اﷲ کریم جل مجدہٗ قادرِ مطلق ہے۔ وہ بغیر کسی سبب کے بھی
ہر کام کر سکتا ہے۔ مگر اس کا طریقہ یہی رہا ہے کہ دین کی تبلیغ کے لیے اس
نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کو ذریعہ بنایا۔ پھر انبیاء تک پیغام
پہنچانے کے لیے بھی سید نا جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو واسطہ بنایا۔ پھر
مختلف کتب اور صحائف کو نازل فرمایا جن میں ہدایت درج تھی۔
اس سے آگے انبیاء علہم السلام نے بھی اپنے شاگرد اور صحابی تیار فرمائے جو
مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لیے نکل گئے اور دین کی خدمت کا کام سر انجام
دیا اور اس کے علاوہ تبلیغ کے لیے دیگر ذرائع اور وسائل کو اختیار فرمایا۔
ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم ا نے تبلیغ ِ دین کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع
اختیار فرمائے۔
(۱)۔ سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ آپ ا نے افراد پیدا کیے اور اپنے
غلاموں میں جذبہ ٔ خدمت ِ دین پیدا فرمایا۔
مختلف اطراف میں مختلف صحابہ کرام علیہم الرضوان نے ذمہ داری سنبھالی۔ مکہ
میں حضرت عبداﷲ بن عباس، مدینہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعو د اور مولا علی
وغیرہما ، مصر میں حضرت عمر و بن العاص ، یمن میں حضرت معاذ بن جبل اور
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنم متعین ہوئے۔
(۲)۔ مختلف ممالک کے بادشاہوں کو خطوط لکھے۔
(۳)۔ تالیف القلوب کے لیے غیر مسلموں اور نو مسلموں پر زکوٰۃ کا پیسہ خرچ
فرمایا۔
(۴)۔ مختلف قبائل میں شادیاں فرمائیں تاکہ رشتہ داریاں قائم ہو جانے کے
نتیجے میں دین کی تبلیغ آسان ہو جائے۔
(۵)۔ سب سے پہلے مسجد نبوی اور بعد میں متعدد مساجد تیار کرائیں اور مساجد
تعمیر کرانے کی ترغیب دی۔
(۶)۔ صفہ کے نام سے ایک تربیتی ادارہ قائم فرمایا۔
(۷)۔ مسلمان تاجروں کی مدد سے اسلام کا پیغام مختلف ممالک تک پہنچایا۔
(۸)۔ حتمی کارروائی کے طور پر جہاد فرمایا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂ اقدس کے بعد بھی تبلیغ کا یہ سلسلہ جاری
رہا اور مذکورہ ذرائع استعمال ہوتے رہے بلکہ ان ذرائع میں اضافہ بھی ہوا۔
مثلاً فتوحاتِ اسلامیہ کا سلسلہ خلفاء راشدین کے دور میں بہت وسیع ہو گیا
اور سرکاری محکموں کو منظم کیا گیا۔ ثانیاً مفتوحہ علاقوں میں مزید مبلغین
بھیجے گئے۔ جیسے سیدنا فاروق اعظم صنے کوفہ میں سیدنا عبداﷲ بن مسعود ص کو
بھیجا۔ ثالثاً قرآن کی جمع و تدوین ہوئی۔ رابعاً مختلف صحابہ کرام علم
الرضوان نے اپنے اپنے تعلیمی حلقے قائم فرما لیے اور تعلیم پر اتنی توجہ دی
گئی کہ جب سیدنا مولا علی ص کوفہ میں تشریف لے گئے تو سیدنا عبداﷲ بن مسعود
ص نے چار ہزار شاگردوں کو ساتھ لے کر آپ کا استقبال کیا۔
تابعین اور تبع تابعین کے دور میں احادیث کو جمع کیا گیا ، فتنہ ٔوضعِ حدیث
کا تدارک کیا گیا۔ فقہ کی تدوین ہوئی اورتعلیم پر اتنی توجہ دی گئی کہ ایک
ایک عالم نے ہزاروں شاگردوں کو دین سکھایا اور ایک ایک شاگرد نے ہزاروں
اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔
اس کے علاوہ ہر دور میں تبلیغ کے متعدد ذرائع اختیار کیے جاتے رہے۔ مجموعی
طور پر ان تمام ذرائع کی تعداد اور تفصیل حسب ذیل ہے۔
(۱) اسلامی حکومتیں (۲)جہاد(۳) مدارس کا قیام(۴)۔تبلیغی تنظیمیں(۵) تجارت
(۶)مبلغین کی تیاری اور مختلف علاقوں میں ان کا چلے جانا(۷)۔ مناظرے (۸)مسلمانوں
کا مختلف علاقوں میں شادیاں کرنا (۹)۔مسلمان سیاحوں کا مختلف علاقوں میں
جانا اور مختلف علاقوں کے لوگوں کا اسلامی علاقوں میں سیاحت کے لیے آنا۔
(۱۰)۔تصنیف و تالیف ، تفاسیر و شروح
(۱۱)۔مواعظ وتقاریر (۱۲)۔میڈیا (ریڈیو، ٹی وی، اخبار، جرائد وغیرہ) (۱۳)۔
صوفیاء کا ذکر اذکار اور توجہ باطنی کے ذریعے لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرنا۔
دین کی تبلیغ و دعوت میں سب سے بڑا کردار صوفیاء علیہم الرضوان کا ہے۔
صوفیاء نے بوقت ضرورت تلوار بھی اٹھائی ہے اور گوشہ نشین ہونے کے باوجود
تقریر ، مناظرے اور تردید کو بھی اختیار فرمایا ہے۔ (۱۴)۔دین ِاسلام کی
ترویج اور پھیلاؤ کا ایک اہم ذریعہ غیر اسلامی مذاہب کی اپنی کمزوریاں اور
خرابیاں ہیں۔ یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ مختلف ادیان کے ستائے ہوئے
اور لٹے ہوئے لوگوں کو اگر کہیں پناہ اور سکون میسر آتا ہے تو دامن ِ اسلام
ہی میں میسر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا، امریکہ اور یورپ میں اسلام بغیر
کسی منظم تبلیغ کے تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔
بیرونی فتنے اور ان کی اصلاح
اسلام کی وسیع تعلیمات
اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کو زندگی کے تمام گوشوں میں تعلیم فراہم
کرتا ہے۔ قرآن ، حدیث اور فقہ کی کتابیں اٹھا کر دیکھیے۔ بچے کی پیدائش سے
لے کر موت تک ہر موڑ پر اسلام تعلیمات فراہم کر رہا ہے۔ نظریات اور عبادات
کے علاوہ انفرادی زندگی ، ازدواجی زندگی ، معاشرتی معاملات ، سیاسیات ،
معاشیات حتیٰ کہ اسلام میں سائنس ، ریاضی ، جغرافیہ اور طب کے موضوع پر بھی
مفصل تعلیمات موجود ہیں۔ ہم نے اپنی کتاب ضابطہ حیات میں ان موضوعات پر
کافی تفصیل سے بحث کی ہے۔
چونکہ یہ خوبی دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں۔ لہٰذا دوسرے مذہب کے لوگ
اپنی اس کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لیے ان تعلیمات کو انفرادی ، ذاتی اور نجی
قرار دے کر انہیں غیر ضروری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی اپنا گناہ
چھپانے کی یہ کوشش گناہ سے بھی بدتر ہے۔ عذر ِ گناہ بد تر از گناہ۔
دین کو سیاست سے جدا سمجھنا بھی انہی شکست خوردہ مذاہب کی مجبورانہ پالیسی
ہے۔ جس کے دین نے سیاست کے آداب سکھائے ہی نہیں وہ دین کو سیاست سے جدا نہ
کہے تو اور کیا کہے؟
انسانی سیرت و کردار (Charactor) کو تعمیر کرنے کی تعلیمات بھی اسلام کے
سواء کسی دوسرے مذہب کے پاس نہیں۔ ہمارے نبی کریم ا کا فرمایا ہوا ایک ہی
جملہ دوسرے مذاہب کی ساری تعلیمات پر حاوی ہے۔ آپ ا نے فرمایا جو شخص مجھے
دو جبڑوں کے درمیان والی چیز اور دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز کی ضمانت دے
دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں(بخاری ، مشکوٰۃ صفحہ۴۱۱)۔
ہم دنیا بھر کے دانش مندوں اور مفکروں کو دعوت ِ غور و فکر دیتے ہیں اور
چیلنج دیتے ہیں کہ اس جملہ ٔرسول کی مثال کسی بڑے سے بڑے فلسفی ، ماہرِ
اخلاقیات و تعلیمات کے ہاں دکھا دیں۔ یہ تو ہم نے محض ایک مثالی جملہ پیش
کر دیا ہے ورنہ اگر پوری تعلیمات کا مطالعہ کر لیا جائے تو ایمان دوبالا ہو
جائے۔
دوسرے مذاہب میں جنسی بے راہ روی ، بدکرداری ، شراب نوشی اور لبرل ازم کے
نام پر ہونے والی آوارہ گردی نے نوجوانوں کی صحت کو برباد کر کے رکھ دیا
ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام کے دامن کے سواء کہیں پناہ نہیں۔
جو لوگ سہرے باندھ کر کتیوں سے شادیاں رچاتے ہیں ، جن کے ہاں ننگے رہنا
سہنا اور ننگے عبادت کرنا شیطانی مکتبہ فکر(Devil Church)کے نام سے مشہور
ہو چکا ہے۔ ایسے لوگوں سے خود کسی انسانی رویے کی امید کیسے رکھی جا سکتی
ہے اور یہ لوگ خود اپنی اولادوں سے وفا کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔
جن مذاہب میں کردار (Charactor) ہر کسی کا ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے ، ان
کی عورتیں اپنی نا جائز اولاد کو سڑکوں اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر پھینک
کر چلی جاتی ہیں۔ رشتے ناطے اور مادر پدر کو محض ایک فضول بندھن قرار دیا
جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اولادیں ان کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں۔ پھر
مجبوراً انہیں مار نہیں پیار والی پالیسی اپنے گھروں میں بھی اختیار کرنا
پڑتی ہے اور تعلیمی اداروں میں بھی رائج کرنا پڑتی ہے۔ نام نہاد مسلمان جب
ایسی پالیسیوں کو اسلامی ماحول میں جاری کرتے ہیں تو وہ فٹ نہیں بیٹھتیں۔
پھر مجبوراً اخبارات میں ’’مار نہیں پیار والی پالیسی ناکام‘‘ کی خبریں
شائع کرنا پڑتی ہیں۔
جہاد کی اہمیت
مذکورہ بالا خوبیوں کی بنا پر اسلام ایک خود اعتماد( Self Confident) مذہب
ہے اور یہ کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں۔ اسلام کو یقین ہے کہ اس کے
سواء تمام مذاہب نامکمل اور غیر معیاری ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے بہرحال
اسلام کامیاب ہے اور باقی تمام مذاہب ناکام ہیں۔ اسی لیے اﷲ کریم نے قرآن
شریف میں ارشاد فرمایا ہے کہ ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدیٰ
وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ یعنی وہی اﷲ ہے
جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین ِ حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر
غالب کردے(فتح:۲۸)۔
حق کے اسی غلبے کے حصول کی خاطر اﷲ کے کلمہ کو بلند کرنے کی خاطر اسلام نے
جہاد کی تعلیم دی ہے لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَاءَ یعنی
جہاد اس لیے کرنا چاہیے کہ اﷲ کا کلمہ بلند ہو(بخاری ، مسلم جلد۲ صفحہ۱۳۹)۔
اور چونکہ تمام غلط اور بدکردار لوگ ، انسانیت کے لیے عذاب اور فتنہ ہیں
لہٰذا فتنے کو ختم کر دینا ایسا ہی ہے جیسے سانپ ، بچھو یا پاگل کتے کو مار
دیا جائے۔ فتنہ ختم ہو جائے تو جہاد کی غرض و غایت بھی مکمل ہو جاتی ہے اور
پھر ہم کسی پر تلوار نہیں اٹھاتے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے حَتّٰی لَا تَکُوْنَ
فِتْنَۃٌ یعنی فتنہ ختم ہونے تک جہاد کرتے رہو(انفال:۳۹)۔
اسلامی جہاد میں عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو مارنا منع ہے۔ اس لیے کہ یہ
فتنہ نہیں پھیلا سکتے۔ لیکن اگر عورت کفار کی حکمران ہو تو اسے مارنا جائز
ہے اس لیے کہ اب وہ فتنہ پھیلا رہی ہے۔ کوئی شخص عین میدان ِ جنگ میں بھی
اگر کلمہ پڑھ لے تو اسے گولی مارنے کی اجازت نہیں۔ کسی کو اسلام کی دعوت
اور پیغام پہنچانے سے پہلے بھی اسے مارنے کی اجازت نہیں۔
حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے ایران والوں کے نام خط لکھا تھا جس میں آپ
رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تھا کہ ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں ۔ اگر تم
انکار کرو تو پھر جزیہ ادا کرو اور ہمارے ماتحت ہو کر رہنا قبول کرلو اور
اگر اس سے بھی انکار کرو گے تو پھر سن لو کہ میرے ہمراہ ایسی قوم ہے جنہیں
اﷲ کی راہ میں مرنا اتنا محبوب ہے جتنی اہل ِ ایران کو شراب محبوب ہے(مشکوۃ
صفحہ۳۴۲)۔
اسلامی جہاد سے مکمل طور پر ملتا جلتا حکم آج بھی بائیبل میں موجود ہے۔
بائیبل کی کتاب استثناء باب نمبر ۲۰ میں احکام ِ جنگ کی سرخی قائم کی گئی
ہے اور پھر اس کے تحت لکھا ہے:
لشکر کے سردار اپنے لوگوں کو جنگ کے لیے تیار کریں۔ اور جب تو جنگ کرنے کے
لیے کسی شہر کے نزدیک جائے تو پہلے اس سے صلح کی خواہش کر۔ اگر وہ صلح
منظور کریں اور پھاٹک تیرے لیے کھول دیں تو جتنے لوگ جو اس میں رہتے ہیں وہ
سب تیرے باجگزار ہوں گے اور تیری خدمت کریں گے۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ
کریں۔ بلکہ تجھ سے جنگ شروع کر دیں۔ تب تو اس کا محاصرہ کر۔ اور خدا وند
تیرا خدا اس کو تیرے ہاتھ میں دے گا۔ اور تو سب مردوں کو تلوار کی دھار سے
قتل کر۔ مگر عورتیں اور بچے اور چوپائے اوراس شہر کی سب لوٹ کو اپنے لیے
لے۔ اور اپنے دشمن کی تمام غنیمت کو کھا جا ، جو خداوند تیرے خدا نے تجھے
دی ہے۔ اور اسی طرح تو ان سب شہروں سے کر جو تجھ سے بہت دور ہیں(استثناء
۲۰:۹تا ۱۵)۔
تورات کا یہ طویل اقتباس ذرا غور سے پڑھ لیجیے۔ اور اس کے بعد اس کا موازنہ
حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کے مذکورہ بالا خط کے ساتھ کیجیے جسے انہوں
نے لشکر فارس کے سردار کی طرف لکھاتھا۔
آج تک پوری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی عیسائیوں نے کی ہے۔ دور کی
باتیں چھوڑیے صرف پہلی جنگ ِ عظیم میں تقریباً اڑھائی کروڑ انسان مارے گئے۔
دو کروڑ فوجی زخمی ہوئے۔ ایک کروڑ نے پناہ حاصل
کی اور تیس لاکھ فوجی لاپتہ ہوگئے جنہیں بالآخر مقتول ہی سمجھ لیا گیا۔
دوسری جنگ ِ عظیم میں ساڑھے تین کروڑ انسان قتل ہوئے۔ ہیرو شیما اور
ناگاساکی میں لاکھوں انسانوں کو ایٹم بم کے ذریعے اڑا کر رکھ دیا گیا۔
امریکہ اور ویت نام کی جنگ مین دس لاکھ انسان مارے گئے۔ ۱۸۶۱ء سے ۱۸۶۵ء تک
جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی میں تقریباً ایک کروڑ انسان قتل ہوئے۔ چند
سال قبل امریکہ نے عراق پر مجموعی طور پر دوسری جنگ ِ عظیم سے بھی زیادہ
بارود پھینکا۔
لہٰذا محض زبان سے انسان دوستی کادم بھرنا بغل میں چھری منہ میں رام رام کے
سواء کچھ نہیں۔
جہاد کے انکار کا پس ِ منظر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اﷲ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے محمد ا کی زیارت
کرا اور اس کی شریعت پر عمل کرنے کی توفیق دے (برنباس باب ۹۷ آیت ۱)۔
اﷲ نے یہ دعا قبول فرمائی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی کریم ا کے
روضۂ اقدس پر حاضری دیں گے ، سلام عرض کریں گے اور حضور ا جواب دیں
گے(مستدرکِ حاکم جلد۳ صفحہ ۱۹۷)۔ پھر وہ اسلامی شریعت پر عمل کریں گے اور
مسلمانوں کے امام کے پیچھے نماز پڑھیں گے (بخاری جلد۱ صفحہ۴۹۰ ، مسلم جلد۱
صفحہ۸۷)۔ دجال کو لد کے دروازے پر قتل کریں گے(مسلم جلد۲ صفحہ۴۰۱)۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پائیں گے مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے اور
وہ ہمارے نبی کریم ا کے پاس دفن ہوں گے(مشکوٰۃ صفحہ۵۱۴)۔
پچھلی صدی میں مرزا قادیانی نے اپنے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ شخص
اپنے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام والے کمالات تو نہ دکھا سکا ،نہ ہی سب
لوگ اس پر ایمان لائے اور نہ ہی امن ِ عامہ قائم کر سکا تاکہ جہاد کی ضرورت
ہی باقی نہ رہتی۔ بلکہ الٹاکام بگڑ گیا اور اس کے آتے ہی پہلی جنگ ِعظیم ،
پھر دوسری جنگ ِعظیم ، پھر65کی جنگ ، پھر 71کی جنگ اور اب امریکہ کے ہاتھوں
دنیا بھر میں انسانوں کی تباہی معرضِ وقوع میں آئی جس کی مثال اس کائنات
میں کہیں نہیں ملتی۔ لیکن مرزا قادیانی نے محض تحریری فتوے کے ذریعے جہاد
کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔
یہ ہے وہ اصل سبب جس کی وجہ سے قادیانی جہاد کے منکر ہیں۔ لیکن ہم
قادیانیوں سمیت دنیا بھر کے لوگوں
پر نبی کریم ا کا یہ معجزہ واضح کردینا چاہتے ہیں۔ آپ ا نے فرمایا کہ
’’جہاد قیامت تک سرسبز و شاداب رہے گا ، میرے بعد ایک گروہ مشرق سے نکلے گا
جو کہے گا کہ اﷲ کی راہ میں جہاد بند ہو چکا ہے ، وہ لوگ جہنم کا ایندھن
ہیں۔ حالانکہ اﷲ کی راہ میں ایک دن کا جہاد ہزار غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے
اور پوری دنیا کا صدقہ کر دینے سے بھی بہتر ہے(ابن ِ عساکر ، کنز العمال
جلد۴ صفحہ۳۲۸)۔
غور فرمائیے مدینہ شریف سے سیدھا مشرق میں قادیان واقع ہے۔ اور قادیانی
جہاد کا انکار بھی سرِ عام کر رہے ہیں۔ہم جہاد کے خلاف آواز اٹھانے والے
تمام طبقات کو دعوت ِفکر دیتے ہیں کہ ایک تو ہمارے نبی کریم ا کی اس پیش
گوئی کو پڑھ لینے کے بعد آپ ا کی صداقت اور اسلام کی حقانیت پر ایمان لے
آئیے۔ دوسرے نمبر پر جہاد کا انکار کرنے سے باز آ جائیے۔ اور جہاد کے
منکرین کی اصلیت کو پہچان جائیے۔
جہاد کا طریقہ اور آداب
اسلامی جہاد کے حوالے سے آج کے دور کی ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ جہاد
ہمیشہ اسلامی حکومت کی سربراہی میں ہوا کرتا ہے ( مسلم ،بخاری، مشکوٰۃ
صفحہ۳۱۸)۔
عوام الناس کا براہ ِ راست اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لے کر جہاد کو نکل جانا
بے شمار خطرات اور فسادات کو دعوت دیتا ہے۔ قتل کا بدلہ قتل ، زانی کو
سنگسار کرنا ، اسلامی سزائیں نافذ کرنا اور مرتد کو قتل کرنا سب حکومت کے
کام ہیں۔ حکومت اگر جہاد نہیں کرتی یا اسلامی احکام کونافذ نہیں کرتی تو
حکومت پر زور دیا جانا چاہیے۔ وفود ، خطوط اور پر امن مظاہروں کے ذریعے
پریشر ڈالنا چاہیے۔ پھر بھی حکومت اگر آمادہ نہ ہو تو آپ نے اپنا فرض ادا
کر دیا۔اس کی مثال ایسے ہے جیسے زکوٰۃ فرض ہے مگر غریب آدمی مجبور ہے اس پر
زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کا گناہ نہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ آج کل کی جہادی تنظیموں کو معرض ِ وجود میں لانے والی
خود حکومت ِ وقت تھی۔ اُس وقت ان کی پشت پناہی خود حکومت کرتی تھی۔ بلکہ
بعض تنظیموں کو روس کے خلاف خود امریکہ امداد دیتا رہا۔
ایسی صورت ِ حال میں ان جہادی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینا سراسر نا
انصافی اور مطلب پرستی ہے۔ اب اس کا واحد حل یہی ہے کہ حکومت خود جہاد کی
ذمہ داری سنبھالے اور اسلامی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان ِ عمل میں
اترے ۔ موت تو ایک دن آنی ہے مگر گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن
کی زندگی بہتر ہے۔
منافقانہ طریقۂ واردات
ہر دور میں باطل قوتوں کا یہ وطیرہ اور رویہ رہا ہے کہ صاف لفظوں میں اسلام
کی مخالفت کرنے کی بجائے علماء اور مذہبی طبقے پر کیچڑ اچھالتے رہے ہیں۔
چنانچہ آج بھی امریکہ یہی کہہ رہا ہے کہ ہم اسلام کے مخالف نہیں، مولویوں
کے خلاف ہیں۔ ظاہر ہے اسلام فضامیں لٹکی ہوئی کسی چیز کا نام تو نہیں۔
اسلام علماء و صلحاء کے سینوں میں موجود ہے۔ نبی کریم ا نے فرمایا کہ قیامت
کے قریب علم اٹھ جائے گا اور علم کسی ٹھوس شکل میں اوپر نہیں اٹھے گا بلکہ
علماء کے ختم ہوجانے سے علم ختم ہو جائے گا (مسلم جلد۲ صفحہ۳۴۰ ، بخاری
جلد۱ صفحہ۲۰)۔
قادیانیوں کا طریقہ واردات بھی یہی ہے کہ آیت کا صاف انکار کرنے کی بجائے
یوں کہتے ہیں کہ ہم آیت خاتم النبیین کو مانتے ہیں مگر اس کا وہ معنی نہیں
مانتے جو مولوی کرتے ہیں۔ اس فراڈی طریقہ کے مطابق دنیا کا ہر کافر کہہ
سکتا ہے کہ ہم لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کو مانتے ہیں مگر اس کا وہ معنی
نہیں مانتے جو مولوی کرتے ہیں۔ بلکہ مرزا قادیانی نے تو کہہ بھی دیا تھا کہ
محمد رسول اﷲ میں صاف طور پر انہیں محمد اور رسول کہہ کر پکارا گیا ہے(مرزا
قادیانی کی کتاب ایک غلطی کا ازالہ صفحہ۴)۔ گویا مرزا قادیانی خود محمد
رسول اﷲ بن بیٹھے۔مگر انہیں دکھ ہے کہ مولوی اس معنی کو نہیں مانتے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے بڑے پتے کی بات ارشاد فرمائی ہے۔
آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا یَہْدِمُ الْاِسْلَامَ زَلَّۃُ الْعَالِمِ وَ
جِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْکِتَابِ وَ حُکْمُ الْاَئِمَّۃِ الْمُضِلِّیْنَ
یعنی اسلام کو تین چیزیں تباہ کر کے رکھ دیتی ہیں۔ ۱۔ عالم کا پھسل جانا۔
۲۔منافق کا قرآن پڑھ کر بحث کرنا۔ ۳۔گمراہ حکمرانوں کی حکومت (مشکوۃ
صفحہ۳۷)۔
آج مسلمان کہلانے والے جو لوگ مغرب اور امریکہ کی زبان میں بات کر رہے ہیں
یا ان کی تہذیب اور ثقافت سے مرعوب ہو چکے ہیں۔ ہم انہیں امریکہ کی دلالی
سے توبہ کرنے کی نصیحت کرتے ہیں اور اﷲ کریم کے سامنے جوابدہی کا خوف دلاتے
ہیں۔
یاد رکھیے کہ کسی بھی علمی یا فنی موضوع پر اسی فن کے ماہرین کا مشورہ لائق
ِترجیح اور قابل ِعمل ہوتا ہے۔ کبھی کوئی شخص موچی سے بال نہیں کٹواتا اور
لوہار سے زیور نہیں بنواتا۔ ملاح کو ہل چلانا نہیں آتا اور کسان کو کشتی
رانی نہیں آتی۔میڈیکل کے شعبے میں ہر عضو ِ انسانی کا ایک ماہر ڈاکٹر موجود
ہوتا ہے اور وہ کبھی کسی دوسرے کے کیس کو ہاتھ نہیں ڈالتا۔سیاسیات ،
معاشیات ، ریاضی ، تاریخ اور سائنس وغیرہ کے موضوعات پر جدا جدا ماہرین
پائے جاتے ہیں اور وسیع القلب لوگ طلباء کو اپنے سے بہتر ماہرین کی طرف
ریفر کر دیتے ہیں۔
اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر علماء کرام اسلامی تعلیمات کے ماہرین ہیں۔ علماء
بہتر جانتے ہیں کہ اسلام اور کفر کی تعریف کیا ہے؟ وہ بہتر جانتے ہیں کہ
اسلامی نصاب کو کس طرح مرتب کرنا چاہیے۔ وہ بہتر جانتے ہیں کہ اسلام میں
عورتوں کے حقوق کیا ہیں؟ وہ بہتر جانتے ہیں کہ جہاد فرض ہے یا نہیں۔ جہاد
اور دہشت گردی میں کیا فرق ہے؟
جب مکمل استحقاق کے باوجود علماء آپ کی پی ٹی پریڈ ،فرسودہ ڈسپلن اور سلوٹ
بازی میں مداخلت نہیں کر رہے تو آپ کو کیا حق حاصل ہے کہ شریعت ِ اسلامیہ
میں انگشت زنی کریں جس کی الف بے کا بھی آپ کو علم نہیں۔
میرے عزیز !ماہرین ِاسلام آپ کو بتا رہے ہیں کہ اﷲ ایک ہے۔ حضرت محمد کریم
ا اﷲ کے سچے اور آخری نبی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی وہ تشریح جو علماء کرام
نے کر دی ہے وہی حق ہے۔ جو تشریح امریکہ ، یورپ اور آج کی حکومتوں کے پالتو
ڈاکٹر اور پروفیسر کر رہے ہیں وہ سب باطل ہیں اور بد نیتی پر مبنی ہیں۔
جہاد کا اسلامی تصور درست ہے۔ درس ِنظامی کا نصاب نہایت مناسب اور جچا تلا
نصاب ہے۔ اس میں وقت کی ضرورت کے مطابق اگر کوئی تبدیلی لانا پڑے تو اس کے
ماہرین ہر وقت موجود ہیں۔ جدت پسندی کے نام پر میراتھن ریس کرانا، فحاشی
اور عریانی پھیلانا ظلم ہے۔ تحفظ ِحقوقِ نسواں کے بہانے اسلامی قوانین کو
مسترد کرنا دین پر ظلم کے ساتھ ساتھ خود اپنی جان پر بھی ظلم ہے۔ پتنگ بازی
کی اجازت قوم کے بچوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنا ہے۔
نماز پڑھو ، رمضان کے روزے رکھو ، دولت ہے تو زکوٰۃ ادا کرو ، تو فیق ہے تو
حج کرو ، کثرت سے اﷲ کا ذکر کرو ، اﷲ کے حبیب ا پر کثرت سے درود پڑھو ،
قرآن کی تلاوت کرو، گناہوں پر استغفار کرو، موت کو یاد رکھو، ہاں ہاں تم نے
بالآخر مرجانا ہے۔ آگے جا کر یہی چیزیں کام دیں گی۔
قوم کی بہنو! پردہ ، شرم اور حیاء کو اپنا زیور بنا لو۔ دنیا پر ثابت کر دو
کہ محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا کس سیرت و کردار کے مالک
ہوا کرتے ہیں۔ اﷲ کریم آپ کو ہمت و استقامت عطا فرمائے۔ حالات کا مقابلہ
کرنے اور آڑے وقت میں اسلام سے وفا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یاد رکھیے دین ِ اسلام پر عمل پیرا ہونے والوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد
کہنے والے خود اپنی من پسند ذہنیت کو لوگوں پر ٹھونسنے میں انتہا پسندی اور
دہشت گردی سے کام لے رہے ہیں اور یہ دور انشاء العزیز تاریخ میں دہشت گرد
اور انتہا پسند حکومتوں کے دور کے نام سے یاد کیا جائے گااور اس دہشت گردی
کا مرکز امریکہ مانا جائے گا۔ |