آج بڑے پیما نہ پر انسانی جانوں کے ضیاع کا معاملہ سامنے
آرہا ہے۔ ذرا ذرا سے فائدے کے لئے لوگوں کا قتل عام بات بن کر رہ گئی ہے۔
اگر معمولی جھگڑا ہوتا ہے تو نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے، اگر دولت کی بات
ہوتی ہے تو معاملہ قتل تک پہنچ جاتا ہے۔آئے دن کتنے ایسے واقعات سامنے آتے
ہیں کہ چند لاکھ یا چند ہزار روپوں کے لئے کسی بے قصور کی جان لے لی
گئی۔کسی نے کسی معمولی بات پر غصہ میں آکر قتل کردیا، کسی شوہر نے آپسی
جھگڑے یا شک کی بنیاد پر اپنی بیوی کا گلا گھونٹ ڈالا، کسی بیوی نے اپنے
شوہر سے بے وفائی کرتے ہوئے کسی اجنبی سے قربت پیدا کرلی، پھر راستہ سے
اپنے شوہر کو ہٹانے کے لئے اپنے آشنا سے مل کر اس کا بے دردی کے ساتھ قتل
کرڈالا۔مفادات اور خواہشات کی تکمیل کے لئے قتل وغار ت گری کا یہ عمل روز
بروز بہت سی جگہوں پر پیش آتا ہے۔ بات صرف فرد تک محدود نہیں بلکہ گروہوں،
خاندانوں اور برادریوں کے درمیان تصادم میں بھی آن کی آن میں متعدد لوگوں
کے مارے جانے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک صورت
حال اس وقت رونما ہوتی ہے جب ممالک اپنے مفادات کے لئے کسی دوسرے پرحملہ
آور ہوتے ہیں یا وہاں سازشیں کر کے خانہ جنگی جیسی صورت حال پیدا کردیتے
ہیں۔ اس کے بعد انسانوں کا خون ندی نالوں اور راستوں میں پانی کی طرح بہتا
ہے۔ موجود ہ دور میں اس بڑے پیمانہ پر انسانی قتل عام کو دیکھ کر ایسا لگتا
ہے کہ گویا کہ آج انسانی جان کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے۔جب کہ
سچائی یہ ہے کہ ایک ایک انسان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام نے ایک ایک
انسانی جان کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اس کے نزدیک کسی ایک شخص کا بھی ناحق قتل
گویا کہ پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کی پوری
کوشش کی ہے۔ چنانچہ یہ قانون بنادیا گیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کی ہے تو اس
بات کا پورا نظم ونسق کیا جائے گا کہ انسانی جان برباد نہ ہوپائے۔ چاہے وہ
مسلم کی جان ہو یا کافر کی جان۔ اسلامی تعلیم ہے کہ انسانی جان کی حفاظت کی
جائے اور کسی کو قتل نہ کیا جائے۔ ارشاد باری ہے “ انسانی جان کو ہلاک نہ
کرو، جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے”۔علماءکرام نے بھی اس مسئلے کے
متعلق وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ “ہر امن پسند غیر مسلم کے خون کی قیمت
مسلمانوں کے خون کے برابر ہے،اس لیے اگر کوئی مسلمان کسی پر امن غیر مسلم
کو قتل کردیتا ہے تو اس کا قصاص اسی طرح لیا جائے گا، جس طرح ایک مسلمان کے
قتل کا لیا جاتا ہے”گویا کہ جان کے تحفظ کے معاملہ میں مسلمان اور غیر
مسلمان دونوں برابر ہیں ، جس طرح ایک مسلمان کی حفاظت ضروری ہے، اسی طرح
ایک غیر مسلم کی جان کی حفاظت بھی ضروری ہے۔اسلام نے قتل وقتال کو ہر حال
میں روکنے کی کوشش کی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ بدامنی او رخوں ریزی کا سلسلہ
طویل ہوجاتا ہے۔ عام طور سے دیکھنے میں آ یاہے کہ اگر کوئی شخص قتل کردیا
جاتا ہے تو مقتول کے خاندان والے بھی اسی طرح کے انتقام کے لئے آمادہ
دکھائی دیتے ہیں ، یہاں تک کہ کبھی کبھی کچھ وقت کے بعد سننے کوملتا ہے کہ
قاتل کو مقتول کے خاندان والوں نے قتل کرڈالا۔ اس پر دوسرے مقتول کے ورثا
بھی سکون سے نہیں بیٹھتے ، وہ بھی اسی طرح کا معاملہ کرنے کےلئے عام طور سے
تیاررہتے ہیں ، نیتجہ یہ نکلتا ہے کہ لمبے وقت تک خاندانوں کے مابین خوں
ریزی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس خوں ریزی سے نہ صرف جانوں کا ضیاع ہوتا ہے،
بلکہ سکون بھی غارت ہوجاتا ہے ، دونوں خاندان کے لوگوں کو خدشہ لگا رہتا ہے
کہ جانے کب کس کو ہلاک کردیا جائے۔ اس کشمکش اور خوف کے ساتھ ان کی زندگی
بسر ہوتی رہتی ہے۔ معلوم ہوا کہ قتل کا انجام تباہ کن ہوتا ہے اور اسلام
نہیں چاہتا کہ کوئی اس طرح کے حالات کا سامنا کرے۔ اس لیے وہ قتل وقتال سے
سختی کے ساتھ منع کرتا ہے۔اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ہی کی
بڑی اہمیت ہے۔دونوں ہی کا پورا کیا جانا ضرو ری ہے۔ وہ حقوق جن کا تعلق
اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے،ان کے پورا نہ کیے جانے پر روز قیامت سخت باز پرس
ہوگی۔جس نے حقوق اللہ کو پورا کیا ہوگا، اسے بہترین اجر سے نوازا جائے گا ،
اس کے برعکس جس نے حقوق اللہ کی تکمیل میں غفلت برتی ہوگی، اس کا ٹھکانہ
برا ہوگا، البتہ جو لوگ صاحب ایمان ہونگے، ان کے لیے اللہ کی ذات سے معافی
کی امید کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اللہ کی ذات بڑی کریم ورحیم ہے، وہ معاف کرنے
والا اور رحم کرنے والا ہے۔جہاں تک حقوق العباد کی بات ہے تو یہ اسی وقت
معاف ہونگے، جب کہ وہ شخص جس کے حقوق مارے گئے ہونگے ، وہ معاف کردے، اس
اعتبار سے حقوق العباد کی تکمیل کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہے۔ حقوق العباد
سے مراد انسانوں کے حقوق ہیں۔چاہے وہ والدین کے حقوق ہوں، پڑوسی کے حقوق
ہوں یا عزیزواقارب اور دوست و احباب کے حقوق یا محلے والوں کے حقوق ہو ں یا
عام انسانوں کے حقوق ہوں۔حقوق العباد کا دائرہ انتہائی وسیع ہے اور ا س
دائرہ میں اپنے اور پرائے ، مسلمان اور غیر مسلمان سبھی آتے ہیں، یہ ایک
الگ بات ہے کہ بعض کے حقوق زیادہ ہیں اور بعض کے کم، البتہ جو حقوق جس کے
لیے متعین کیے گئے ، ان کی تکمیل لازمی ہے اور ان سے غفلت پر سخت پکڑ
ہے۔دین اسلام کے پیش نظر کیو نکہ پوری انسانیت ہے، ا س لیے وہ اپنے
پیروکاروں کو صرف رشتہ داروں یا مسلمانوں کے حقوق تک محدود نہیں رکھتا ،
بلکہ تمام انسانوں تک اس دائرے کو وسیع کرتا ہے۔ ایسے عام حقوق میں جان کی
حفاظت اہم ہے۔ یعنی جان چاہے مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی حتی الواسع اس کا
تحفظ لازم ہے ، پھر انسان کی تخلیق محض اللہ تعالیٰ نے کی ہے، اس لیے کسی
دوسرے شخص کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ کسی انسان کی جان لے۔
یہاں تک کہ خود انسان کی جان کی قدر وقیمت کا اندازہ قرآن مجید کی اس آیت
سے لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ جو شخص کسی ایسی جان کو
قتل کرے، جس نے کسی کو قتل نہ کیا اور نہ اس نے فساد برپا کیا تو گویا اس
نے تمام لوگوں کا خون کیا، غور کیجئے کہ آیت مذکورہ میں ایک جان کے قتل کو
تمام جانوں کے قتل سے تشبیہ دی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ کسی انسان کا قتل
کرنا گویا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے۔کسی انسان کی جان لینا
اسلام کے نزدیک کتنا قابل گرفت عمل ہے، اس کا اندازہ نبی پاک حضرت محمدﷺ کی
اس حدیث سے ہوتا ہے آپ نے فرمایا “ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب
لیا جائے گا، وہ نماز ہے جس کے بارے میں باز پرس کی جائے گی او رحقوق
العباد میں سب سے پہلے قتل کے دعوﺅں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی
انسانی جان کی ہلاکت کو عظیم گناہ کے ساتھ ایک اور حدیث میں اس طرح بیان
کیا گیا کہ “ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی مخلوق کو
شریک ٹھہرانا ، پھر کسی انسان کو ہلاک کرنا ہے، پھر ماں باپ کی نافرمانی
کرنا ہے ، پھر جھوٹ بولنا ہے”۔ اس حدیث میں قتل کے گناہ کو شرک کے بعد بیان
کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ عظیم گناہ ہیں، ان میں کسی انسانی جان کو ہلاک
کرنا سر فہرست ہے۔انسانی جان کی حفاظت کے لیے اسلام فقط اخلاقی طریقہ ہی
اختیار نہیں کرتا، بلکہ سزا کے ذریعہ بھی اس کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔
چنانچہ انسان کے قتل کی سخت سزا متعین کی گئی ہے۔ اسلامی قانون کے مطابق
قاتل کی سزا قتل ہے، بشرطیکہ مقتول کے ورثا کچھ لے کر معاف نہ کردیں۔ یعنی
اگر کسی نے انسان کو قتل کیا تو بدلہ میں اسے بھی قتل کردیا جائےگا۔ بظاہر
یہ انتہائی سخت سزا ہے جس پر بعض اسلام سے عصبیت رکھنے والے لوگ اعتراض بھی
کرتے ہیں ،مگر نتیجہ کے لحاظ سے یہ سزا دراصل نوع انسان کے لیے مفید ہے اور
ان کی جانوں کے تحفظ اور امن وسکون کی بقا کی ضامن ہے۔ دیکھنے میں آرہا ہے
کہ وہ مقام و ممالک جہاں پر قتل کی سزا قتل نہیں ہے، وہاں قتل کی وارداتوں
میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے،اس کے برعکس جن مقامات پرقاتل کے واقعات کی
تعداد نہ کے برابر ہے۔ گویا کہ اس سخت سز ا میں انسان کے تحفظ کا راز مضمر
ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اس قدر کوششوں کے
باوجود بھی فی زمانہ اسلام کو تاریک اور شدت پسند کہا جارہا ہے، جب کہ اس
کی تعلیمات امن کے قیام کا موثر ترین ذریعہ ہیں۔ |