عن ابی ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا
دخل شھر رمضان فتحت ابواب السماء وغلقت ابواب جھنم وسلسلت الشیاطین۔
حل لغات :فتحت: کھول دیئے جاتے ہیں ۔غلقت ۔بند کر دیئے جاتے ہیں ۔سلسلت ۔زنجیر
ڈال دئیے جاتے ہیں ۔
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا! جب ماہِ
رمضان آجاتا ہے ،تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے
بند کر دئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں قید کر دیا جاتا ہے ۔‘‘
تشریح:اس حدیث میں حضور سید دو عالم ﷺ نے ماہِ رمضان کی فضیلت میں ارشاد
فرمایا کہ اسی ماہ میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک روایت
میں ہے :رحمت کے دروازے(اس میں محدثین نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ ) جنت
آسمان کے اُوپر ہے اور جنت مقامِ رحمت بھی ہے ۔اب اس طرح ہوا کہ رحمت کے
دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور خصوصی رحمتیں آسمانوں کے دروازوں سے زمین پر
اتر تی ہیں اور اہل جنت کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اب دنیا میں ماہِ رمضان
آگیا ہے ۔لہٰذا وہ بھی آپ کی اُمت کے لئے دعائیں فرماتے ہیں ، جس طرح
دُوسری حدیث میں ہے کہ رمضان شریف آتا ہے تو عرش کے نیچے جنت کے پتوں پر سے
موٹی آنکھ والی حوروں پر ایک خوشگوار ہوا چلتی ہے ، تو حوریں عرض کرتی ہیں
یا رب اپنے بندوں سے ہمارے خاوند بنا ۔اُن سے ہماری آنکھیں اور ہم سے اُن
کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔(مشکوٰۃ شریف ،بحوالہ بیہقی)
علامہ بدرالدین عینی نے عمدۃ القاری میں فرمایا:’’کہ جہنم کے دروازے بند
ہونے سے مراد یہ ہے کہ بندوں سے گناہ متروک ہو جاتے ہیں ۔جو جہنم میں جانے
کے اسباب ہوتے ہیں اور اس ماہ کی برکت سے گناہوں کی معافی ہو جاتی ہے اور
بندے جہنم سے محفوظ ہو جاتے ہیں اور شیاطین کے قید کرنے سے مراد بھی گناہوں
میں کمی کا ہونا ہے ۔جیسا کہ ماہِ رمضان میں محسوس ہو تا ہے ۔ مساجد آباد
ہو تی ہیں اور مجموعی طور پر گناہوں میں کمی آجاتی ہے اس کے علاوہ محدثین
نے بھی تاویلیں فرمائی ہیں ۔‘‘حضرت مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اﷲ
علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول ہے ۔لکھتے ہیں
:’’ حق یہ ہے کہ ماہِ رمضان میں آسمانوں کے دروازے کھلتے ہیں ،جن سے اﷲ
تعالیٰ کی خاص رحمتیں زمین پر اتر تی ہیں اور جنتوں کے دروازے بھی کھلتے
ہیں ،جس کی وجہ سے حور و غلمان کو خبر ہو جاتی ہے کہ دنیا میں ماہ رمضان
آگیا ہے اور وہ روزہ داروں کے لئے دعاؤں میں مشغول ہو جاتے ہیں اور فرماتے
ہیں ماہِ رمضان میں واقعی دوزخ کے دروازے ہی بند ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے
اس مہینے میں گناہگاروں ، بلکہ کافروں کی قبروں پر بھی دوزخ کی گرمی نہیں
پہنچتی اور حقیقت میں ابلیس مع اپنی ذریت کے قید کر دیا جاتا ہے۔ اس مہینے
میں جو کوئی گناہ کرتاہے وہ اپنے نفس امارہ کی شرارت (جو گیارہ ماہ شیطان
کی سنگت میں خراب ہو تا گیا ۔)سے کرتا ہے ۔‘‘
فرماتے ہیں :’’فقیر کی اس تقریر سے اس حدیث کے متعلق بہت سے اعتراضات رفع
ہو گئے ۔مثلاً یہ کہ جب ابھی جنت میں کوئی جاہی نہیں رہا ۔تو اُس کے دروازے
کھلنے سے کیا فائدہ یا یہ کہ جب دوزخ کے دروازے بند ہو گئے تو ماہ رمضان
میں گرمی کہاں سے ؟ یا یہ کہ جب شیطان بند ہو گیا تو اس مہینہ میں گناہ
کیسے ہو تے ہیں ؟‘‘ ( مرأۃ شرح مشکوٰۃ ،جلد سوم کتاب الصوم ،فضل اول)
ماہِ رمضان :اس مہینہ کا نام رمضان یا تو اس لئے ہے کہ یہ لفظ رمض سے بنا
ہے جس کا معنی گرمی ہے یا گرم بھٹی ہے ۔جب لوگوں نے مہینوں کے نام رکھے ،تو
یہ مہینہ گرمیوں میں واقع ہوا ۔اس لئے کہ اس میں گناہ جلتے ہیں ۔(فتح
الباری )
مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں: ’’چونکہ بھٹی
گندے لوہے کو صاف کرتی ہے اور صاف لوہے کو پرزہ بنا کر قیمتی کر دیتی ہے
اور سونے کو محبوب کے پہننے کے لائق کر دیتی ہے ۔ اسی طرح ماہ رمضان
گناہگاروں کے گناہ معاف کرواتا ہے اور نیکو کاروں کے درجے بڑھاتا ہے اور
ابرار کاقرب الہٰی زیادہ کرتا ہے۔‘‘
حروف رمضان :لفظ رمضان میں پانچ حرف ہیں :ر ، م ،ض، ا، ن۔
ان کا اشارہ رحمت ،محبت ،ضمان، امان ،نور کی طرف ہے ماہِ مذکوہ پانچ
انعامات لے کر آتا ہے ۔اسلئے اس کو رمضان کہا جاتا ہے کہ ۔خیال رہے رمضان
المبارک یہ پانچ نعمتیں لاتا ہے اور اس میں پانچ عبادتوں کا اضافہ ہوتا ہے
۔روزہ ،تراویح، اعتکاف، شب قدر کی عبادات ،کثرت تلاوت قرآن کریم ۔اس ماہ
میں قرآنِ کریم اُتر ا اور اسی ماہ کا نام قرآن کریم میں مذکور ہوا ۔
فائدہ:سبحان اﷲ ! رمضان پاک کا کیسا مبارک اور مقدس مہینہ ہے کہ اس کی آمد
پر آسمان اور رحمت اور جنت کے دروازے ،اُمت مصطفےٰ پر کھل جاتے ہیں اور
دوزخ و جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ،اس پر مزید یہ کہ شیطان دشمن انسان
قید کیا جاتا ہے ،تاکہ وہ بندگانِ خدا کو نیک عمل کرنے سے روک نہ سکے ،اور
وہ ہمہ تن مصروف ہو جائیں ۔یہی وجہ ہوتی ہے کہ رمضان پاک میں گناہوں کا زور
شور کم ہو جاتا ہے ۔حالانکہ رمضان مبارک میں رحمت کا نزول اور عبادت کی
کثرت کا تقاضایہ تھا کہ شیطان اہل ایمان کو بہکانے میں انتہائی کوشش کرتا
اور معاصی کی کثرت ہو جاتی ،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان مبارک میں گناہوں
میں مجموعی حیثیت سے ضرور کمی ہو جاتی ہے ۔بعض ناسمجھ افراد اعتراض کرتے
ہیں کہ جب شیطان بند ہو جاتے ہیں تو بعض لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں ؟ اس
اعتراض کا جواب ہمارے مشائخ عظام نے کئی وجوہ سے دیا ہے ۔
1) جہاں شیطانوں کے قید ہونے کا ذکر ہے ان شیاطین سے سرکش شیطان مراد ہیں
،چنانچہ بعض روایات میں سر کش کی قید موجود ہے ،لہٰذا اگر گناہ غیر سر کش
شیطان کے اثر سے ہوں ،تو حدیث پاک پر کوئی اشکال نہیں ۔
2) اگر حدیث پاک میں سب شیطان خواہ سر کش ہوں یا غیر سر کش مراد ہوں ،تب
بھی کوئی اعتراض نہیں ،کیونکہ شیطان ہر قسم کے بند ہیں ۔مگر گناہوں کے صادر
ہونے کی وجہ اور ہے وہ یہ کہ گیارہ ماہ شیطان انسان کے ساتھ رہتا ہے جس سے
نفس انسانی گناہوں کے ساتھ اس قدر مانوس ہو جاتا ہے کہ خیالات فاسدہ اور
گناہ انسان کی طبیعت ثانیہ بن جاتا ہے ،جس کی وجہ سے گناہوں کا صدور ہوتا
ہے ۔
چند روایات ماہِ رمضان کی فضیلت میں مزید لکھی جاتی ہیں :
جس طرح بعض جگہیں ایسی مبارک ہوتی ہیں جس میں عمل خیر کا اجر و ثوا ب بڑ ھ
جاتا ہے ۔جیسا کہ گھر میں نماز پڑھنے سے مسجد میں پڑھنے کا اجر27نمازوں کے
برابر مسجد نبوی میں پڑھنے کاپچاس ہزار کے برابر اور مسجد حرام میں ایک کا
ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے ،ایسے ہی بعض اوقات ایسے مبارک ہوتے ہیں جس میں
اعمال خیر کا ثواب بڑھ جاتاہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ ’’لیلۃ القدر‘‘
ہزارماہ کی عبادت سے بہتر ہے ،ایسے ہی ماہِ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس
کے متعلق حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا اس میں نفلی عبادت فرض کا درجہ رکھتی
ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ہوتا ہے ۔(مشکوٰۃ شریف)
سبحان اﷲ ! کیا عظمت ہے ماہِ رمضان کی پھر مسجد نبوی یا مسجد حرام میں کوئی
خوش نصیب جائے گا تو اجر زیادہ پائے گا ۔ماہِ رمضان ہر جگہ خود آکر فیوض
برکات عطا کرتا ہے۔ اس میں صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے
اور اس میں محتاجوں اور مساکین کیساتھ خود بخود ہمدردی اور ایثار کا جذبہ
زیادہ ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ یہ ہمدردی کا مہینہ ہے
۔‘‘اور آپ نے فرمایا:’’اس ماہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ۔‘‘
(مشکوٰۃ )
کل قیامت میں ماہِ رمضان ،روزے داروں کی شفاعت کرے گا۔ عرض کرے گا میں نے
اسے کھانے پینے سے روکا ،یا رب کریم! میری شفاعت اس کے حق میں قبول
فرما۔(مشکوٰۃ )
’’زواجر ‘‘ کے حوالہ سے ایک حدیث بیان فرمائی گئی ہے : ’’آسمان سے رمضان کی
ہر رات کو ایک منادی والا طلوعِ تک یہ ندا کرتا ہے ،اے خیر کے طلبگار!تمام
کر اور خوش ہو اور برائی کے چاہنے والے ، رک جا اور عبرت حاصل کر ،کیا کوئی
بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کی بخشش کی جائے کیا کوئی توبہ کرنیوالا ہے کہ
اس کی توبہ قبول کی جائے ۔کیا کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول
کی جائے۔ کیا کوئی سوالی ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے ۔‘‘(زواجر جلد اول
صفحہ161)
عمدۃ القاری شرح بخاری میں حضرت سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت
مذکور ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے
ماہِ رمضان کے روزے فرض فرمائے اور میں نے اس کا قیام مسنون فرمایا۔’’پس جس
نے ایمان اور احتساب (ثواب کے لئے ) کیساتھ روزے رکھے اور اس کا قیام کیا
۔تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا۔ جس طرح اس دن پاک تھا ۔جس دن وہ
اپنی والدہ کے ہاں پیدا ہوا تھا ۔‘‘
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا ہے
کہ آپ ﷺ فرمارہے ہیں کہ رمضان شریف کا چاند طلوع ہو گیا تھا :’’اگر لوگ
رمضان مبارک کی فضیلت کو (کما حقہ) جانتے، تو میری اُمت آرزو کرتی کہ سارا
سال ہی رمضان ہوتا ۔‘‘حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے بحوالہ طبرانی شریف
مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:’’کیا تمہیں خبر نہ دوں کہ فرشتوں میں افضل
حضرت جبریل علیہ السلام ہیں ۔اور (دیگر) انبیاء کرام میں افضل سیدنا آدم
علیہ السلام ،اور دنوں میں جمعۃ المبارک افضل ،اورراتوں میں افضل لیلۃ
القدر اور مہینوں میں افضل ماہِ رمضان اور عورتوں میں افضل مریم بنت عمران
۔‘‘(اوکما قال الی الا ٓخر الحدیث)
اس کی سند میں ایک راوی ضعیف ہے ۔(عینی شرح بخاری ۔)
اس حدیث میں جو سیدنا آدم علیہ السلام کو افضل الانبیاء فرمایا گیا ہے اس
سے مراد آپ ﷺ کے علاوہ انبیاء ہیں ۔کیونکہ آپﷺ کی افضلیت تمام انبیاء اور
تمام مخلوق پر دلائل قطعیہ سے ثابت ہے اور اس پر اجماع اُمت ہے معلوم ہوا
تمام مہنیوں میں سے ماہِ رمضان افضل ہے جس طرح سیدنا یعقوب علیہ السلام کے
بارہ بیٹوں میں سیدنا یوسف علیہ السلام افضل تھے ایسے ہی بارہ مہینوں میں
ماہِ رمضان افضل و اعلیٰ ہے ۔اس مہینے میں گناہگاروں کی عام بخشش ہوتی ہے
اور گویا کہ یہ مہینہ نیکیاں کمانے کا سیزن ہے ۔ مولیٰ تعالیٰ مسلمانوں کو
اس ماہ کی قدر اور احترام کی توفیق بخشے ۔آمین۔
روزہ کی حقیقت :نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد 10شعبان ،سن 2ھ میں رمضان
کے روزے فرض ہوئے عرف شرع میں مسلمان کا بہ نیت عبادت صبح صادق سے غروب
آفتاب تک اپنے کو قصدا کھانے ،پینے اور جماع سے باز رکھنا روزہ ہے ۔عورت کا
حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے ۔رمضان المبارک کا روزہ رکھنے کے ساتھ ہر
روزہ دار پر یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ صرف کھانے پینے اور مباشرت سے
ہی اجتناب نہ کرے ۔بلکہ قول و فعل ،لین دین اور دیگر معاملات میں بھی
پرہیزگاری اختیار کرے ۔جیسا کہ لعلکم تتقون۔ سے ظاہر ہے روزہ کی حالت میں
آدمی ہاتھ پاؤں کو کسی بھی برے کام کے لئے حرکت نہ دے ،گالی ،گلوچ، غیبت
جیسی خرافات زبان پر نہ لائے ،نہ ہی پڑنے دے ۔اس کی آنکھ بھی غیر شرعی کام
کی طرف نہ اٹھے۔بلکہ انسان تقویٰ کا عملی نمونہ بن جائے ۔ اگر رمضان
المبارک کے روزے ان قیود و شرائط کو مد نظر رکھ کر پورے کیے جائیں تو
اختتام رمضان پر تقویٰ و پرہیز گاری کا پیدا ہوجانا لازمی امر ہے ۔
روزہ نہ رکھنے کے شرعی عذر:جب آدمی ایسا بیمار ہو کر روزہ رکھنے سے جان
جانے ،یا مرض کے بڑھنے ،یاد یرپا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھنا
جائز ہے ۔ جب صحت ہو جائے تو قضا کرے ۔ایسا بوڑھا کہ روز بروز کمزور ہو گا
۔نہ اب روزہ رکھنے پر قادر اور نہ بظاہر آئندہ قادر ہو سکے گا ۔ہر روزہ کے
بدلے فدیہ دے یعنی ایک مسکین کو کھانا کھلائے ۔یہ بوڑھا شخص جو فدیہ دیتا
رہے ۔پھر روزہ پر قادر ہو گیا تو فدیہ نفل ہو گا اور روزہ کی قضا لازم ہے
۔جو ایسا مریض یا بوڑھا ہو کہ گرمیوں میں روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو اب افطار
کرے ۔سردیوں میں رکھ لے ۔حاملہ عورت یا دودھ پلانے والی جب انہیں اپنی ذات
یا بچہ کا اندیشہ ہو تو ان کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے ۔ لیکن قضا لازم ہے ۔
مسائل سحری:سحری کھانا سنت ہے اور باعث برکت ،اگر چہ ایک لقمہ ہی کھائے
۔سحری میں تاخیر مستحب ہے ،مگر اتنی نہیں کہ وقت میں شک ہو جائے ۔اگر وقت
میں گنجائش نہ ہو تو بحالت جنابت سحری کھا سکتا ہے ۔ویسے غسلِ جنابت میں
تاخیر نہیں کرنی چاہیے ۔وضو میں کلی ایسی کہ منہ کے ہر پرزہ پر پانی بہہ
جائے اور ناک میں اس طرح پانی لینا جہاں تک نرم بانسہ ہے ۔پانی پہنچ جائے
سنت مؤکدہ ہے اور غسل جنابت میں فرض ہے ۔کلی اور ناک میں پانی نہ لیا تو
غسل ہی نہ ہو گا ۔اس لئے روزہ دار کو غسل فرض میں اس احتیاط سے کلی کرنی
چاہیے کہ منہ کے ہر پرزہ پر پانی بہہ جائے مگر حلق سے نیچے نہ اترے اور ناک
میں پانی اس احتیاط سے لے کہ نرم بانسہ دھل جائے اور پانی حلق میں نہ اترے
،نہ دماغ میں چڑھے ۔
روزہ کی نیت:نیت کا وقت بعدِ غروبِ آفتاب سے ضحویٰ کبریٰ (وقتِ زوال شروع
ہونے ) تک ہے ۔ہر رو زکے لئے نیت زبان سے بہتر ہے اور نیت ضحویٰ کبریٰ سے
پہلے کرے تو روزہ ہو گا۔
نیت:نویت ان اصوم غدا للّٰہ تعالیٰ من فرض رمضان ۔یعنی میں نے نیت کی کہ اس
رمضان کا فرض روزہ اﷲ تعالیٰ کے لئے رکھوں گا۔ اگر نیت دن میں کرے تو یوں
کہے ۔نویت ان اصوم ھٰذا الیوم للّٰہ۔یعنی میں نے آج اس رمضان کا فرض روزہ
اﷲ کے لئے رکھا ۔سحری کرنا بھی نیت ہے جب کہ کھاتے وقت یہ ارادہ ہو کہ روزہ
رکھوں گا۔
روزہ توڑنا گناہ ہے : روزہ رکھ کر بلا عذر شرعی توڑ دینا سخت گناہ ہے ۔ہاں
اگر ایسا بیمار ہو گیا کہ روزہ نہ توڑنے سے جان جانے کا خطرہ ہو یا بیماری
کے بڑھ جانے کا احتمال قوی ہو ۔یا ایسی شدید پیاس لگی ہو کہ مرجانے کا خطرہ
ہو تو ایسی صورت میں روزہ توڑدینا جائز ،بلکہ واجب ہے ۔البتہ صحت ہوجانے پر
قضا لازم ہے ۔
روزہ کے مکروہات:کسی چیز کا بلا عذر چکھنا ،چبانا ، بایں طور کہ حلق سے
نیچے نہ اترے ،جھوٹ ،چغلی ،جواء ، تاش وغیرہ کوئی ناجائز کھیل کھیلنا
،سینما دیکھنا ،منہ میں بہت ساتھو ک جمع کر کے نگل جانا۔ کلی اور ناک میں
پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا یہ تمام امور مکروہاتِ روزہ سے ہیں ۔
ان صورتوں میں روزہ فاسد نہیں ہو گا:بھول کر کھانا پینا ،بلا اختیار گردو
غبار ، دھواں ،مکھی یا مچھر کا حلق میں چلے جانا ،بوقت غسل کان میں پانی کا
پڑجانا ،خود بخود قے آجانا ،خواہ منہ بھر کر ہو ۔دن میں سوتے ہوئے احتلام
ہو جانا، دانتوں میں جو چیز رہ گئی ، چنے کی مقدار سے کم ہو اس کو نگل جانا
، تل دانتوں میں رہ گیا ۔ اس کو نگل لیا ،بیوی کا بوسہ لیا ،چھو ا اور
انزال نہ ہوا ۔ ان سب صورتوں میں روزہ فاسد نہ ہو گا اور یہ باتیں روزہ کو
مکروہ کرتی ہیں۔
روزہ کے مفسدات :کلی کرنے میں پانی حلق سے نیچے اتر گیا ۔ناک میں پانی
ڈالنے میں دماغ تک چڑھ گیا ۔قصداً منہ بھر کھانے ،پت یا خون کی قے ۔منہ بھر
کر قے خود آئی اور چنے برابر یا زیادہ نگل لی ۔چنے برابر یا زیادہ کھانا
دانتوں میں اٹکا تھا نگل گیا ۔ ناک میں دوائی سٹرک لی ،کان میں دوایا تیل
ڈالا ،حقنہ کیا،حقہ ، بیڑی، سگریٹ ،سگاروغیرہ پینا ،پان کھانا اگر چہ پیک
تھوک دے حلق تک نہ جائے ۔ان تمام صورتوں میں روزہ دار ہونا یاد ہے تو روزہ
جاتا رہا اور قضا لازم ہے ۔دانتوں سے خون نکلا اور حلق میں داخل ہو گیا ۔
اگر تھوک غالب ہو تو روزہ فاسد نہ ہوگا اور اگر غالب ہے تو روزہ فاسد ہو
جائے گا ۔قصداً دھواں پہنچایا خواہ وہ کسی چیز کا ہو ۔اگر بتی سلگتی تھی ۔
اس کے دھوئیں کو ناک میں کھینچا منہ میں رنگین ڈورا رکھا، تھوک رنگین ہو
گیا اس کو نگل لیا یا منہ میں نسوار لی ۔ان صورتوں میں روزہ جاتا رہا ، قضا
لازم ہے ۔
مسئلہ :کان میں تیل ٹپکا یا ۔دماغ کی جھلی تک زخم تھا دوالگائی اور دماغ تک
پہنچ گئی ۔حقنہ کیا ۔ناک میں دوا چڑھائی ،یا پتھر ،کنکر ،روئی کاغذ ،گھاس
وغیرہ ایسی چیز کھائی جس سے لوگ گھن کرتے ہیں ۔ یارمضان المبارک میں بلا
نیت روزہ دار کی طرح رہا ،یا صبح کونیت کی تھی ۔یا دن میں زوال سے پیشتر
نیت کی اور نیت کے بعد کھالیا ۔یا روزہ کی نیت کی تھی مگر روزۂ رمضان کی
نیت نہ کی تھی یا اس کے حلق میں بارش کی بوند یا اولہٰ چلا گیا یا بہت سے
آنسو یا پسینہ نکلا تو روزہ جاتا رہا۔
روزہ کا فدیہ :ہر روزہ کے بدلے ہر روز دونوں وقت ایک مسکین کو پیٹ بھر کر
کھانا کھلانا ،یا صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دینا ،روزہ کا فدیہ ہے ۔
روزہ کا کفارہ :باندی یا غلام آزاد کرنا (یہ یہاں کہاں؟) یہ نہیں تو پے
درپے (مسلسل) ساٹھ روزے رکھنا ،اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو
دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ، روزہ کا کفارہ ہے ۔
افطار:افطار میں جلدی سنت و موجب برکت ہے ۔غروب کا غالب گمان ہونے پر افطار
کر لیا جائے ۔مطلع ابر آلود ہونے کی حالت میں جلدی نہ کی جائے ،نماز سے
پہلے افطاری کریں ۔کھجور ،چھوارے ، یہ نہ ہوں تو پانی سے ،ان تینوں سے سنت
ہے ۔کھانے میں مشغول ہو کر نماز میں تاخیر نہ کریں ۔مرد جماعت کھانے کی وجہ
سے نہ چھوڑیں۔ آج کل لوگ اس میں مبتلا ہیں ۔وقت افطار یہ دعا پڑحیں ۔
اللّٰھم لک صمت وبک اٰمنت وعلیک توکلت وعلی رزقک افطرت فاغفرلی ما قدمت وما
اخرت۔
مسائل تراویح:20رکعت تراویح ہر غیر معذو ر ،مرد و عورت کے لئے سنت مؤکدہ ہے
۔مستورات گھر میں پڑھیں اور مردوں کے لئے مسجد میں جماعت سے پڑھنا ،سنت
کفایہ ہے ، نیت سنت تراویح کریں ۔تراویح کا وقت فرض عشاء کے بعد سے صبح تک
ہے ،وتر سے پہلے پڑھیں یاوتر کے بعد ۔
مسئلہ :ہر چار رکعت تراویح کے بعد بقدر ِ چار رکعت بیٹھنا اور تسبیح و
تحلیل یا درود شریف پڑھنا مستحب ہے۔
مسئلہ :تراویح جماعت کے ساتھ گھر پرپڑھی جائیں تو جماعت کا ثواب مل جائے
گا، مگر مسجد کے ثواب سے محروم رہے گا۔
مسئلہ:ایک امام کے پیچھے پوری تراویح پڑھنا افضل ہے ۔
مسئلہ:اگر جماعت فرض میں کسی کو شرکت میسر نہ ہو اور تنہا فرض پڑھے تو اس
کو تراویح جماعت سے پڑھنا جائز ہے ۔
مسئلہ: اگر عشاء کے فرض تنہا پڑھے ،جماعت سے نہیں پڑھے (اگر چہ تراویح
جماعت سے پڑھی ہو) تو وتر تنہا پڑھنے چاہئیں ۔اس صورت میں جماعت سے وتر
پڑھنا مکروہ ہے ،اگر چہ وتر ہو جائیں گے ۔
سخت افسو س ہے کہ بعض مساجد میں تراویح میں نابالغ بچوں کو امام بنایا جاتا
ہے ۔جو نابالغ ہونے کے ساتھ ساتھ مسائل صلوٰۃ سے بھی ناواقف ہوتے ہیں ۔نماز
تراویح سنت مؤکدہ ہے اور نابالغ کی نماز نفل ہے ۔لہٰذا نابالغ لڑکے کے
پیچھے سنت مؤکدہ ادا نہیں ہوتی ۔ |