فیس بک، وجہ طلاق اور ذریعہ طلاق

ترقی یافتہ مغربی ممالک میں طلاق کے زیادہ تر کیسز کے اندر فیس بک کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ طلاق کے مقدمات لڑنے والے وکلاء کا کہنا ہے کہ فیس بک کے ذریعے دوستوں اور رشتے داروں سے رابطہ رکھنا بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر فیس بک اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بڑھتی ہوئی فلرٹ کی عادت شادہ شدہ جوڑوں میں جدائی کی سب سے بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے۔

امریکن اکیڈمی آف میٹریمونیئل لائرز کے مطابق امریکہ میں 66 فیصد طلاق کا ایک اہم سبب فیس بک ہے۔
 

image


دو سال قبل کیے گئے ایک سروے میں طلاق کے مقدمات نمٹانے والے 81 فیصد وکلاء سے ان کے گزشتہ پانچ برسوں کے تجربات کے بارے میں دریافت کیا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ شادی شدہ جوڑوں میں تلخی کا پیدا ہونے میں فیس بک ایک اہم وجہ ہے۔

ایک ماہر کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ نو ماہ میں تیس کیس لڑے اور ان سب میں فیس بک ملوث تھی، جب کہ ایک آن لائن لا کمپنی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال طلاق کی ہر پانچ درخواستوں میں سے ایک میں فیس بک کا حوالہ دیا گیا ہے۔

ماہرین نے فیس بک کو طلاق کے کیسز میں”ورچوول تھرڈ پارٹی” قرار دیا ہے۔ طلاق کے کیسز لڑنے والے وکیلوں کا کہنا ہے کہ شادی شدہ جوڑے فیس بک کو ایک دوسرے کی جاسوسی کیلئے استعمال کرتے ہیں اور فلرٹ کے شواہد یا غلط فہمی کی بنا پر بھی طلاق کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔

یہ تو وہ معاملات تھے جن میں فیس بک طلاق کا ذریعہ بن کر سامنے آئی تھی، اب آجائیے اس جانب جہاں فیس بک ذریعہ طلاق بن چکی ہے، یعنی فیس بک کے ذریعے ازدواجی جوڑے ایک دوسرے کوطلاق دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ شہرت امریکی گلوکارہ ایمی وائن کے کیس کو حاصل ہوئی تھی، ان کے شوہر بلیک فیلڈر نے ان سے علیحدگی کا اعلان فیس بک پر کیا تھا۔

پچیس سالہ گلوکارہ ایمی وائن کے شوہر فیلڈر کو جب اپنی بیوی کے رگبی کے کھلاڑی جوش بومین کے درمیان تعلقات کا علم ہوا تو فیلڈر نے ایمی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے فیس بک پر اپنے صفحہ اول پر خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کردیا تھا ۔
 

image


لیکن ترقی یافتہ مغربی ممالک میں یہ ممکن نہیں کہ محض فیس بک پر تین مرتبہ طلاق کا لفظ لکھ دیا اور علیحدگی ہوگئی، وہاں اس کے لیے باقاعدہ وکیل کرنا پڑتا ہے اور عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں تب کہیں جاکر یہ مرحلہ طے ہوپاتا ہے۔ یہ سہولت مسلمان ممالک میں ہی حاصل ہے کہ جہاں پہلے ایس ایم ایس پر طلاق دینے کو جائز قرار دینے کا فتویٰ آچکا ہے۔

اسی سال مارچ کے مہینے میں اس حوالے سے متحدہ عرب امارات کے محکمہ اسلامی امور نے فتویٰ بھی جاری کردیا تھا۔ یو اے ای کے عربی اخبار الاتحاد کی رپورٹ کے مطابق یہ فتویٰ ایک شخص کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر سامنے آیا تھا، جس میں اس نے استفسار کیا تھا کہ کیا بیوی کو ایس ایم ایس کے ذریعے طلاق دینا شریعت یا اسلامی قوانین کے مطابق جائز ہے یا نہیں؟

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کسی اسلامی ملک میں ایس ایم ایس کے ذریعے طلاق کو جائز قرار دیا گیا ہو، اگست 2003ء کے دوران ملائشیا میں حکومت کے مشیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر عبدالحمید یہ کہہ چکے ہیں کہ ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق اگر واضح ہو تو بقول ان کے اسلامی قانون کے تحت ایسی طلاق مؤثر ہوگی۔ ڈاکٹر حمید کا کہنا ہے کہ ایس ایم ایس بھی تحریر کی ایک قسم ہے۔

ملائشیا میں بروز جمعرات مورخہ 21 اگست 2003ء کو شرعی عدالت نے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک مرد کی طرف سے ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق کو موثر قرار دیا تھا۔ یہ مقدمہ عزیدہ فضلینہ عبداللطیف کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا اس کے خاوند شمس الدین نے اسے ایس ایم ایس کے ذریعے پیغام بھجوایا تھا کہ اگر اس نے والدین کا گھر نہیں چھوڑا تو اسے طلاق ہو جائے گی۔
 

image

ملائشیا کے ایک اخبار کے مطابق سنگاپور کی اسلامی عدالت بھی 2002ء کے دوران ایک مقدمے میں ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق کو جائز قرار دے چکی تھی۔

گزشتہ چند سالوں سے فیس بک استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹس جہاں اپنے صارفین کے لیےمن چاہے جیون ساتھی کی تلاش معاون ثابت ہو رہی ہیں، وہیں پر سوشل میڈیا کو طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل کے لیے بھی کھلے عام استعمال کیا جانے لگا ہے۔

العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی متعدد عدالتوں کے جج صاحبان نے اعتراف کیا ہے کہ بڑی تعداد میں شوہر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بیویوں کو طلاق دینے لگے ہیں۔

سعودی وزارت قانون کی جانب سے جاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ آٹھ ماہ میں ملک کی مختلف عدالتوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے طلاق دینے کے 2231 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ، بالخصوص سوشل میڈیا، نے لوگوں میں رابطے کے لیے ایک پُل کا کام کیا ہے۔ لوگ اب اس چینل کو شادی اور طلاق دونوں کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ ایک شوہر اپنی بیوی کو ای میل کے ذریعے طلاق دے سکتا ہے۔ ای میل کے ذریعے طلاق کاغذ پر لکھی تحریر ہی کے متبادل سمجھی جاتی ہے۔

فقہاء کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے تمام جدید آلات ٹیلفون، سوشل میڈیا اور ای میل کے ذریعے دی جانے والی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ البتہ ٹیلی فون پر دی جانے والی طلاق میں بیوی کے لیے شوہر کی آواز کا پہچاننا ضروری ہے۔
 
YOU MAY ALSO LIKE:

The study, which will be published in a forthcoming issue of the Journal of Cyberpsychology, Behavior and Social Networking, found that people who use Facebook excessively (interpreted by the researchers as checking it more than hourly) are more likely to "experience Facebook–related conflict with their romantic partners, which then may cause negative relationship outcomes including emotional and physical cheating, breakup and divorce," according to a press release.