عدل و انصاف والا معاشرہ

فرعون نے چار سو سال حکومت کی اور رب ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ یا اللہ یہ رب ہونے کا دعویٰ کرتا رہااور آپ اس پر اسے مہلت دیتے رہے تو اس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ کم بخت اپنی رعایا میں عدل کرتا تھا اس وجہ سے میں اسے مہلت دیتا رہا اور جب اس نے ظلم کیا تو میں نے اسے عبرت کا نشان بنا دیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرعون کو رب ہونے کا دعویٰ کرنے پر نہیں پکڑا ، اپنا مقابلہ کرنے پر نہیں پکڑا، اس وقت پکڑا جب اسے اپنی رعایا پر ظلم کیا ، جب اس نے اسے رب نہ کہنے والوں پرظلم کیا۔رب العالمین نے اپنے معاملے میں فرعون کو درگزر کر دیا لیکن اپنی مخلوق کے مقابلے میں فرعون کو عبرت کا نشان بنا دیا۔چرچل نے دوسری جنگ کے دوران کہا تھا کہ جب تک ہماری عدالتوں میں انصاف اورعدل ہو تا رہے گا ہم جنگ نہیں ہاریں گے۔ حضرت علی ؓ کاارشاد ہے کہ کفر پر معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ناانصافی اور ظلم پر نہیں۔

پاکستان میں موجودہ خراب حالات عدل نہ ہونے کی وجہ سے ہیں ، ہماری عدالتوں میں جج خریدے جاتے ہیں۔ تھانہ اور پٹواری کلچر کی وجہ سے غریب کو انصاف نہیں ملتا، سرکاری دفاتر میں جائز کام کیلئے ناجائز طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں جہاں چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ افسر تک خریدے جاتے ہیں جہاں رنگ ، نسل، لسانیت صوبائیت فقہ اور دولت کی بنیاد پر عدل کیا جاتا ہو ، جہاں امیر اور غریب کیلئے عدل و انصاف کی دوہرا معیار ہو۔ جہاں اپنے حق کیلئے MNA/MPA سے اور سرکاری آفیسر سے تعلق رکھنا ضروری ہو۔ جہاں تعلیمی، معاشرتی اقتصادی ناانصافی ہو تو کیا وہاں اپنی مخلوق پر ظلم برداشت کر لیا جائے گا، یقیناً نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں انسان کو 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں وہ تو حقوق اللہ معاف کرنے والا ہے، کیا وہ رب انسان کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ یقین مانیئے وہ رب بہت رحیم ہے اور کی رحیمی بہت بڑی ہے اس سے پہلے کئی حکمران عبرت کا نشان بنا دئے گئے۔ انہیں ہوش میں آنا ہوگا کیونکہ اقتدار دائمی نہیں ہوتا ۔ صدام، قذافی ، حسنی مبارک اور مشرف کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ بہت سے عرب ممالک ہوش میں آچکے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرناباقی ہے۔ جی گو پرانے نے کیا خوب کہا تھا " جب ظلم اور ناانصافی قانون بن جائے تو اس کے خلاف مزاحمت فرعون بن جاتی ہے"

1947 ءسے تا حال ایک بھی ایسا فیصلہ ہوا ہو جس میں ہماری اشرافیہ و عدالتوں نے انصاف کیا ہو؟لیکن وہ رب ہے کہ ہمیں مہلت دیتاجا رہا ہے اور ہم ہیں کہ خواب خرگوش کا مزہ لئے جا رہے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو سنبھلنا ہوگا بہت ہو چکا ظلم خلق خدا پر اس سے پہلے عوام ہوش میں آئے اپنے حقوق کے اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ تخت اچھالا جائے ۔ عدل و انصاف کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی ۔ قانون کی بالا دستی یقینی بنانا ہوگی۔ عوام کو یکساں نظام تعلیم، اقتصادی ترقی کے مواقع اور بنیادی سہولتیں دینا ہونگی۔وہ معاشرہ قائم کرنا ہوگا جس میں دریائے فرات کے کنارے بھوک۔۔ والے کتے کو ذمہ داری بھی حاکمِ وقت پر ہو۔اسی طرح ارشاد نبوی بھی ہے کہ انصاف کا ایک لمحہ ستر (70) سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

Muhammad Waseem
About the Author: Muhammad Waseem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.