خوراک میں ملاوٹ اب عالمی مسئلہ بن گیا ہے

 خوراک میں ملاوٹ اب عالمی مسئلہ بن گیا ہے، شمپین ہو یا برگر، دودھ ہو یا چا کلیٹ ، خوراک کے بند پیکٹ ہو، یا جنک فوڈ اب ہر جگہ اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ خوراک ملاوٹ شدہ نہ ہو، پوری دنیا میں خوراک میں ملاوٹ ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ جس ملک میں بھی خوراک پیدا کی جاتی ہے یا تیار کی جاتی ہے وہاں اس میں دھوکہ دہی کی جارہی ہے۔ میچل وائین برگ انسکیچ کے صدر اور چیف ایگزیکیٹیو ہیں۔ یہ کمپنی خوراک کے تحفظ کے لئے مشاورت فراہم کرتی ہے۔ دنیا میں شراب میں ایسی ملاوٹ کی جارہی ہے، جو انسانی جان کو انتہائی خطرے سے دوچار کر دیتی ہے، سب سے زیادہ ملاوٹ وڈکا میں کی جاتی ہے، اور یہ کاروبار بین الاقوامی طور پر پھیلا ہوا ہے۔وڈکا گینگ باس کیون ایڈی شا شراب میں ملاوٹ کے جرم میں پکڑا گیا، اس کی کمپنی صنعتی پیمانے پر یہ کام کرتی ہے، تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ اس نے ایک لاکھ پینسٹھ ہزار ایسی بوتلیں فروخت کیں جس سے برطانیہ کو تئیس 23 ملین ڈالر ٹیکس کا نقصان ہوا۔عالمی ادارہ صحت بھی اس مسئلہ پر جاگ اٹھا ہے۔ اور اب اس نے خبردار کیا ہے کہ ملاوٹ شدہ خوراک کے استعمال سے بڑے پیمانے پر وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چان نے سنگاپور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ بین الاقوامی تجارت میں اضافے کے نتیجے میں کسی وبائی مرض کے جراثیموں سے آلودہ خوراک دنیا کے کسی بھی حصہ میں پہنچ کر اس مرض کے وبائی صورت اختیار کرنے کی وجہ بن سکتی ہے اور جن ممالک کی بین الاقوامی تجارت کا حجم اور شہریوں کا غیرملکی سفر دوسروں سے زیادہ ہے، وہ اس خطرے سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ مارگریٹ چان نے حال ہی میں ای کولی سے یورپ بھر میں 4 ہزار افراد کے متاثر ہونے اور 51 کے ہلاک ہونے کی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایک وبائی مرض کے بیک وقت کئی ممالک میں پھیل جانے پر کنٹرول ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔چٹ پٹے کھانوں میں جومصالحہ جات استعمال ہورہے ہیں جسمانی صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہیں،چینی جسے white poisionکہاجاتاہے اس کااورکولڈ ڈرنکس Cold Drinksجیسے مشروبات (بوتلوں)کاحد سے زیادہ استعمال بھی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ملاوٹ شدہ خوردنی اشیا اور ادویہ کے کاروبار دنیا کے ہر ملک میں ہورہے ہیں۔ ، مرے ہوئے جانوروں کے علاوہ ہر طرح کا حرام گوشت فروخت کیا جا رہا ہے،

یورپ کے بعض ملکوں میں بیف مصنوعات میں گھوڑے کا گوشت ملا نے کا اسکینڈل عام ہے تو جنوبی افریقہ میں ایسی پروڈکٹس میں گدھے کے گوشت کے ساتھ بکری اور بھینس کے گوشت کی ملاوٹ کا پتہ چلا ہے۔جنوبی افریقہ کی معروف اسٹیلن بوش یونیورسٹی کے مطابق مارکیٹوں میں دستیاب بیف برگر اور ساسیجز (Sausages) میں روایتی اعتبار سے گائے کا گوشت ہونا چاہیے تھا لیکن ان میں ملاوٹ کرنے والوں نے گدھے کے گوشت کے ساتھ ساتھ بھینس اور بکری کا گوشت بھی شامل کرنے سے گریز نہیں کیا۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپ کے خاصے ملکوں میں بیف برگر اور دوسری ایسی مصنوعات میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ کا اسکینڈل ان دنوں پھیلا ہوا ہے۔اسٹیلن بوش یونیورسٹی کے لیبارٹی ٹیسٹوں کے بعد بتایا گیا کہ بیف برگر اور ساسیجز کی دو تہائی پروڈکٹس ملاوٹ شدہ گوشت سے تیار کی گئی تھیں۔ یونیورسٹی کے اینمل سائنسز کے پروفیسر لْوورینس سی ہوفمین (Louwrens C. Hoffman) کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں بیف پروڈکٹس پر لیبل پر غلط معلومات کا اندارج کر کے ایسی کمپنیوں نے اقتصادی، اخلاقی، مذہبی اور صحت کے معاملات کو متاثر کیا ہے۔پروفیسر ہوف مین کا کہنا ہے کہ گوشت پروڈکٹس کی سخت نگرانی کے نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسی ملاوٹ کا عمل سامنے آیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں لیبل کے بغیر مطابق کسی بھی خوراک کی فروخت قابل سزا ہے۔سویڈن کے ایکیا کی کینٹین پر بیف کے کوفتوں میں بھی گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی۔اسٹیلن بوش یونیورسٹی کی لیبارٹری میں 139 بیف کے نمونوں کے ڈی این اے (DNA) ٹیسٹ کیے گئے۔ بیف کی یہ پروڈکٹس دوکانوں اور گوشت فروشوں کے اڈوں سے حاصل کی گئی تھیں۔ ان 139 نمونوں میں سے 68 فیصد یعنی چورانوے سے زائد سیمپلز ملاوٹ شدہ تھے۔ پروفیسر ہوف مین کے مطابق ان نمونوں میں غیر روایتی جانوروں کا گوشت مختلف مقدار میں شامل تھا اور ان جانوروں میں گدھے، پالتو بھینسوں اور بکریوں کے گوشت کے نمونے دستیاب ہوئے۔ لیبارٹری ٹیسٹوں کے دوران بعض بیف کی پروڈکٹس میں سویا سبزی اورگلوٹین کے اجزاء کے ساتھ ساتھ خشک گوشت کے اجزا بھی شامل تھے۔ برطانیہ میں بھی برمنگھم سٹی کونسل نے حمزہ چکن برگرز میں خنزیر کے گوشت کی ملاوٹ کا ذمہ دار روشن فوڈز (حمزہ فوڈز) کو قرار دیا۔ کونسل کا کہناتھا کہ یہ درست ہے کہ ان برگرز کو روشن فوڈ والوں نے کسی دوسری کمپنی سے بنوایا تھا تاہم اس کی ری پیکجنگ چونکہ روشن فوڈ والوں نے حمزہ چکن برگرز کے نام سے کی ہے اسلئے اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ کی ذمہ داری حمزہ فوڈ پر ہی عائد ہوتی ہے۔کونسل کی ہیڈ آف انوائرمنٹل ہیلتھ (ساؤتھ) جینی ملوارڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ برمنگھم سٹی کونسل اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ حمزہ فوڈ کے ان چکن برگرز میں سور کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی ہے۔

ملاوٹ شدہ خوراک کا مسئلہ ان دنوں فرانس میں بھی ہے۔ فرانس کی سات سپر مارکیٹوں نے فنڈس اور کومیجیلنامی کمپنیوں کی جانب سے بنائے گئے منجمند گوشت کو ہٹا دیا ہے۔خیال رہے کہ یہ اقدام برطانیہ اور آئرلینڈ کی سپر مارکیٹوں میں ایسے بیف برگر فروخت ہوتے پائے تھے جن میں گھوڑے کا گوشت پایا گیا تھا۔اس سکینڈل نے کھانے کی تجارت کی یورپی یونین کے دیگر ممالک تک ترسیل کے نظام کی پیچیدگی پر سوال اٹھا دے ہیں۔اس سکینڈل نے برطانیہ، فرانس، سویڈن اور رومانیہ میں کھانے کی تجارت کے ڈسٹری بیوٹرز کے بزنس کو متاثر کیا ہے۔اس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کھانے کی تجارت سے منسلک یورپی یونین کے مذید گیارہ ممالک کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔فرانس کے وزیر خوراک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ فرانس میں ملاوٹ سے متاثرہ تمام مصنوعات کو ہٹا دیا جائے۔انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت فوڈ چین سے وابستہ تمام افراد سے تازہ ترین معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کا آغاز کیسے ہوا اور اس سے کیا سبق حاصل ہوا؟ادھر رومانیہ کی حکومت اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ برطانیہ اور فرانس میں بیف کیگوشت میں گھوڑے کی گوشت کی ملاوٹ کہیں اس کے کسی مذبح خانے سے تو نہیں ہورہی۔اس دوران برطانوی دارالعوام میں دیہی اور غذائی امور کی کمیٹی کی چیئرمین اینّی میکنٹوش نے یورپی یونین سے گوشت کی درآمدت پر عارضی طور پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔وزارت ماحولیات کے سیکرٹری اوین پیٹرسن کا کہنا ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔’یہ عوام کے خلاف ایک سازش ہے۔ یہ یا تو حد درجہ کی نا اہلیت ہے یا پھر عالمی سطح کی مجرمانہ سازش ہے۔‘ جن برگرز میں گھوڑے کے کوشت کی ملاوٹ پائی گئی تھی وہ برطانیہ آئر لینڈ میں ٹیسکو اور آئیس لینڈ پر اور ریپبلک آف آئرلینڈ میں دیونز، لڈل اور ایلڈی نامی سپر سٹوروں پر فروخت ہو رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ اس معاملے کی تفتیش شروع کی گئی ہے کہ آخر ہوا کیا۔ ’ہمارے پاس گوشت کے لیے کاروباری دستاویزات بھی ہیں اور ایک نہیں بہت سے کاغذات ہیں‘۔

ملاوٹ میں بھارت بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ بھارت کے صحت و خاندانی فلاح و بہبود کے مرکزی وزیر، غلام نبی آزاد نے غذائی اشیا میں ملاوٹ کے مسئلے کو کینسر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اِس سلسلے میں وضع کیے گئے نئے قانون میں ملاوٹ کو ایک جرم قرار دیا گیا ہے جِس پرعمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔اِس کے علاوہ، ملاوٹ کرنے والوں کو دس لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔اْنھوں نے راجیہ سبھا میں کہا کہ 2006ء میں پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کردہ غذائی تحفظ کے قانون کو تین چار ماہ کے اندر نافذ کر دیا جائے گا۔اِس قانون میں غذائی قوانین سے متعلق مختلف ضابطوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اِس کی 101شقوں میں سے 43کو نوٹی فائی کیا جا چکا ہے اور باقی شقوں پر جلد ہی اعلان جاری کیا جائے گا۔ بھارت میں غذائی اشیا میں بڑے پیمانے پر ملاوٹ کا دھندا جاری ہے۔ بدعنوان تاجروں کے ذریعے چاول، دالوں اور گیہوں میں کنکر، پتھر ملائے جاتے ہیں جب کہ دودھ، گھی، آئس کریم اور خوردنی تیلوں میں بھی خطرناک اور صحت کے لیے انتہائی مضر اشیا ملائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ تاجروں کے ذریعے ادویات میں بھی بڑے پیمانے پر ملاوٹ کرکے لوگوں کی زندگی کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے، اور آئے دِن اِس قسم کی بد عنوانیاں اور جعل سازیاں بے نقاب ہوتی رہتی ہیں۔ریاستی حکومتوں کے اعددو شمار کے مطابق سال 2008ء میں 63000نمونوں میں سے 4000اور اْس سے قبل 65000نمونوں میں سے تقریباً 5000نمونے ملاوٹی پائے گئے تھے ہمارے ہاں غذائی اجزاء میں ملاوٹ کے رجحان نے لوگوں کی صحت تباہ کردی ہے۔سرخ مرچوں میں لال اینٹوں کا برادہ مکس کیا جاتا ہے ،مٹر پر کپڑے کا رنگ چڑھا دیا جاتا ہے۔چم چم کو پھلانے کے لئے اس میں ڈٹرجنٹ پاؤڈرمکس کیا جاتا ہے،

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یورپ میں صنعتی ترقی کا دور شروع ہوا تو کارخانوں سے نکلنے والے سکریپ نے وہاں کے لوگوں کے لئے مسائل پیدا کرنے شروع کر دیئے چنانچہ یورپی صنعت کاروں نے سکریپ کی زائد مقدار کو خوشحالی اور ترقی کے نام پر افریقی ممالک میں فروخت کرنا شروع کردیا مگر جب افریقہ میں اس ضائع شدہ اور مضر صحت سکریپ (پلاسٹک )سے بیماریاں پھیلنے لگیں تو افریقی عوام اس کے خلاف ہو گئے اور وہاں کی سماجی تنظیموں نے اس کی درآمد کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا یہ احتجاج اتنے جاندار اور موثر تھے کہ جس پر 1992میں یورپی کمپنیوں اور افریقی ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہو گیا جس کے تحت افریقہ میں اس سکریپ(ویسٹ) پر درآمد پر پابندی لگ گئی۔چنانچہ یورپی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے اس ویسٹ کو (Dump)ڈمپ کرنے کا مسئلہ درپیش ہوا تو انھوں نے جنوبی ایشیاء کا رخ کر لیا اور پھر ان ممالک میں نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت ، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ہر سال لاکھوں ٹن سکریپ پلاسٹک آنا شروع ہو گیا۔1992کے اعداد و شمارکے مطابق میں صرف پاکستان میں ڈیرھ لاکھ ٹن کے قریب سکریپ آیا جس میں دیگر میٹریل کے علاوہ فوڈ کمپنیوں کا سکریپ بھی شامل تھا۔ جب وہ سکریپ مارکیٹ میں فروخت کیلئے آیا تو بد عنوان تاجروں نے اسے خرید کر اس میں مقامی سطح پر تیار کردہ غیر معیاری اشیاء بھر کر بیچنا شروع کر دیا جو سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ ریپرز نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت پابندی کے باوجود لاکھوں ٹن رولوں کی شکل میں درآمد ہو رہا ہے بلکہ سر عام اہم مارکیٹوں میں فروخت ہو رہا ہے۔

پاکستان کے معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ’’ بعض ایسے جرائم ہوتے ہیں جن کے لئے نرم ترین دل رکھنے والے بھی ایک مثالی سزا دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ ان میں زنا با لجبر ، بچوں کے ساتھ زیادتی، بچیوں کا اغوا، اغوا برائے تاوان، بیگناہ لوگوں کا چھوٹے سے تنازع پر قتل شامل ہیں۔ میں اس فہرست میں ایک اور گھناؤنا جرم شامل کرنا چاہتا ہوں اور وہ کھانے ،پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اور جعلی دواؤں کی تیاری اور ان کی فروخت ہے۔ سخت سے سخت ترین سزا بھی ان بھیانک جرائم کرنے والوں کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ یہ انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی، اسی طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس نے کسی ایک انسان کی جان لی گویا اس نے پوری انسانیت کو ہلاک کیا۔

ڈاکٹر قدیر کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ جن طریقوں اور جن چیزوں سے اشیاء میں ملاوٹ کی جاتی ہے اسے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے کہ یہ انسانیت کے مجرم ہمیں کیا کیا کھلا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ادرک کو تیزاب میں ڈبو کر صاف کرنا ، نالوں کا پانی دودھ اور مشروبات میں ملانا ، چمڑے کو رنگنے والے زہریلے رنگوں کوکھانے کی اشیاء میں استعمال کرنا خصوصاً بچوں کی اشیاء، چنے کے چھلکوں کو زہریلے رنگ سے رنگ کر چائے کی پتی میں ملانا ،گاڑیوں کے تیل کو گھی اور کھانے کے تیل میں ملانا اور ان سے پکوڑے اور سموسے تیار کرنا جیسے جرائم ہیں۔ یہ سب کچھ حکومتی عہدیداروں کی آنکھوں کے سامنے بلکہ ان کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ یہ جرائم جاری ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے کیونکہ حکومت اس سلسلے میں کوئی موثر اقدام نہیں اٹھا رہی ہے۔ اس میں عدلیہ کی جانب سے مقدموں کی سماعت میں تاخیر اور سخت سزاؤں کے فقدان نے بھی بڑا رول ادا کیا ہے۔ ابھی ہماری جوانی کے دور میں ہی کوئی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ لوگ خاص طور پر مسلمان اس پست اخلاقی اور کردار کے مرتکب ہو سکتے ہیں اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں۔ ممکن ہے کہ مسجد میں ہمارے ساتھ کھڑا نماز پڑھنے والا انہی لوگوں میں سے ایک ہو’’۔
گذشتہ دنوں سپریم کورٹ میں مرغیوں کی خوراک میں سور کی چربی کی ملاوٹ کا مقدمہ بھی پیش ہوا تھا ۔ جس میں عدالت نے تمام ملاوٹ شدہ خوراک تلف کرنے کا حکم دیا تھا۔ کیس کی سماعت کے دوران مرغیوں کی خوراک درآمد کرنے والی چودہ کمپنیوں کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملاوٹ شدہ خوراک کے ایک سو پچاس کنٹینر کراچی میں پکڑے گئے تھے جن میں سے زیادہ تر کنٹینرز کو ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر ایسی خوراک درآمد کرنا جرم اور قابل سزا اقدام ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ پولٹری فیڈ میں سور کے گوشت کے اجزاء کی ملاوٹ ثابت ہونے پر پولٹری فیڈ درآمد کرنے والی چودہ کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ملاوٹ شدہ اشیاء کو فروخت کرنا ایک بہت بڑا اور ناقابل معافی جرم ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں اشیائے خوراک میں ملاوٹ کرنا ایک سنگین جرم ہے اور اس جرم کی پاداش میں بعض ممالک میں سزائے موت تک دی جاتی ہے مگر ہمارے ملک میں متعدد دیگر شعبوں کی طرح اشیاء میں ملاوٹ، مہنگے داموں فروخت، دو نمبر مال کی سپلائی، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور سٹہ بازی جیسے جرائم فروغ پا رہے ہیں اس پر مستزاد کہ ان جرائم کی روک تھام کے حوالے سے حکومت کی فعالیت کہیں دکھائی نہیں دیتی جس کی بنا پر تمام بازر دو نمبر اور ملاوٹ شدہ اشیاء سے بھرے پڑے ہیں۔ پوری دنیا میں ملاوٹ ، جعلسازی ، مضر صحت اشیاء کی خرید و فروخت کے سخت قوانین موجود ہیں مگر پاکستان میں بین الاقوامی رد کی ہوئی خوراک کی اشیاء خوردونوش اور تاریخ تنسیخ کے بعد والی اشیاء سکریپ کے ذریعے پاکستان میں امپورٹ ہوتی ہیں۔ یہاں لیبل تبدیل کئے جاتے ہیں ، تاریخ تنسیخ کی تاریخ بدل دی جاتی ہے اور مارکیٹ میں کھلے عام فروخت کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک نیوز چینل نے بھی ملاوٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ نشر کی تھی جس میں بتایا گیا تھاکہ بلیوں کو پلانے والا امپورٹڈ جوس ‘‘Whisks’’بازار میں مینگو جوس کے نام سے فروخت کیا جا رہا ہے اور ٹی وی چینل کی رپورٹ کے فورا بعد ڈی سی او کی ہدایت پر ڈی اوفوڈ نے چھاپہ مارا اور دو افراد کو حراست میں لے لیا۔ مگر اسکے بعد کوئی بڑی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی کوئی بڑا امپورٹر پکڑا گیا۔نہ وہ لوگ منظر عام پر لائے گئے جو اس گھناونے کاروبار میں ملوث تھے۔ تعزیرات پاکستان کے باب 14میں اس حوالے سے قانون سازی تو موجود ہے۔ اسی طرح پیور فوڈ آرڈیننس 1960ء میں بھی سزائیں تجویز کی گئی ہیں مگر ان سزاوں کے باوجود جرم ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

میڈیا تمام تر ثبوتوں کے ساتھ، علاقوں کے ناموں کے ساتھ ناقص اشیائے خوردنی کی تیاری کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں مگر پھر بھی موت کے ان سوداگروں کی پکڑ نہیں ہوتی اور ان کا سد باب نہیں کیا جاتا۔ پنجاب میں جعلی دواؤں نے سو افراد کی جان لے لی۔ ان جعلی دواؤں کے لندن میں کیے جانے والے لیبارٹری معائنوں سے پتہ چلا ہے کہ عارضہ قلب کے مریضوں کو دی جانے والی ایک دوائی آسوٹیب جس سے پنجاب میں 100 سے زائد اموات واقع ہوئیں میں ملیریا کش مواد کی بہت زیادہ مقدار پائی گئی ہے۔ دوائی میں پائرمیتھامین محلول کی ملیریا کے مریضوں کے لیے درکار مقدار سے بھی 14 گنا زیادہ مقدار شامل کی گئی تھی۔ کمپنی کے مالکان نے ایک بیان میں بتایا کہ کسی شخص نے ستمبر میں یہ مواد ان کی فیکٹری سے چوری کیا تھا۔ملک بھر کے شہریوں کو 60 فیصد سے زائد ملا?ٹ شدہ خوردنی اشیا کھانے پینے کو مل رہی ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ مختلف سائنس دانوں نے پی سی ایس آئی آر (PCSIR) اور پاکستان سوسائٹی آف دی فوڈ سائنٹسٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے زیراہتمام 23ویں آل پاکستان فوڈ سائنس کانفرنس اور چوتھی فوڈ اینڈ نیوٹریشن ایکسپو میں ڈی جی پی سی ایس آئی آر ڈاکٹر شہزاد عالم نے کہاکہ اس وقت شہریوں کو زیادہ تر کھانے پینے کی اشیا ملاوٹ شدہ مل رہی ہیں اگر یہی طریقہ رہا تو آنے والی نسل کو ہم کیا جواب دیں گے۔ صاف ستھری کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے اس قانون سازی پر عملدرآمد کروانے کی ضرورت صوبوں کی ذمہ داری ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا ملک بچوں کی صحت مندانہ نگہداشت کے حوالے سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔ پاکستانی بچوں میں پیٹ کی بیماریاں بہت عام ہیں۔ جن سے ہر سال ہزاروں بچوں کی اموات بھی ہوتی ہیں۔ پیٹ کی یہ تمام بیماریاں بچوں میں زیادہ تر بغیر ابلا ہوا پانی پینے ، ناقص اور مضر صحت اشیاء کھانے سے ہوتی ہیں۔ میو ہسپتال میں بچوں کی امراض کے ماہر ڈاکٹر فرید کا کہنا ہے کہ لاہور کے سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں میں بھی ساٹھ فیصد مریض بچے ہی ہوتے ہیں اگرچہ ان میں ہر طرح کے امراض میں مبتلا بچے پائے جاتے ہیں مگر پیٹ سے متعلقہ امراض کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے اور اس کی وجہ مضر صحت کھانے کی اشیاء ہیں۔

کھانے پینے کی چیزوں میں مضر صحت اجزا کی ملاوٹ اورغیر معیاری پیکنگ میٹریل کا استعمال عام ہونے کی وجہ سے شاید کوئی گھر ایسا ہو کہ جہاں بچے ان اشیاء کو کھانے سے بیماری کا شکار نہ ہوئے ہوں۔ بچوں کے کھانے کی اشیاء میں جہاں دیگر طریقوں سے ملاوٹ کی جاتی ہے وہاں معروف غیر ملکی کمپنیوں کے مسترد شدہ پیکنگ میٹریل میں بعض جعلساز گھٹیا اور غیر معیاری ٹافیاں ،چاکلیٹ ،بسکٹ ، چپس ، ادویات اور دیگر اشیائے خوردونوش پیک کر کے اور انھیں امپورٹڈ ظاہر کر کے فروخت کر رہے ہیں جس سے بچے پیٹ ،معدہ اور جگر کے امراض کے علاوہ کینسر جیسی موذی بیماری کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔ڈاکٹر فرید کا کہنا ہے کہ مضر صحت ریپرز میں فروخت ہونے والی غیر معیاری چاکلیٹ، بسکٹ، آئس کریم اور دیگر اشیاء کھانے سے سب سے پہلے دانتوں اور مسوڑوں کی بیماریاں ہوتی ہیں بعد ازاں ایسی اشیاء گلے کی خرابی کا باعث بن جاتی ہیں پھر معدہ کی بیماری کا سبب بنتی ہے اور معدہ اور انتڑیوں میں سوزش پیدا کرتی ہے جس سے بعد میں ورم ہو جاتا ہے اور جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے انہوں نے بتایا جب اشیاء کو ویسٹ پلاسٹک جسے یہ کمپنیاں تکنیکی بنیادوں پر مضر صحت سمجھتے ہوئے ضائع کر دیتی ہیں میں پیک کیا جاتا ہے تو اس کے کیمیائی اجزا کھانے کی چیزوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو بعد ازاں کنسیر کا باعث بنتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ خالص خوراک کا نہ صرف بچے کی صحت سے تعلق ہوتا ہے بلکہ تعلیم اور ذہانت سے بھی اس کا بڑا تعلق ہے کیونکہ طب کی تحقیق کے مطابق ملاوٹ شدہ چیزیں کھانے والے بچوں کی ذہانت نارمل سے کم ہوتی ہے۔

یہ پیکنگ میٹریل لاہور میں اخبارات کی فروخت کی سب سے بڑی مارکیٹ پیسہ اخبار کے بالمقابل مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہے جہاں سے نہ صرف لاہور بلکہ دیگر شہروں کے بد نیت تاجر 80سے150روپے کلو کے حساب سے خریدتے ہیں اور اس میں ٹافیاں ،چاکلیٹ،چپس،آئس کریم اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء پیک کر کے انھیں امپورٹڈ ظاہر کر کے فروخت کرتے ہیں جن کو کھانے سے مرد عورتیں اور خصوصاً بچے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو تے ہیں۔ اس میٹریل میں نہ صرف مقامی فوڈ کمپنیوں کا میٹریل ہوتا ہے بلکہ یورپ کی مشہور زمانہ ملٹی نیشنل فوڈکمپنیوں کی پراڈکٹ پارکل،ڈبل کریم،ڈائجسٹوبار چاکلیٹ،ہب نب چاکلیٹ،بن گوٹی بسکٹ،سنکر آئس کریم،ایروبریک وے چاکلیٹ،روکی کریم ون،کٹ کیٹ جیلی اور وش کاش جیلی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کے خالی اور مسترد شدہ پلاسٹک کے لفافے (ریپرز) بھی شامل ہوتے ہیں۔ ملاوٹ کے خلاف ہمارے پاس قوانین بھی موجود ہیں ۔ لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔مرکزی حکومت نے اسے صوبوں کے سپرد کر دیا ہے۔

حکومت پنجاب نے صارفین کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے اور غیر معیاری ، ناقص اشیائے خوردو نوش و دیگر غیر معیاری ، ناقص مصنوعات اور غیر معیاری خدمات یا سروسز کے متعلق شکایات کے ازالہ کے لئے کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005 نا فذ کیا جا چکا ہے۔

صارفین اگر چاہیں تو اس بارے میں شکایت اور قانون کاروائی کر سکتے ہیں۔
۔1۔اگر آپ غیر معیاری اشیائیے خوردونوش دیگر ناقص اشیا یا مصنوعات سے پریشان ہوں مثلاً غیر معیاری مشروبات ، ادویات ، ٹیکسٹائل، ہوزری، الیکٹرانک مصنوعات، کاسمیٹکس وغیرہ وغیرہ
۔2۔اگر کوئی مینو فیکچرر یا تاجر کوئی خطرناک مصنوعات یا اشیا مناسب حفاظتی اقدامات واضح کئے بغیر تیار کر رہا ہو یا جس سے صارف کو نقصان ہو یا نقصان کا اندیشہ ہو۔
۔3۔کہیں پیک شدہ اشیا واضح قیمت یا اندرونی جزئیات ظاہر کئیے بغیر تیار کی جا رہی ہوں یا ظاہر کردہ جزئیات سے چیز مطابقت نہ رکھتی ہو۔
۔4۔اگر کوئی مینو فیکچرر یا تاجر کوئی ایسی چیز تیار کر رہا ہو یا فروخت کر رہا ہو جس کی جزئیات کوالٹی، یا
Date of Expiry , یا ,Date of Manufacturing
سے متعلق صارف کو بوقت فروخت آگاہ کرنا ضروری ہو اور ایسا نہ کیا گیا ہو۔
۔5۔اگر صارف کو خرید کردہ اشیا یا مصنوعات پر فراہم کردہ فارنٹی یا وارنٹی سے متعلق کوئی شکایت ہو۔
۔6۔اگر کوئی تاجر یا دوکاندار خرید کردہ چیز یا اسکی قیمت کی واپسی یا تبدیلی کے حوالے سے صارف کو بوقت فروخت آگاہ نہ کرے۔
۔7۔اگر کوئی تاجر یا دوکاندار ، صارف کو خریداری کی رسید دینے سے انکاری ہو۔
۔8۔کہیں رسید پر فروخت کردہ اشیا کی تفصیل مثلاً متعلقہ چیز کی ساخت ، مقدار ، وزن ، قیمت ، تاریخ اور بیچنے والے دوکاندار کے نام اور پتہ کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔
۔9۔اگر کوئی دوکاندار یا تاجر ہو سیلر یا ریٹیلر فروخت کردہ اشیا یا مصنوعات کی ریٹ لسٹ اپنے بزنس پوائینٹ پر واضح آویزاں نہ کرتا ہو۔
۔10۔صارف یا خریدار کسی غیر سرکاری ادارے مثلاً ہسپتال ، ریسٹورنٹ ، ہوٹل ، پٹرول پمپ، سی این جی سٹیشن، ٹرانسپورٹ کمپنی ، موبائل فون کمپنی، تعلیمی ادارے ، بنک، ٹیلی فون کمپنی ، ٹریول ایجنسی ، ویزا کنسلٹنٹس وغیرہ کی غیر معیاری سروس سے پریشان ہو یا نقصان اٹھا چکا ہو۔
۔11۔صارف یا خریدار سرکاری اداروں مثلاً واپڈا، سوئی گیس، واسا، پی ٹی سی ایل ، ہسپتال ، تعلیمی ادارے، بنک وغیرہ کی غیر معیاری سروس سے متاثر ہو یا نقصان اٹھا چکا ہو۔
۔12۔صارف یا خریدار کسی پروفیشنل شخص مثلاً ڈاکٹر ، انجنئیر ، ٹھیکیدار، وکیل، کنسلٹنٹ ، ٹریول یا ویزا ایجنٹ ، ٹرانسپورٹر وغیرہ کی غیر معیاری سروس سے دوچار ہو یا نقصان اٹھا چکا ہو۔
۔13۔سروس کی نوعیت ایسی ہو کہ سروس دہندہ کو صارف سے معاہدہ کے وقت اپنی صلاحیت ، قابلیت یا سروس فراہم کرنے سے متعلقہ آلات کی کوالٹی سے متعلق صارف کو آگاہ کرنا ضروری ہو اور سروس دہندہ نے ایسا نہ کیا ہو۔
۔14۔مینو فیکچررز تاجر یا سروس دہندہ جھوٹ ، فریب، دھوکہ دہی اور غلط بیانی سے مصنوعات یا اشیا یا سروس کو خریدنے کی ترغیب دینے کے لئے اشتہار بازی کر رہا ہو اور اشتہار دہندہ کئے گئے وعدہ کو پورا نہ کرے یا وعدہ پورا نہ کر سکتا ہو۔
۔15۔ملاوٹ شدہ یا غیر معیاری مصنوعات یا اشیا کے استعمال یا غیر معیاری سروس سے آپ کے جان و مال کو نقصان کا اندیشہ ہو۔

مندرجہ بالا صورتوں میں صارف کنزیومر پروٹیکشن کونسل کے نام بمعہ اپنے حلفیہ بیان بغیر کسی کورٹ فیس اور وکیل کے درخواست دے سکتا ہے۔ اگر صارف اپنے کیس کو عدالت لے جانا چاہتا ہو تو اس کے لئے صارف کو پہلے 14 دن کا نوٹس متعلقہ کمپنی کو دینا ضروری ہو گا۔ اس کے بعد وہ کنزیومر کورٹ رابطہ کر سکتا ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے خاندانی نظام کو بحال کرنا ہوگا، گھر کی خواتین کھانا بہت محبت سے بناتی ہیں، اس لئے گھر کا کھانا کھا یئے اور صحت مند رہیئے ، اس لئے بہتر ہے کہ کچھ باتوں کا خیال کریں، لہسن ادرک تازہ پیسیں، کھانے کو فریز کرنے سے گریز کریں، اتنا پکائیں کہ وہ فوری ختم ہو جائے، مائیکرو ویو کا استعمال اچھا رجحان نہیں، جہاں تک ہو سکے اس سے پرہیز کریں، مائیکرو ویو میں پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا گرم کرنے سے کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مارکیٹ سے ملنے والی تلی ہوئی اشیاء کے لئے استعمال ہونے والا تیل بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے اورمختلف جانوروں کی انتڑیوں ،سینگوں اور نقصان دہ چکنائی سے بنایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ گھر میں بھی تلنے والے تیل کو بار بار استعمال کرنا کینسر کا باعث ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387557 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More