ترکی: تحریر سکوائر سے تقسیم سکوائر تک

جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد خلافت شروع ہوئی ، صحابہ میں بوبکر وعمر، عثمان وعلی ، حسن ومعاویہ اور عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہم أجمعین کے بعد یہ سلسلہ تابعین تبع تابعین ،بنی امیہ اور بنی عباس سے ہوتے ہوئے عثمانی ترکوں کے جد امجد عثمان کے نام سے خلافت عثمانیہ کی شناخت کے ساتھ 22رجب 1924تک قائم رہا ، اس دوران مرکز خلافت مدینہ ،کوفہ ، دمشق ،بغداد اور استنبول یکے بعد دیگرے رہے ، اس عرصہ میں اندرونی خلفشار اور بیرونی یلغار کا مسلسل سامنا بھی رہا، بعض اوقات خلافت بالکل برائے نام رہی، اور بعض دیگر اوقات میں ہارون الرشید جیسے عبقری شخص کی وجہ سے اپنے آب وتاب میں رہی ، یہ بھی ہواکہ خلافت سے منسلک لیکن اندرونی بااختیار ریاستیں گاہے گاہے مرکز سے بھی زیادہ طاقتور اور مؤثر رہیں ، مگر سلسلہ جوٹوٹا وہ کمال اتاترک کے 1924کے الغائے خلافت کے اعلان سے ٹوٹا،اس کے فورا ًبعد سعود ی عرب کے شاہ عبد العزیر آل سعود نے عالم اسلام کے رہنماؤں کی ایک بین الاقوامی کانفرنس بلائی، جس میں امت مسلمہ کو مربوط رکھنے کے لئے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی گئی ،مگر تادیروہ سلسلہ بھی قائم ودائم نہ رہ سکا، پھر شاہ حسن ثانی ،شاہ فیصل اور ذوالفقارعلی بھٹو کی کاوشوں سے OIC کے نام سے مسلم ملکوں کی تنظیم سازی کی گئی ، بین الاقوامی حلقوں میں اس کی شنوائی نہ ہونے کی بناپر اسے اسلامی تنظیم کا نفرنس سے اسلامی تعاون کانفرنس کے نام سے موسوم کیا گیا ،مگر مریض کی حالت روز افزوں روبصحت ہونے کے بجائے مزید نقاہت کی طرف رواں دواں تھی اور ہے ۔ایک نئی کوشش یہ کی گئی کہ اسلامی بلاک کے بجائے آج کے جدید دنیا میں اجتماعی سوچ سے ہٹ کر ہرملک اپنا اپنا سوچیں ، چنانچہ سب سے پہلے پاکستان ، مصر اولاً ، اردن اولاً وغیرہ کے نعرے سامنے آئے۔

سکندر مقدونی جب دنیا کو فتح کرتاہوا مشرق ومغرب کو روندچکا ،تو اس نے اپنے اتالیق ارسطو سے مشورہ لیاکہ سرحدات میں دوری ودرازی نظم حکومت میں خلل پیدا کررہی ہے ، ارسطونے کہا کہ آپ خود مفتوحہ علاقوں میں حکمرانی نہ کریں ، بلکہ ان کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کردیں ، ان کے حدود وقیود کا تعین کردیں ، ان کے سربراہوں کا بھی کوئی ایسا نظام بنائیں کہ ان کا اقتدار میں آنا اور اقتدار سے جانا آپ کے ہاتھوں میں ہی ہو ، یوں آپ کو معدودے چند افراد پر حکومت کرنی ہوگی ، اندرونی جھگڑے وہ سنبھا لینگے ، اپنے نزاعات واختلافات میں آپ ہی سے رجوع کرینگے ،پھر جو روڈمیپ انہیں آپ دینگے ،وہ اس پر چلینگے ،اس صور تِ حال کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے کبھی بھی نہیں جھکینگے ،آپس میں ایک دوسرے کے لئے شیر ہوں گے اور آپ کے سامنے بکریاں ، عالم اسلام کے لئے عصر حاضر میں ہنری کسنجر جیسے لوگوں نے یہی نسخہ تیار کیا، اور آزمایا بھی گیا، ایران ، ترکی ، عالم عربی ،افغانستان ،پاکستان اور افریقی مسلم ممالک سب کے سب بطور ملک ،سب سے پہلے اپنا ملک کے فارمولے پرآئے ، ان میں سے کچھ نے اس اندازسے بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دئیے ،پر پس پردہ عالمی بساط سیاست کے جغادر یوں سے یہ بھی برداشت نہ ہوا، انہوں نے ان ممالک کے اندر لاقانونیت ، فرقہ واریت ، تعصب اور دیگر قسم قسم کے وائرس روانہ کردئیے ، لیکن ترکی نے ثابت قدمی دکھائی ، انقلاب بھی جمہوری طریقے سے آیا، فرقہ واریت ،لسانیت ، صوبائیت وغیرہ کی بیماریاں بھی ان کے صحتمند جسم کو نہ لگ سکیں ، کردستان کی طرف سے وہاں حالات خراب کرنے کی کوشش کی گئی تھی ، جن کے ساتھ اردوان نے مصالحت کردی ، اسرائیل نے معافی مانگی ، اقتصاد ،تجارت اور نظم وضبط میں اس نے تیز ترین ترقی کی ، مشرق اوسط،یورپ اور دنیا میں احترام وعزت کا مقام حاصل کیا، 50لیکن فیصد سے زیادہ ووٹ کے حامل ہونے کے باوجود وہاں غازی پارک بنانے پر میدان تقسیم مظاہروں کا مرکز بن گیا، مخالف میڈیا نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، عرب اسپرنگ کی دھائی بھی دی جانی لگی، لیبرل قوتوں یا پھر ترکی کے ابدی دشمنوں نے اسے غنیمت جان کر اسے طیب اردوان اور عبداﷲ گل کی باہمی لڑائی بھی قرار دی، اﷲ کا شکر ہے کہ ترکی وزیر اعظم نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غازی پارک کے منصوبے کو ترک کرنے کا اعلان کردیا، ورنہ ایک اور مسلم ملک میں شورش اور انارکی کا خطرہ تھا،یہ سمجھ داری کا تقاضا بھی تھا کیونکہ حکمرانوں کو ضد کے بجائے حکمت سے کام لینا چاہئے ،مقتدرطبقہ اگر معاملہ فہم ہو ،ان میں لیاقت کاجوہر ہو،تو معاملات کو کنٹرول کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔
علامہ اقبال مرحوم نے کیا خوب کہاہے:
اِدھر نہ دیکھ، اُدھر دیکھ، اے جوان ِعزیز
کہ بلند زورِ دروں سے ہواہے فوّارہ

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878046 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More