پاکستان میں گداگری کی لعنت

پاکستانی معاشرے میں ایک ناسور جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے وہ گدا گری ہے جس کو حکومتی ادارے چاہتے ہوئے بھی روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس لعنت پر قابو نہ پانے کی بڑی وجہ وہ خفیہ اور طاقتور مافیا ہے جو اس مکروہ دھندے کو چلا رہا ہے -

اﷲ کے نام پر کچھ دے دو :یہ آوازیں آپ بازاروں میں اور درگاہوں کے گیٹ پر ضرور سنتے ہوں گے اور ہر بار جب یہ آواز کن میں پڑتی ہے تو آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جیب سے کچھ نہ کچھ نکال کر ان فقیروں کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے اس بات سے بے نیاز کہ اس کی دی ہوئی امداد کہاں جائے گی یہ مافیا اب اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ ہر پرہجوم جگہ پر ان کے کارندے سر عام دیکھے جا سکتے ہیں اور ان کے آگے مانگنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہیں جن کو روزانہ صبح سویرے ان کی گاڑیاں چھورٹی اور شام کو وہاں سے اٹھاتی بھی ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ ان لوگون کو وہاں پر کام کے دوران تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے اور بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھکاری کسی دوسرے کے علاقے میں یہ کام کرنے لگ جائے تو ایسے میں ان گروہوں کے درمیان جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں کسی بھی پاکستانی مسلمان کے لیے درگاہ کی زیارت کرنا اور وہاں فقیروں، گداگروں اور سائلوں کو پیسے دینا ایک عام بات ہے لیکن درگاہ پر جانے والے زائرین کی اسی فراخ دلی اور خدا ترسی نے پاکستان میں ’بھیک مافیا‘ کو جنم دیا ہے جو کہ ہزاروں پاکستانی بچوں کو بھکاری بننے پر مجبور کر رہے ہیں پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں صوفیا کرام کی کئی درگاہیں موجود ہیں اور ان کی درگاہوں پر لوگ کثیر تعداد میں منتیں اور دعائیں مانگنے آتے ہیں یہ درگاہیں بھکاریوں کے لیے ہمیشہ کشش رکھتی ہیں کیونکہ وہاں ان کو بہت ساری بھیک مل جاتی ہے بھکاریوں میں بچوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو زیادہ تر دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور ان کے پیچھے ایسے مضبوط اور منظم گروہ ہوتے ہیں جن کا اثر رسوخ کافی زیادہ ہوتا ہے ان بھکاریوں میں زیادہ تر بچوں کو استعما ل کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے زائرین اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ بچوں کو بھیک دینے سے ان کی منتوں کے پورا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے مجرم گروہوں سے تو پولیس کو نمٹنا چاہئے لیکن ان گروہوں سے بڑا مسئلہ لوگوں میں توہم پرستی جس کی وجہ سے وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان کو پیسے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں لوگوں میں یہ شعور اجاگر کرنا ہو گا کہ ان معذور بچوں کو بھیک دینا کوئی اسلامی روایت نہیں اور اسلام میں ا سکی ممانعت کی گئی ہے بھکاری بنانے کے لیے بچوں کو اغوا کیا جاتا اوران لاپتہ بچوں میں سے بہت سے بچوں کو مختلف درگاہوں میں پہنچایا جاتا ہے جو کہ وہاں پر بھیک مانگتے ہیں کئی ایک کو بہت ہی سخت اذیت دی جاتی ہیں ان کے سر منڈوا دیے جاتے ہیں ان کے جسم پر نشان ڈالے جاتے ہیں ان شکل و صورت کو بدل دیا جاتا ہے کئی ایک کے مختلف اعضاء توڑ دیے جاتے ہیں جن کو دیکھ کر لوگ ان پر ترس کھاتے ہوئے ان کو بھیک دے دیتے ہیں بعض بچے جو معذور نہیں ہوتے انہیں بھیک مانگنے کے لیے معذور بنا دیا جاتا ہے یہ سب کرنے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ یہ بچے رحم اور ہمدردی کے زیادہ مستحق نظر آئیں اور بدلے میں زیادہ رقم پائیں ان کو استعمال کرنے والے قدرتی طور پر معذور بچوں کی تلاش میں زیادہ رہتے ہیں کیونکہ جس کی جتنی بڑی معزوری ہو گی بدلے میں اس کا معاوضہ بھی عام بھکاری سے زیادہ ہو گا ان لوگوں کو عموما ایک دن کے تین سو سے لیکر پانچ سو روپے تک دیے جاتے ہیں اور بدلے میں ان کی پورے دن کی کمائی اور ان کو پولیس اور دوسرے حکومتی محکموں سے تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے بھیک مانگنے کا کام اتنے بڑے پیمانے پر ہے کہ پولیس بھی ان بچوں سے شاید ہی کبھی پوچھتی ہے کہ یہ ان درگاہوں تک کیسے پہنچے آپ کو اگر کسی بھی درگاہ پر وقت گزارنے کا موقع ملے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ جو فقیر جسمانی طور پر جتنا معذور اور مجبور نظر آتا ہے لوگ ان کی جانب اسی قدر زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور اْسے بھیک میں زیادہ پیسے ملتے ہیں پاکستان کی معروف درگاہوں میں پنجاب کے علاقے گجرات میں صوفی دولے شاہ کی درگاہ ہے اسلام آباد میں بری امام اور گولڑہ شریف کی مشہور درگاہیں یہ عوام کی توجہ کا مرکز ہے اور سارے پنجاب سے وہاں لوگ جاتے ہیں بطور خاص خواتین اِن درگاہوں پر جاتی ہیں پہلے یہ روایت تھی کہ لوگ گجرات میں صوفی دولے شاہ کی درگاہ پراپنے معذور بچے کو درگاہ پر چھوڑ جاتے تھے اب اس پر پابندی لگا دی گئی ہے صوفی درگاہوں پر سائلوں کی تعداد میں بچوں کی تعداد کافی ہوتی ہے پاکستان میں تہذیبی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ استحصال کرنے پر مالی انعام بند ہودرگاہوں پر جانے والے لوگ آج بھی فقیروں کو پیسے دینا چاہتے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کے دیئے ہوئے پیسے کہاں جائیں گے یا پھر بھیک مانگنے والا شخص درگاہ تک کیسے پہنچا کون سے عناصر اس مین ملوث ہیں مجرم گروہوں سے تو پولیس کو نمٹنا چاہئے لیکن ان گروہوں سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں میں توہم پرستی جس کو ختم کیے بنا ان بھکاریوں کے خلاف کوئی بھی اقدام کامیاب نہیں ہو سکے گا ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ درگاہ پر بھیک مانگنے والے بچوں کو بھیک دینا کوئی اسلامی روایت نہیں ہے ہمیں بار بار یہ سوال کو اٹھانا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ یہ بچے آتے کہاں سے ہیں؟ اور کس طرح ان گروہوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے جو ان بچوں کو بھکاری بناتے ہیں تبھی ہم اس مسئلہ سے نجات حاصل کر سکیں گے اس کے لئے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے اس گھنونے مافیا کا خاتمہ کیا جا سکے-

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 210164 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More