کے لئے کوششیں کرنا ہے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں چائلڈ
لیبرایک انتہائی اہم مسئلہ بن چکا ہے پاکستان میں آٹھ سے دس ملین بچے چائلڈ
لیبر کا شکار ہیں اس کی بڑی وجہ ان کے والدین ہیں جو اپنے اپنے گھروں کا
بوجھ ان ننے منے قوم کے نونہالوں کے سر ڈال دیتے ہیں ان میں سے تو بعض بہت
ہی غریب ہو تے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی گزر بسر کے لئے اپنے نونہالوں کو
کام پر لگانے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ کچھ بچوں کے والدین نشے کے عادی ہوتے
ہیں اور کام کی طاقت رکھنے کے باوجود کام نہیں کرتے بلکہ اپنے بچوں کو جبری
طور پر کام پر لگا دیتے ہیں ۔
چائلڈ لیبرکے حوالے سے حکومتی سطح پر یہ دن تو منا لیا جاتا ہے مگر اس دن
کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے یہ دن منانے کا
مقصد صرف تقریبات کے منعقد کرانے اور تھوڑا بہت اخبارات یا میڈیا کی رپورٹس
چلانے تک محدود ہو جاتا ہے جس سے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے
حکومتی محکمے بھی اس حوالے سے کو خاص سرگرمی نہیں دیکھاتے جس کی وجہ سے
چائلڈ لیبرڈے منانے کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا جس کے لئے یہ دن منایا جاتا
ہے۔ دنیا بھر میں چائلڈ لیبرکو تحفظ فراہم کرنے کے لئے حکومتوں کی ذمہ داری
بنتی ہے کہ وہ اس کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھائیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے
اس کے سد باب اور اس کے مضمرات کو عوام تک پہنچائے گھروں میں چائلڈ لیبر پر
مکمل پابندی ہونی چاہئے حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان بچوں کی کفالت کا ذمہ
اپنے سر لے اور ان کے حالات کی بہتری کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے چائلڈ
لیبر کی اصل وجوہات غربت ہے چونکہ ایسے تمام بچے جو کہ چائلڈ لیبرکا شکار
ہوتے ہیں ان کے خاندان انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اس لئے
وہ اپنے گھر کے اخراجات کو اور اپنی ضروریا ت زندگی کو پورا کرنے کے لئے
اپنے بچوں کو کام کاج پر لگا دیتے ہیں یہ سوچے بنا ہی کہ ان کے مستقبل کا
کیا بنے گا ان کو تعلیم سے محروم کر کے ساری زندگی کے لئے ان مشکل حالات
میں چھوڑ دیتے ہیں۔
اعدادو شمار کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسے بچوں کی تعداد میں
خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو گھروں فیکٹریوں یا ورکشاپوں میں
کام کرتے ہیں اور جن کی عمریں دس سے پندرہ سال کے درمیان ہیں پاکستان میں
گھروں میں کام کرنے کے لئے بچوں کو انتہائی موزوں خیال کیا جاتا ہے چونکہ
یہ بچے انتہائی چست ہوتے ہیں اور چوبیس گھنٹے گھر میں دستیاب ہوتے ہیں اس
لئے مالکان بھی ان پر اپنا پورا حق جتاتے ہیں اور بعض اوقات ان پر ظلم بھی
کرتے ہیں س حوالے سے پوری دنیا میں قانون موجود ہیں مگر شاید پاکستان ترقی
پذیر ممالک میں سے واحد ملک ہے جہاں اس سلسلے میں کوئی حکومتی پالیسی یا
قانون سازی نہیں کی جا سکی ہر سال چائلڈ لیبر کے دن کے حوالے سے منعقد ہونے
والی تقریبات میں یہ اعلانات تو کیے جاتے ہیں کہ اس بار اس بارے میں قانون
سازی ضرور کی جائے گی مگر یہ سب اگلے ہی دن ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیا
جاتا ہے جس کی وجہ سے آج پینسٹھ سال ہو چکے ہیں اس حوالے سے کوئی بھی خاطر
خواہ قانون سازی نہیں کی جا سکی۔ اس حوالے سے میڈیا کا کردار انتہائی اہم
ہے کیونکہ چائلڈ لیبر کی جو خلاف ورزیاں اگر رپورٹ بھی ہوئی ہیں تو وہ
میڈیا نے ہی کی ہیں جس کے بعد اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی ہیں کہ اگر
حکومتی سرپرستی حاصل ہو تو میڈیا اس انتہائی اہم مسئلے کو اجاگر کرنے کے
ساتھ ساتھ اس کے سد باب کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے پاکستان میں چائلڈ
لیبر کی بہت سی مثالیں نظر آتی ہیں گھروں میں ہوٹلوں میں اور دکانوں اور
ورکشاپوں میں چھوٹے چھوٹے بچے کام کرتے نظر آتے ہیں ان کی تعداد اتنی زیادہ
ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر پانچواں بچا چائلڈ لیبرکا شکار ہے ان جگہوں
پر کام کرتے ہوئے ان چائلڈ لیبروں کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا
ہے جہاں ان پر تشدد کے ساتھ ساتھ ان کو جنسی طور پر اور جسمانی طور پر
ہراساں بھی کیا جاتا ہے مگر حکومتی سطح پر کوئی خاص اقدامات نہ ہونے اور
قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی جو ان
بچوں پرظلم کرتے ہیں اور اگر کھبی کھبار ان کے خلاف کوئی کاروائی ہوبھی
جائے تو قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ لوگ آرام سے بچ نکلتے ہیں پاکستا ن
میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے کئی ایک تنظیمیں اپنے اپنے طور پر کام کر رہی
ہیں جو ان چائلڈ لیبروں کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ ان کو مناسب ماحول کی
فراہمی اور ان کے روز مرہ کے معمولات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں ان تنظیموں
کی وجہ سے اس مسئلے کو کافی حد تک باقی دنیا کے سامنے لایا جا سکا ہے اس کے
لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ چائلڈ لیبر کے
خاتمے کے لئے کام کرنے والی ان رفاعی تنظیموں کو مناسب فنڈز دیے جائیں تاکہ
اس مسئلے کو قابو کیا جا سکے اس لئے ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت چائلڈ لیبر
کا دن منانے کے ساتھ ساتھ اس بارے میں سنجیدگی سے سوچے اور ایسے اقدامات
اٹھائے جائیں جس سے چائلڈ لیبر کا سد باب ہو سکے اگر ایسا نہ ہو سکا تو
ہمارے ملک کے یہ نونہال یوں ہی غلام بنتے رہیں گے اور پاکستان کا مستقبل
خراب ہوتا رہے گا - |