لفظ اور انصاف کی حرمت

بولا ہو ا ہرلفظ مقدس نہیں ہوتا
لکھا ہوا ہر حرف پیمبر کی طرح ہے
جھوٹ اور منافقت ہماری نجی،سماجی،سیاسی،حکومتی اور مذہبی زندگی کا بھی لازمی خاصہ بن چکا ہے۔ہم موقع محل کے مطابق بیان بدلنے کو دانشمندی قرار دیتے ہیںکیونکہ ” پیٹ سے سوچنا“ ہماری عقل کا پیمانہ بن چکا ہے۔ہم بلا جھجک غلط بیانی کرتے ہیں اور بات جھوٹ ثابت ہونے پر بھی ہمیں کوئی ندامت یا پریشانی نہیں ہوتی۔الفاظ کیا ہیں جو ہم بول چال میں ادا کرتے ہیں،جو ہم تحریر میں استعمال کرتے ہیں؟آپ نے کبھی غور کیا کہ لڑکے اور لڑکی کی طرف سے ایک بار ایک دوسرے کے لئے بطور میاں بیوی قبولیت کے الفاظ ادا کرنے سے ان کے درمیان شوہر اور بیوی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے،باہمی تعلقات جائز قرار پاتے ہیں،اولاد جائز و وارث قرار پاتی ہے اور آزادانہ ایجاب و قبول سے ہونے والی شادی سے وراثت کا قانون لاگو ہو جاتا ہے۔دیکھ لیں کہ ایک مرتبہ آزادانہ طور پر ادا کئے الفاظ کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔ہم جو روزمرہ معمول میں چھوٹی بڑی ہر بات میں جھوٹ،غلط بیانی کرتے ہیں اور اس کو زندگی کا ایک لازمی ”انسٹرومنٹ“ تصور کرتے ہیں۔

اللہ تعالی کے آخری بنی حضرت محمد ﷺ کی پہلی خصوصیت جس کا اعتراف کم عمری میں ہی اہل مکہ نے کیا وہ حضرت محمد ﷺ کا صادق و امین ہونا تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے اللہ تعالی کا جو پیغام ہم تک پہنچایا اس میں بھی سچ بولنا لازمی قرار دیا گیا اور کسی کے بھی اسلام لانے پر ابتدائی تعلیمات میں اسے ہر حال میں سچ بولنے کی تلقین کی جاتی رہی۔

ہمارے معاشرے میں سچ بولنے والا مصیبت میں پڑ جاتا ہے۔سچ بولنے والے کے لئے مشکلات و مصائب کے دروازے کھل جاتے ہیں اور آخر کار اسے یہی سبق ملتا ہے کہ ہم جس گرے ہوئے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ”جسم وجاں ،عزت“ بچانے کے لئے اور ”کچھ پانے“ کے لئے جھوٹ ،منافقت نہایت کارگر اور منافع بخش ہے۔اہل مغرب آج سچ کے طاقتور ہتھیار سے پوری طرح لیس ہیں۔ان کے معاشروں میں سچ بولا جاتا ہے،سچ کی ہی توقع کی جاتی ہے، سچ کی تعظیم کی جاتی ہے اور شہری بنیادی فرض کی طرح سچ بولتے ہیں۔امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کے مونیکا سیکنڈل میں امریکی صدر کے معاشقے پر نہیں بلکہ اس معاملے میں صدر کلنٹن کے جھوٹ پر واویلا ہوا جس پر صدر بل کلنٹن کو خصوصی تقریر کرتے ہوئے معافی مانگناپڑی۔

کہتے ہیں کہ ایک طوطا اور مینا کا جوڑا کسی کھنڈرات سے گزرا،وہاں الوﺅں کی بہتات دیکھ کر طوطے نے مینا سے کہا کہ اتنے زیادہ الو دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ یہ جگہ کیوں برباد و ویران ہوئی۔ایک الو جو ان کی باتیں سن رہا تھا،نے انہیں کھانے کی دعوت دی جو انہوں نے شکریئے کا ساتھ قبول کر لی۔کھانے کے بعد طوطا اور مینا نے رخصت چاہی تو الو نے طوطے سے کہا کہ ٹھیک ہے تم جاﺅ۔طوطا مینا کو ساتھ لیکر جانے لگا تو الو نے کہا کہ اس کو کہاں لیکر جا رہے ہو،یہ تو میری بیوی ہے۔طوطا بہت تڑپا ،فریاد کی لیکن الو کا اصرار رہا کہ مینا تو میری بیوی ہے۔طوطا روتا دھوتا وہاں کے بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا۔بادشاہ نے مقدمے کی سماعت کی اور یہ قرار دیا کہ مینا طوطے کی نہیں بلکہ الو کی بیوی ہے۔انصاف کا فیصلہ سن کر طوطا ٹھنڈی آہ بھر کر وہاں سے روانہ ہونے لگا تو الو نے اسے آواز دے کر روکا اور کہا” مینا تمھاری بیوی ہے،اسے اپنے ساتھ لے جاﺅ“۔اس پر طوطا حیران ہوا تو الو نے کہا کہ” تم نے کہا تھا کہ یہ جگہ اس لئے برباد و ویران ہے کیونکہ یہاں الو بستے ہیں ، کسی جگہ کو برباد اور ویران الو نہیں بلکہ ظلم اور ناانصافی پر مبنی فیصلوں سے وہ جگہ برباد اور ویران ہوتی ہے“۔

چند ہفتے قبل اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ مظفر آباد میں ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اس حوالے سے چند وزراءاور سرکاری افسران کے نام بھی سامنے آئے۔اس پر آزاد کشمیر میں عوامی احتجاج شروع ہوا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے اس پر ایک رکنی عدالتی ٹریبونل بنا کر تحقیقات کا اعلان کیا۔خبروں میں متاثرہ بتائی جانے والی لڑکی نے ایسے کسی واقعے سے انکار کیاہے۔ٹریبونل کی رپورٹ وزیر اعظم آزاد کشمیر کو پیش ہوئی جس میں اس واقعہ کو من گھڑت قرار دیا گیا۔اخبارات میں اس متعلق خبریں شائع کر کے پاکستان ، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں آزاد کشمیر کو ”بدنام“ کرنے والے افراد کی نشاندہی اور ان کے خلاف کاروائی ،کئی دوسرے اہم امور کی طرح غیر ضروری،بے تعلق قرار پائی۔اب آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن،آزاد کشمیر کے سینئر سیاستدان سردار سیاب خالد کا اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے پر اصرار ہے۔کیا عیاشی پر مبنی درندانہ زیادتی ہوئی ہے یا اس سٹوری کے ذریعے معصوم و بے گناہ افراد کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟اس بارے میں انصاف خاموش اور بے جواب ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 624981 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More