وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں جبھی تو
کچھ قابل اعتماد ماہرین فن(لال بجھکڑوں) کے عجلت آفریں مشوروں پر بے تکے
احکامات جاری فرمادیتے ہیں جنکے منفی نتائج سامنے آتے ہیں اور مقاصد فوت
ہوجاتے ہیں۔ عوام کو روٹی چاہیئے مگر کیسے ؟ لمبی قطاروں میں غریب طبقہ دو
روپے کی روٹی کے حصول کے لیئے باری کا منتظرتھا۔ جب روٹی لے کر گھر پہنچا
تو بلکتے بچے سو گئے۔ سستی روٹی سکیم کے لیئے سستا آنے والاآٹابلیک میں
دکانوں پر بیچا گیا۔ جس سے کچھ پارٹی ورکروں کو انکی پارٹی وابستگی کا اجر
ضرور ملا۔ غریب عوام کو کیا ملا؟ میاں صاحب خود تو منصوبہ بندی کرتے نہیں
دوسروں کو اپنے جیسا ایماندار اور عوام کا غمخوار تصور کرتے ہوئے منصوبے
جاری کرنے کا کہہ دیتے ہیں اور وہ ہر جگہ اپنا مقدر بناتے ہیں۔ مجھے حیرت
ہوتی ہے کہ کوئی بھی آنجناب کو صائب رائے دینے والا نہیں۔ اربوں روپے بلا
تکلف حرام خوروں کے پیٹوں میں چلے جاتے ہیں اور غریب عوام جو ں کے توں
محروم خیر رہتے ہیں۔ میں نے اس وقت بھی نوائے وقت کے کالم میں لکھا تھا کہ
سستی روٹی کے نام پر لٹیرے عوام کا حق کھا رہے ہیں۔ اس سکیم کی جگہ کھلی
مارکیٹ میں آٹا سستا کردیں جہاں سے ہرکس و ناکس بآسانی خرید سکے ۔جو رقم
غریب کو سہولت دینے کی بجائے چندلٹیروں کی تجوری میں چلی جاتی ہے اسی رقم
سے خصوصی رعائت دے کر آٹا سستا کردیں ۔اسلام اسی مساوات کا درس دیتا ہے۔ اس
طرح وزیراعلیٰ صاحب کو انکے کارخیر کا ثواب ملے گا۔ حکومت کی سستے بازاروں
کی پالیسی شفاف نہیں۔ اس سے عوام کو خاطرخواہ سہولت نہیں ملتی۔ مثلا سستے
بازار جہاں لگے ہیں وہاں غریب لوگ ٹیکسی کے ذریعہ ہی جاسکتے ہیں ۔ اگر کم
از کم دوطرفہ کرایہ چار صد اداکریں تو بتائیں کہ انہوں نے کتنے ہزار کی
خریداری کی کہ چار صد کرایہ اداکرنے کے بعد بھی انہیں چند صد کی بچت ہوئی؟
اگر حکومت عوام کو سہولت دینے میں مخلص ہے تو جس طرح کی سہولیات کاروباری
افراد کو دے کر سستے بازاروں میں کم نرخوں پر اشیاءفروخت کرنے پر آمادہ کیا
جاتا ہے اس طرح کی سہولتیں دے کر ملک میں ہرجگہ کم نرخوں پر اشیاءفراہم
کرنا حکومت کا فرض بنتا ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ سستے بازاروں کے گرداگرد
ہزاروں گاڑیوں کا جمگھٹا ہوتا ہے۔ یہ خریدار وہ ہوتے ہیں جن کی قوت خرید ان
سستے بازاروں کی محتاج نہیں۔ حکومتی سہولتوں کے مستحق لوگ اور ہیں جنکے پاس
اتنے پیسے نہیں کہ وہ گاڑیاں لے کر ہزاروں روپے کا سودا خریدیں۔ ہمارے
حکمرانوں کو ان لوگوں کا خیال تک نہیں آتا۔ اب وزیر اعلیٰ صاحب نے رمضان
المبارک کے بارے پیکیج دیا ہے۔ ہمارے حکمران اور ہمارے تاجر اس ماہ مبارک
کا تقدس پامال کرنے میں دنیاکے بددیانت اور خیانتکار لوگوں کے امام ہیں۔
حکومت نے رمضان سے قبل بجلی، تیل،گیس کے نرخوں اضافہ کیاتو ضروریات کی تمام
اشیاءمہنگی ہوںگئیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی غائب ہوگئی تاکہ نئے بڑھے ہوئے
نرخوں پر بیچ کر منافع کمایا جائے۔حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی غریب اور
محنت کش کا جینا دوبھر کردیا۔ مہنگائی بڑھاکر اس میں سے کچھ کم کرکے عوام
پر احسان کیا جارہا ہے کہ رمضان پیکیج رحمتوں کے مہینے میں اللہ ان سے خوش
ہوگا۔ مگر یہ جان رکھو کہ اللہ ہر چھپے اور ظاہر کو جانتا ہے۔ سستے بازار
میں آٹے کا تھیلا یک صد روپیہ سستا ہوگا اور عام بازار میں ساٹھ روپے ۔ کیا
یہ انصاف ہے؟ اگر آپ نے نیکی کا ارادہ کیا ہے تو کرپشن کا راستہ بند کرتے
ہوئے پورے صوبے میں آٹے کے تھیلے پر یکساں یکصد روپے کی رعائت دیں۔
ورنہ کھلے بازار میں ساٹھ روپے کی رعائت اور سستے بازار میں یکصد کی رعائت
تو اس طرح لٹیروں کے وارے نیارے ہونگے کہ فی تھیلا انہیں چالیس روپے کی بچت
ہوگی۔ آٹا بلیک میں جائے گا۔ سستے بازاروں کی بڑی قباحت یہ ہے کہ پورے صوبے
میں غالبا ساڑھے تین صد کے لگ بھگ قائم کیئے جائیں گے۔ ان بازاروں سے اپنی
ذاتی گاڑیوں والے یا بازاروں قرب وجوار کے ساکنین ہی خریداری کر سکتے ہیں۔
گرمی کی شدت میں رمضان بازاروں تک غریب آبادیوں کے مکینوں کی رسائی اور
وہاں چینی یا آٹا کے حصول کے لیئے یوٹیلیٹی بلز ہاتھوں میں پکڑے کون
خریداری کرسکے گا؟ غریبوں کی سہولتوں کے منصوبے وہ لوگ بناتے ہیں جنہیں ان
مسائل و مشکلات کاتجربہ ہی نہیں۔ اگر حکمرانوں میں سکت ہے تو ذخیرہ اندوزوں
پر ہاتھ ڈالیں کہ جنہوں نے رمضان المبارک کی آمد سے قبل کھجور، بیسن اور
دیگر اشیاءخوردنی کے ذخیر ے کرلیئے ہیں ۔ حقیقت میں ہمارے حکمران عوام کو
کوئی سہولت پہنچانا ہی نہیں چاہتے ۔ صرف مختلف حیلوں اور مکاریوں سے اشک
شوئی کی کوشش کرتے ہیں۔ میں پھر کہوں گا کہ اللہ سے ڈرواسکی گرفت بڑی سخت
ہے۔ اور موجودہ حکمرانوں کوقریب کا ماضی نہیں بھولنا چاہیئے۔ اللہ تعالی نے
انہیں اگر پھر سے اقتدار عطا کیا ہے تو اللہ کے کنبے کے ساتھ ہمدردی اور
خلوص سے پیش آئیں۔ اللہ کی مخلوق کے لیئے آسانیاں پیدا کروگے تو اللہ تعالی
تمہارے لیئے آسانیاں پیدا کرے گا۔ مکارانہ پالیسیوں کی جگہ شفاف طریقے سے
عوامی ضرورت کی جملہ اشیاءکے نرخ کم کریں جیسا کہ دوسرے ممالک میں غیرمسلم
اپنے ہم مذہبوں کے لیئے کرتے ہیں۔ کسقدر ذلت آمیز مثال دینی پڑی کہ ایک وہ
دور تھا جب غیرمسلم مسلمانوں کی مثالیں دیتے انکی پیروی کرتے تھے آج مجھے
غیرمسلموں کی مثال دینی پڑی ۔ اللہ مسلمانوں کو غیرت و حمیت قومی سے سرشار
کرے آمین۔ |