لوڈ شیڈنگ کا عذاب تو کراچی کے عوام جھیل ہی رہے تھے کہ پچھلے چند روز سے
عجیب و غریب سلسلہ شروع ہو گیاہے جس سے عوام بہت زیادہ تنگ ہیں۔میں ہر
شہرکی بات تویہاں پرنہیں کرسکتامگر میرے اپنے علاقے میں روزانہ رات کو کسی
پہر بجلی بند ہو جاتی ہے اورجب صبح نمازکے لئے نیند سے بیدار ہونے پر یہ
پتہ چلتاہے کہ لائیٹ نہیں ہے۔پھر اُسی وقت گرمی کے بے چینی اور بے سکونی کی
وجہ سے حالات کے جائزے اور معلومات کی غرض و غایت کو جاننے کے لئے گھر سے
نکل کردیکھتا ہوں تو پتہ چلتاہے کہ محلے کے کئی اور لوگ بھی اسی بے چینی کا
شکار ہیں۔اور بجلی والے کام میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔(اور یہ لوگ رات کو
کام کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ انہیں اوور ٹائم کی
ادائیگی بھی انہی اوقات کی کی جاتی ہیں)یوں کام کرتے کرتے دن کے گیارہ بج
جاتے ہیں اور پھر بجلی بحال ہو جاتی ہے ۔کیونکہ ہماری طرف لوڈ شیڈنگ کی
اوقات کار دن کے ساڑھے بارہ بجے شروع ہوتاہے تو دیڑھ گھنٹے میں ہی دوبارہ
بجلی گل کر دی جاتی ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ والوں کو اطلاع دینا بھی KESCوالو ں
کی ذمہ داری ہے کہ فلاں جگہ میں اتنے گھنٹے سے بجلی نہیں تھی لہٰذا ان
جگہوں پر لوڈ شیڈنگ میں نرمی برتی جائے۔مگر کہاں جناب!بے حسی اور بے عملی
کا فقدان اس قدر بڑھ چکاہے کہ کسی کو کسی کا احساس ہی نہیں رہا جبکہ بجلی
کا بل دیکھ لیا جائے تو اللہ کی پناہ ۔صدقِ دل سے موازنہ کیاجائے تو آپ کے
سمجھ میں آئے گاکہ اس وقت KESCمیںدو ہی شعبے ہیں جو وقت پر اور بہت ہی
ایمانداری سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروفِ عمل ہیں۔ ایک تو وہ شخص
یا وہ عملہ جو لوڈ شیڈنگ بالکل وقت پر کرتاہے مجال ہے کہ ایک لمحے کی بھی
تاخیر ہوجائے ،اور دوسرا ان کا بل بنانے والا شعبہ،مجال ہے جو کسی پررحم کر
دے۔رحم تو دور کی بات ہے ایووریج پر بل بھیج کر لوگوں کو پریشانی میں مبتلا
کرنا بھی انہوں نے اپنا وطیرہ بنالیاہے۔کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن
والے بل کی مَد میں روپئے تو روپئے ایک پیسہ بھی چھوڑنا گوارا نہیں کرتے
اور فیول ایڈجسٹمنٹ کی مَد میں بھی ہرماہ نیپرا سے مدد لے کر اپنے بلوں میں
خاطرخواہ اضافہ کرتی رہتی ہے۔مگر یہ ادارہ جب سے موجودہ انتظامیہ کے پاس
گیاہے یہ لوگ کبھی عوام کے بارے میں نہیں سوچتے کہ عوام توپہلے ہی لوڈ
شیڈنگ سے پریشان ہیں اور ایسے میں ان کی ذہنی کیفیت کیاہوگی جب بجلی فیل
ہونے کے سبب کئی کئی گھنٹوں تک زندگی کی کالی سچائی سے لڑناپڑتاہوگا۔ اچانک
بجلی چلی جاتی ہے لوڈ شیڈنگ کے اوقات کے علاوہ ، کون کہتا ہے کہ غیر
اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے ،یہ معاملہ صرف اخباری بیان کی حد تک ہی
محدود ہے دوستو! کچھ منٹوں کیلئے پہلے ایساہوتاتھالیکن پھر یوں محسوس ہوتا
تھاکہ بس بجلی تو آنے ہی والی ہے اور پھر سب کچھ نارمل ہو ہی جائے گا لیکن
آج کل تو اسکرپٹ ہی تبدیل لگتاہے ، تاروں کے ٹوٹنے اور پھر اسے جوڑنے میں
کئی گھنٹے لگا دیئے جاتے ہیں اور یوں انہیں مزید بجلی بچانے میں اور عوام
کو تکلیف دینے میں بہت مزا آتا ہے۔
آپ تو جانتے ہی ہیں کہ کراچی میگا سٹی (انٹرنیشنل سٹی) ہے مگر یہاں بجلی کے
نہ ہو نے کی وجہ سے پچھلے سال سحری کے وقت سائرن کی آواز کے بجائے کھمبے
بجنے لگے،بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ کر ورلڈ کلاس میٹرو سٹی جہاں تھی وہیں
رُک جاتی ہے ۔اسپتالوں میں سرجری رُک جاتی ہے، لوگوں میں وحشت پائی جانے
لگی۔ اس دوران ایسا محسوس ہوتاہے کہ پورا نظامِ زندگی چوپٹ ہو چکا ہے ۔
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مسجدوں کی چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دی جاتی ہیں،ٹیلی
ویژن بند ہوا تو لازمی ہے کہ کیبل بھی بند ہو گیا اور یوں لوگوں کے کانوں
میں ریڈیو بجنے لگے ایسا محسوس ہوتاہے کہ غیر ملکی کمپنی کی ملکیت (کراچی
الیکٹرک سپلائی کارپوریشن) ہمارے شہرِ کراچی (میگا سٹی) کو پتھر کے دور کی
طرف لے جا رہی ہے۔شہری اذیت سے بلبلا اٹھے ہیں۔بجلی کی اس قدر خوفناک
صورتحال کے باعث ان کا اپنا عملہ بھی کئی دفعہ دفاتر کو چھوڑ کربھاگ نکلتے
ہیں کہ جان کی پرواہ کسے نہیں ہوتی جناب!
ویسے بھی حکومت نے جب سے کے ای ایس سی کے معاملات غیر ملکی انتظامیہ کو
سونپے ہیں،اس انتظامیہ نے صرف اور صرف وصولی کاکام ہی تندہی سے کیاہے ،
Maintenanceکی مدمیں کبھی کوئی کام کرنا ہی گوارانہیں کیا۔اگر ان سے اس
معاملے میں پوچھ گچھ کی جائے گی تو وہ کاغذوں میں ضرور مینٹینس دکھا دیں
گے۔بجلی کے تاروں کو ہی دیکھ لیں اتنی بوسیدہ حالت میں ہیں کہ اگر تھوڑی
تیز ہوا چلے تو دھاگے کی طرح یا کسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح نیچے
گرجاتاہے۔کراچی میں سڑکوں کی مرمت کئی بار ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے تمام
سڑکیں اونچی ہو گئی ہیں مگر بجلی کے پول آج اس ہائیٹ کی وجہ سے نیچے ہو گئے
ہیں ۔اگر کراچی کے کسی ایریا میں پی ایم ٹی خراب ہو جائے اور انتظامیہ اسے
بنوانے کے بہانے وہاں سے لے جاتی ہے تو بس سمجھیں کہ وہاں کے لوگوں کی بجلی
ایک ہفتے کے لئے بند ہو گئی۔سمجھ میں نہیں آتاکہ کے ای ایس سی اپنے بجلی
گھروں سے بجلی کیوں نہیں بنارہا ،ان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے شہریوں کو
پانی کی سپلائی میں بھی پریشانی کا سامنا کرناپڑتاہے!
عجیب و غریب منطق ہے جو بظاہر سمجھ سے بالاترہے کہ گیس اور فرنس آئل ملے
گاتو لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی،بھائی اگر سب کچھ حکومت نے ہی دیناہے تو آپ نے
اپنی کمپنی کیوں Involveکی ہے۔کیا معاہدے میں یہی لکھاگیاہے۔شاید نہیں ،
لکھا تو شاید یہ گیاہوگاکہ کمپنی اپنی بجلی بھی بنائے گی تاکہ لوڈ شیڈنگ سے
نجات مل سکے۔مگر ایسا آج تک دیکھنے میں نہیں آیا،اب تواتوار کوبھی لوڈ
شیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ دوسرے تہواروں کے موقع پر لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی تو
اُس وقت بجلی کہاں سے دی جاتی ہے۔کوئی کرکٹ کا میچ ہو تو بجلی کی بندش نہیں
کی جاتی جب کہ مقدس راتیں جیسے شبِ معراج، شبِ بارات کے موقعے پر لوڈ شیڈنگ
اپنے شیڈول بلکہ اس سے ہٹ کر بھی کرتے رہے ہیں کیا خوب اس ملک کے قوانین
ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہواکہ جان بوجھ کر عوام کوپریشان کیاجارہاہے۔
ویسے بھی ہمارے شہر میں بجلی کے گُل ہونے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں جب
سینگ سماتا ہے بجلی گل کر دی جاتی ہے ٹائم ٹیبل ہونے کے باوجود بھی پندرہ
پندرہ منٹ کیلئے ہی سہی بجلی گل کر دی جاتی ہے اور پھراپنے اوقات کارمیں
تولوڈ شیڈنگ ہو ہی رہی ہے۔بلکہ آج سے ساڑھے سات گھنٹے کی بجائے نو گھنٹے کی
لوڈ شیڈنگ کا اعلان بھی بڑے پُرتباک انداز میں KESCنے کیا ہے دراصل ، اصل
مسئلہ اپنے کوٹہ سے زیادہ بجلی لینے کا نہیں ہے ۔(یہ لائین اس لئے تحریر
کرنا ضروری ہے ) کہ الیکشن کے دنوں میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اپنے الیکشن
کمپین میں کہتے رہے ہیں کہ کراچی کو واپڈا سے سات سو میگا واٹ بجلی دی جاتی
ہے اگر میں کہوں گا تو عصبیت کا شورہوگا) چھوڑیں ان باتوں کوکیونکہ اس جملے
سے آپ سب کے سمجھ میں آ چکا ہوگا کہ راقم کیا کہنا چاہتا ہے، اصل مسئلہ ملک
میں بجلی کی شدید کمی کاہے یا یہ کمی بیورو کریسی نے کر دیا ہے،جو کہ پورے
ملک کی مانگ کے لئے کافی نہیں ہے۔جبکہ آج بھی ملک کے کئی گاﺅں ایسے ہیں
جہاں بجلی کا نام و نشاں بھی نہیں ہے۔اس کا واضح مطلب تویہی ہے کہ ملک میں
بجلی کی شدید کمی ہے۔اور کیوں نہ ہو ہم نے آج تک کون سا حدف بجلی کے سلسلے
میں حاصل کرلیاہے ،کیا کبھی بھی ذمہ داری طے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پلانگ
کمیشن نے کبھی اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچاہے۔ویسے بھی ہدف طے کرنے کے کچھ
بنیادی جُز ہوتے ہیں یونہی ہوا میں ہدف طے نہیں کر دیئے جاتے ہیں اور اگر
اربابِ اختیاریہ کہتے ہیں کہ ہدف طے کئے گئے ہیں تو وہ پورے کیوں نہیں
ہوئے۔یہ سوالیہ نشان ہے جو آج تک موجود ہے؟
کے ای ایس سی کے لئے تو معمول کی بات ہے کہ فنی خرابی پیدا ہو گئی ہے اس
لئے بجلی منقطع ہو گئی مگر روشنیوں کے شہر کراچی کو تاریکی میں ڈوبتا دیکھ
کر بھی ان کے سروں پر جوں نہیں رینگتا کہ اس فنی خرابی کے علاوہ دیگر جو
ضروری بنیادی کام ہیں انہیں کم از کم درست کر لیں تاکہ شہریوں کو عذاب سے
نجات مل سکے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ کے ای ایس سی اور پاور سیکٹر کی پوری طرح سے سرجری کی
جائے۔شروعات یہیں سے کی جائے۔ انتظامیہ تبدیل کرنے سے ہو سکتا ہے کہ دوسری
نجی کمپنی سے کچھ اصلاح ہوجائے۔فی الحال تو کوئی ٹھوس تبدیلی نظر نہیں آ
رہی ہے، وہی پرانے اور گھسے پٹے طریقے سے نظام کو چلایا جا رہا ہے جس کی
وجہ کر عوام آج بھی پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور عوام کو تکلیف دہ مراحل سے
گزرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری سیدھی سادھی عوام اربابِ اختیار سے آس
لگائے بیٹھے ہیں۔ |