از قلم : متکلم اسلام مولانا
محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
”رحمتِ حق بہانہ می جوید“
ساراسال انسان اللہ کریم کی نافرمانی میں گزارتا ہے ، رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات سے دور بھاگتا ہے ۔گناہ پر گناہ کرتا ہے: جھوٹ،
بہتان ، چغلی ، حسد کینہ ، بغض ، عداوت الغرض ہر گناہ کرتا ہے ۔ کچھ ایسے
بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کا دل دکھاتے ہیں ان کی کردار کشی کرتے ہیں اپنی
عاقبت خراب کرتے ہیں۔
ہرشخص اپنی گناہوں کی ان دلدل میں پھنسا ہوا ہوتا ہے ، عصیاں کی تاریک
وادیوں میں بھٹک رہا ہوتا ہے ، ظلم وجور کے ان دیکھے انجام کی طرف رواں
دواں ہوتا ہے فسق وفجور میں بے رحم موجیں اس کو ڈبو دینا چاہتی ہیں کہ
شعبان کی آخری تاریخ میں مغرب کے قریب افق پر خدا کی رحمتوں اور بخششوں کا
اعلان کرتا ہوا چاند نمودار ہوتاہے ۔جسے دیکھ کر اہل اسلام کے لبوں پر بے
ساختہ یہ دعا آجاتی ہے :اللہ اکبر اللھم اھِلہ علینا بالامن والایمان
والسلامۃ والاسلام والتوفیق لِما تحب وترضیٰ ربّنا وربک اللہ
سنن دارمی ،ج 1،حدیث 336
اس ماہ مبارک میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے تاکہ اہل اسلام کے لیے
طاعات کو بجا لانا آسان ہوجائے ۔ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس ماہ
مبارک کے مقتضاء پر اپنی زندگی کے لیل ونہارکو ڈھال لیتے ہیں ۔ صبح سحر
گاہی میں سسکیوں اور آنسووں کی برسات میں اپنی قلبی کیفیات پر خشیت الٰہی
کا رنگ چڑھاتے ہیں ۔صبح کا منظر بہت سہانا ہوتا ہے جب ہماری مائیں بہنیں
سحری کی تیاری کر رہی ہوتی ہیں کوئی آٹا گوندھ رہی ہے تو کوئی سالن پکانے
لگی ہے ، کبھی لسی تیار ہورہی ہے تو کبھی دہی کو برتنوں میں ڈالا جارہا
ہوتا ہے ۔ دستر خوان لگ رہا ہوتا ہے اور اماں جان باربار یہ کہہ کر اٹھانے
کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں کہ سحری کا وقت ختم ہونے کو ہے جلدی اٹھو اور سحری
کر لو ۔دوسری طرف مسجد کے میناروں سے یہ صدا گونج رہی ہوتی ہے : روزے دارو!
اللہ کے پیارو!جنت کے حقدارو!اٹھو روزہ رکھو سحری کا وقت ختم ہونے میں
……دوسری طرف چھوٹی دنیا بھی اٹھی ہوئی ہوتی ہے ، منا قدموں کے بل رینگ کر
دادا ابو کے پاس جا بیٹھا ہے اور گڑیا دودھ پینے میں مصروف ہے ۔بعض لوگ اس
میں سستی کرتے ہیں اور نہار منہ روزہ رکھ لیتے ہیں حالانکہ سحری کھانے کی
فضیلت ہمیں احادیث مبارکہ میں ملتی ہے۔خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اس کا بے حد اہتمام فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے
تھے ۔ مسلم شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِی
السَّحُوْرِ بَرَکَةً.
صحیح مسلم، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تأکيد استحبابہ،رقم : 1095
’’سحری کھایا کرو اس لیے کہ سحری میں برکت ہے۔‘‘
اس کے بعد نماز فجر کی باجماعت ادائیگی ، تلاوت قرآن کریم ذکر اذکار نوافل
صدقہ خیرات اور دیگر نیک کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔مغرب کی اذان کے وقت
افطاری جیسی محبوب سنت کی ادائیگی کا عمل وجود میں آتا ہے ۔
اسی طرح افطاری کرنے کی بھی بہت فضیلت ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :أَحَبَّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ
فِطْرًا.
صحیح ابن حبان، رقم : 1670
’’میرے بندوں میں مجھے زیادہ پیارے وہ ہیں جو)روزہ ( افطار کرنے میں جلدی
کریں۔ “یہاں ایک بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے ۔ ہمارے ہاں دینی امور میں
افراط تفریط پائی جاتی ہے۔ اختتام سحر میں بعض لوگ دس منٹ پہلے یہ اعلان
کرتے ہیں فقہ ……….کے مطابق سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے اور افطاری کے وقت ایک
جدید گمراہ گروہ افطار سے 2 منٹ قبل اپنی مساجد سے اذانیں دے دیتے ہیں ۔
قارئین اچھی طرح نوٹ فرما لیں کہ اہل السنت والجماعت نہ تو افراط کا
شکارہیں اور نہ تفریط سے کام لیتے ہیں بلکہ اختتام سحر اپنے وقت پر کرتےہیں
یعنی جب اہل السنت کی مساجد سے اختتام سحر کا اعلان نہ ہو اس وقت تک سحری
کھانے کی اجازت ہوتی ہے اس طرح ہم افطار میں بھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں
کرتے ۔
اس لیے جب تک اہل السنت والجماعت کی مساجدسےافطارکا اعلان نہ ہو یا اذان کی
آواز نہ آئے اس وقت تک روزہ افطار نہ کریں ۔اس ماہ مبارک کا ایک مسنون اور
محبوب عمل تراویح ہے ۔ پوری دنیا کے اہل السنت والجماعت عرب وعجم کے اہل
اسلام 20 رکعات کے قائل ہیں اس سے کم پڑھ کر مسجدوں سے بھاگنا ناسمجھ لوگوں
کا کام ہے اورغیر سنجیدہ بچگانہ حرکت کہلاتی ہے ۔اس مہینے میں اللہ تعالیٰ
محض اپنے فضل اور احسان سے انسان کی بخشش کے بہانے تلاش کرتا ہے” رحمت حق
بہانہ می جوید “اس لیے انسان کو اس ماہ میں اپنی بخشش کرانے کی بھر پور
کوشش کرنی چاہیے اللہ کریم سے سو فیصد سے بھی زیادہ امید ہے کہ وہ اپنے
محبوب کے طفیل ہمارے گناہوں کو بخش کر ان کے پڑوس میں جنت نصیب فرمائیں گے
۔ لا تقنطوا من رحمۃ اللہ |