سیاح خواتین کےلئے غیر محفوظ بھارت

ویسے تو بھارت اپنے ملک کی خواتین کے لئے غیر محفوظ ملک ہے جہاں ہر بیس منٹ میں ایک بھارتی عورت ریپ کا شکار ہوتی ہے لیکن بھارتی معاشرے کا یہ بھیانک کردار اور ذہنیت غیر ملکی سیاح خواتین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں سے بھارت میں غیر ملکی سیاح خواتین سے زیادتیوں کے واقعات یکے بعد دیگرے پیش بھی آ رہے ہیں اور بڑھتے بھی جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں بیرونی ممالک کو اپنی ٹورسٹ خواتین کو بھارت جانے سے گریز کرنے کی ٹریول ایڈوائزری جاری کرنی پڑ رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ صرف 2013ء میں ایسے کئی واقعات ہوئے جن میں یورپ سے آنے والی سیاح خواتین کی آبروریزی کی گئی اور اس میں درندہ صفت بھارتیوں نے کسی ملک اور عمر کی تشخیص نہیں رکھی۔ جہاں ایک اڑتیس سالہ سوئس خاتون کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا وہیں ایک نوجوان کورین طالبہ کو بھی اسی سلوک کے قابل سمجھا گیا اور ایک نوجوان آئرش لڑکی بھی انسانیت کے ان دشمنوں کی دست برد سے محفوظ نہ رہی۔ تین جون کو ایک امریکی سیاح کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ آگرہ میں چھٹیاں گزارنے کی نیت سے آئی ہوئی ایک برطانوی خاتون سیاح نے اپنی عزت بچانے کے لئے ہوٹل کے کمرے سے چھلانگ لگائی اور اپنی ٹانگ زخمی کر بیٹھی۔ یہ واقعات بھارت میں ایک معمول ہیں اور پانچ سال پہلے ایسی ہی ایک پندرہ سالہ معصوم برطانوی لڑکی جو سکول کی طالبہ تھی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور اسے گوا کے ساحل پر مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا اسی طرح کا سلوک گرو گاؤں میں چینی کارکن کے ساتھ کیا گیا۔ اگرچہ یہ واقعات بھارت میں ہوتے رہتے ہیں تاہم 2013ء میں اب تک ایسے کم از کم آٹھ دس واقعات ریکارڈ پر آ چکے ہیں اور بھارت سیاح عورتوں کے لئے ایک خطرناک اور غیر محفوظ ملک قرار دیا جانے لگا ہے۔ اسی لئے سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے اپنی سیاح عورتوں کو بھارت جانے کے خطرناک نتائج سے متنبہ کیا ہے۔

بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور خواتین کے حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویدار ہے اس کا انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے حوالے سے انتہائی پسماندہ ریکارڈ ہے۔ بھارتی میڈیا، سول سوسائٹی اور خواتین کی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں عورتوں کے خلاف جرائم پر تسلسل سے آواز اٹھا رہی ہیں۔ گزشتہ 20 برسوں کے دوران خواتین کے ساتھ ریپ کے کیسز دگنا ہو گئے ہیں۔ ہر 20 منٹ میں ایک عورت ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ ریپ کا ہر تیسرا شکار بچہ ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق ہریانہ سے لیکر مغربی بنگال تک عورتوں اور بچوں کے ساتھ ریپ کے جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ حال ہی میں ہریانہ میں یکے بعد دیگرے ریپ کے کیسز سامنے آنے پر میڈیا چیخ اٹھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق این سی آر بی کی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ریپ بھارت کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا جرم بن چکا ہے اور گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران اس میں 873 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ ریپ کے واقعات بھارت کی سبھی ریاستوں میں بڑھے ہیں بالخصوص دہلی، راجستھان، ہریانہ، مہاراشٹر، کرناٹک، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش میں ان میں بہت تیزی دیکھنے میں آئی۔ 2011ء میں سب سے زیادہ ریپ کے واقعات ریاست مینہ ورام میں ہوئے۔ پہلے یہاں ہر ایک لاکھ میں سے 9.1 عورتیں ریپ کا شکار ہوتی تھیں لیکن اس برس ایک لاکھ میں سے 25000 عورتوں کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ ان میں سے 9.398 بجوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق عام طور پر ریپ کرنے والا مجرم ریپ کے شکار شخص کا واقف کار ہوتا ہے۔ 2011ء میں مدھیہ پردیش میں 3,406، مغربی بنگال میں 2363، اترپردیش میں 2042 واقعات ہوئے۔ دہلی میں 2011ء میں 568 کیسز ریکارڈ پر آئے۔ ریپ کرنے والے ملزمان جو جیل میں قید ہیں ان کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ 1973ء میں ان کی تعداد 4,991 تھی۔ ہریانہ میں سال 2011ء میں ہر ماہ 60 ریپ کے واقعات ہوئے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2011ء میں ریاست ہریانہ میں 725 خواتین ریپ کا شکار ہوئیں۔ 2006ء سے اب تک ہر ماہ 50 عورتوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے۔ صرف 2007ء کے سال میں ان کی تعداد تھوڑی کم ہوئی اور ہر مہینے 40 عورتیں ریپ کا نشانہ بنیں۔
Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 10 Articles with 6981 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.