دل افسردہ ہے تیرے جانے کے بعد

دنیا دارفنا ہے۔دوام صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔یہاں کائنات کی سب سے عظیم ہستی نہ رہی تو کوئی اور کیسے رہ سکتا ہے۔دنیا میں انسان تو آتا ہی جانے کے لیے ہے۔دنیا سے چلے جانا تو حکم خداوندی ٹہرا ہے۔ سب کو جانا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔جن کی زندگی کا مقصدخدمت خلق اور دوسروں کو راحت و آرام پہنچانا ہوتا ہے۔جن کا دن بھی دوسروں کی فکر میں گزرتا ہے اور رات بھی دوسروں کی فکر میں بسر ہوتی ہے۔ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ وقت پہ دنیا سے تو چلے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ کردیتے ہیں۔یہی ضابطہ خداوندی ہے۔
کرو مہربانی تم اہل زمیںپر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

اسی طرح کی ایک شخصیت مولانا یاسر حسن قریشی شہید تھی۔جنہیں شاہ فیصل کالونی میں 21 جون 2013کو نماز جمعہ کے لیے جاتے ہوئے شہید کردیا گیا تھا۔ مولانا یاسر حسن قریشی شہید کی ذات یوں تو بے شمار خوبیوں کا مجموعہ تھی لیکن ان کی ذات کی سب سے نمایاں اور قبل تعریف خوبی ان میں خدمت خلق کا بے انتہا جذبہ ہونا تھی۔خدمت خلق کا جذبہ ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔جو شخص خدمت خلق کرتا ہے یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقرب و معتبر ہوتا ہے۔ مخلوق کی بے لوث خدمت کرنا انسانی اخلاق کا نہایت اعلیٰ جوہر ہے۔جو انسان اللہ تعالیٰ کے بندوں سے پیار کرتا ہے اور اس کی مخلوق کی خدمت کسی غرض اور لالچ کے بغیر کرتا ہے حق تعالیٰ کے نزدیک اس کا مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے، محتاجوں کی ضرورت کو پورا کرنا، بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑے پہنانا، بیمار کے لیے علاج کاانتظام کرنا، یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنا، اور ان کی سرپرستی کرنا فی نفسہ عظیم الشان کار خیر ہے۔ اس بلند مرتبے پر صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو اسلام و ایمان و تقویٰ سے مشرف ہوں۔مولانا یاسر شہید کے دل میں بھی خدمت خلق کاعظیم جذبہ تھا۔مولانا شہید رحمة اللہ نے اپنی زندگی خدمت دین اور خدمت خلق کے لیے وقف کردی تھی۔

مولانا یاسر حسن قریشی نے خدمت خلق کی مختلف صورتوں پر عمل کرنے کے لیے تقریباً سات سال قبل ”الھادی اسلامک فاﺅنڈیشن“ کے نام سے رفاحی، سماجی اور فلاحی خدمات کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت بیواﺅں، یتیموں کی کفالت کی جاتی،ان کو زندگی کے کسی موڑ پر بھی تنہا نہ چھوڑا جاتا ۔مولانا شہید کے قائم کردہ ادارے کے تحت غریب لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ۔ضرورت مندوں کو راشن دیا جاتا، ان کو پہننے کے لیے کپڑے مہیا کیے جاتے اور ان کو کسی قسم کی بھی ضرورت پیش آتی تو ان کی ضرورت پوری کی جاتی۔ اس ادارے کے تحت مستحق لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے کا نظام انتہائی مضبوط و منظم تھا۔علاقے میں مستحق افراد کی ایک لسٹ بنائی جاتی اور مکمل جانچ پڑتال کے بعد صرف مستحق افراد کو ان کا حق پہنچایا جاتا تھا،اس نظام سے کوئی غیر مستحق شخص دھوکا دے کر مال نہیں بٹور سکتا تھا۔ مولانا شہیدرحمة اللہ علیہ کی سربراہی میں قائم کردہ ادارے ”الھادی اسلامک فاﺅنڈیشن“ کے تحت یتیم اور غریب بچیوں کی شادی کا انتظام بھی کیا جاتا تھا۔ کسی بھی مستحق شخص کو اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی تو مولانا سے رابطہ کرتا تو مولانا ا س غریب شخص کی بیٹی کی شادی کا انتظام فرمادیتے تھے ۔اس کے ساتھ مولانا کے قائم کردہ فلاحی ادارے کے تحت ڈسپنسری بھی قائم تھی جس سے کوئی بھی ضرورت مند بیمار دوالے سکتا تھا۔ جب سے یہ ڈسپنسری قائم ہوئی اس وقت سے نجانے کتنے بندگان خدا نے اس ڈسپنسری سے حکم خداوندی کے ساتھ شفا پائی۔ کراچی میں ان کے ادارے کے تحت چھوٹے چھوٹے مدرسے بھی تھے جن کی مکمل کفالت انہی کے ذمے تھی۔مولانا یاسر نے غریب و نادار لوگوں کی خدمت کے لیے الھادی اسلامک فاﺅنڈیشن کی ایک برانچ اندرون سندھ میں بھی قائم کی ہوئی تھی جس کے تحت اندرون سندھ بھی منظم کام ہورہا تھا۔ وہاں بھی ادارے نے بےشمار لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا۔

مولانایاسر کو دین اور اہل دین کے ساتھ انتہائی زیادہ شغف تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ مدارس دینیہ سے پڑھنے والے فضلاءکرام زندگی کے ہر شعبے میں پہنچ کر دین اسلام کا بول بالا کریں۔ اس کے لیے وہ علماءکرام کے لیے عربی، انگلش اور کمپیوٹر سمیت کئی مختلف کورسز کرواتے رہتے تھے۔ دینی کام کے حوالے سے مدارس کے فضلاءکے لیے وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر سیمینارز اور ورک شاپس کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بھی پروگرام منعقد کرنے کا معمول تھا۔ مولاناکا گزشتہ کئی سالوں سے درس قرآن اور درس حدیث دینے کا معمول تھا۔ ہر ہفتے دو مختلف جگہوں پر دو درس دیا کرتے تھے۔اور ہر سال رمضان المبارک میں نماز تراویح کے بعد بھی درس قرآن کا معمول تھا۔
مولانایاسر حسن قریشی شہید نے مکمل تعلیم ملک کی معروف دینی درس گاہ جامعہ فاروقیہ سے حاصل کی۔ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت براکاتہم کے خاص شاگرد شمار ہوتے تھے۔ حضرت شیخ صاحب دامت براکاتہم سے ہی مولانا یاسر کا اصلاحی تعلق تھا۔ آپ اپنے شیخ کے رنگ میں رنگ چکے تھے۔ہرکام اپنے شیخ سے پوچھ پوچھ کر سرانجام دیتے تھے۔آپ کو ہر وقت اپنی آخرت کی فکر اور امت مسلمہ کے حالات کی فکر لگی رہتی تھی۔آپ کے سامنے مولانا یاسر حسن قریشی شہید کے دو خطوط اور مولانا شہید کے شیخ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کی جانب سے آنے والے جوابات پیش کیے جاتے ہیں جن سے آپ کو مولاناشہید کی ذات کی بڑائی کا اندازہ ہوجائے گا۔

پہلا خط مارچ 2013 کاہے جس میں مولانا شہید نے شیخ مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہ کی عافیت کی دعا کرتے ہوئے اپنے کچھ معمولات پر اللہ کا شکر ادا کیا ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے کہ ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ میں مکمل طور پر متبع سنت اور متبع شریعت بن جاﺅں۔ اس کا جواب جو شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ صاحب نے عنایت فرمایا وہ ملاحظہ فرما ئیں۔
”باسمہ الکریم!
مکرمی! زید مجدہم
وعلیکم السلام ورحمة اللہ تعالیٰ و برکاتہ!

الحمد للہ احقر بفضلہ تعالیٰ بعافیت ہے۔ عمر کے تقاضے کے پیش نظر ضعف ضرور لاحق ہے لیکن معمولات کی ادائیگی بحمد اللہ ہوتی رہتی ہے۔آپ نے اپنے جو حالات لکھے ہیں وہ مبارک ہیں، اللہ تعالیٰ استقامت نصیب
فرمائیں، آمین ثم آمین۔

احقر کم زور ہے، وقت آخر بہت قریب آگیا ہے۔ اس لیے دعاﺅں کا بہت محتاج ہے، اللہ تعالیٰ پر زور نہیں لیکن ان کی بھی دور نہیں اس لیے حسن خاتمہ کی درخواست ہے۔
سلیم اللہ خان
جامعہ فاروقیہ، کراچی
18 ربیع الثانی 1434ھ
یکم مارچ 2013ئ“

دوسرا خط اپریل 2013 کا ہے ۔ جس میں مولانا یاسر نے امت مسلمہ اور خصوصی طور پر پاکستان کے حالات پر کڑھن کا اظہار کیا اور اس کے ساتھ ان حالات سے دوچار ہونے کی وجوہات پوچھی ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت شیخ الحدیث صاحب دامت برکاتہم نے جو جواب دیا وہ بھی ملاحظہ ہو۔
”باسمہ تعالیٰ
مکرمی !زید مجدہم
وعلیکم السلام ورحمة اللہ تعالیٰ و برکاتہ!

جن حالات و واقعات سے اہالیان پاکستان اور خود پاکستانی گزر رہے ہیں اس کی وجہ خداوند قدوس کی علی الاعلان مسلسل نافرمانی، احکام شریعت کی توہین و تضحیک اور ظلم و جبر، خیانت و خباثت کا عام ہونا ہے۔جب یہ صورت پیدا ہوتی ہے تو عوام و خواص، مجرمین اور صالحین سب لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ دنیا میں تو یہی ہوتا ہے، البتہ آخرت میں صالحین کی گرفت نہیں ہوتی۔دعا ہے اللہ پاک اپنی بے پایاں رحمت کے صدقے حالات بہتر بنا دیں، آمین ثم آمین۔

آپ بیتی کی پہلی جلد کے لیے کوشش جاری ہے دعا فرمائیں۔
سلیم اللہ خان
23 جمادی الاولیٰ 1434ھ
اپریل 2013ئ
جامعہ فاروقیہ، کراچی“

مولانا یاسر حسن قریشی شہید بہت سے لوگوں کے لیے زندگی کا سہارا تھے۔ان کے جانے سے بے شمار آنکھیں پرنم ہیں۔کئی یتیم ، غریب اور بیوہ عورتیں ان کے جانے سے افسردہ ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔ہمیں بھی ان کی طرح خدمت خلق کا جذبہ عطا فرمائے۔(آمین)

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 713342 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.