تبدیلی آوے ہی آوے

صحافیوں پر خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں ڈاکٹروں کی تشدد انہیں حبس بے جا میں رکھنے کے دوران اس واقعے کی مذمت کرنے کے بجائے اسے یکطرفہ قرار دینے کے صوبائی حکومت کے ترجمان کے بیان نے بزرگوں سے سننے والی اس مثل کی تصدیق کردی ہے جس کے پشتو زبان میں معنی تو بہت ہیں لیکن آسان ترجمہ یہی ہے کہ بھوکے ننگے کو اگر مال و دولت یا کوئی عہدہ مقام مل جائے تو پھر اس کی دیدوں کا پانی مر جاتا ہے اور وہ بھوکا ہی رہتا ہے کیونکہ اس کی حرص مکمل بڑھتی رہتی ہے اور اگر کوئی مالدار آدمی وقت کے تھپیڑوں کی وجہ سے بھوکا بھی بن جائے تو اس میں انا خودداری اور شرم ہوتی ہے عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے -صحافیوں پر تشدد کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے کوئی ایکشن تو نہیں لیا البتہ بہت سارے سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں نے کھلے اور دبے لہجے میں کہا کہ تبدیلی کے دعویداروںکو انتخابات میں ایک سیٹ ملنا بھی مشکل تھا لیکن یہ میڈیا کی وجہ سے عوام پر مسلط ہوئے اور جس بیٹ کی سپورٹ میڈیا کرتی رہی ہے اگر اسی بیٹ سے اب صحافیوں کی پٹائی بھی ہو جائے تو صحافیوں کو آواز نہیں نکالنا چاہئیے- ان کی بات میں حقیقت بھی ہے لیکن اشتہار اور پیسے کیساتھ ڈنڈا ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے بہت سارے تیس مار خان آنکھیں بند کرلیتے ہیں اب اس میں غریب صحافی کرے تو کیا کرے یہ ٹھیک ہے کہ پاشا کے زیر سایہ پلنے والی پارٹی نے خیبر پختونخوار میں حکومت تو حاصل کرلی ہے او بقول ان کی تبدیلی آوے ہی آوے لیکن یہ تبدیلی جو ان لوگوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد شروع کی ہے کچھ اس طرح ہے کہ سابقہ دور میں اگر صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہوتا تھا تو صرف ایک روڈ سیکورٹی کے نام پر بند کیا جاتا اور صوبے کے کمی کمینوں جو کہ مسافر گاڑیوں رکشوں یا موٹر سائیکلوں پرجاتے تو انہیں کچھ سہولت ہوتی لیکن تبدیلی کے دعویداروں نے اب تودو روڈ بند کرنا شروع کردئیے ہیں کیونکہ انہیں بھی موت سے ڈر لگتا ہے اور یہ بقول ایک وزیر کے کہ سیکورٹی رسک ہے -

یہی موت کا ڈر ہی ہے کہ اب تبدیلی کے دعویدار اپنے دفاتر سے نکلنے کو بھی تیار ہی نہیں پہلے اگر خیبر پختونخوار میں کہیں پر دھماکہ ہوتا تو کم از کم شرم رکھنے والے میاں افتخار اور مرحوم بشیر احمد بلور جوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھماکے والی جگہ پر پہنچ جاتے یا پھر ہسپتال جانے کی فوری کوشش ہوتی زخمیوں کی عیادت کرے ڈاکٹروں کو مریضوں کو سہولیات دینے کے احکامات جاری کرتے اورواقعے کی مذمت بھی کرتے کبھی کبھار انکی کوریج کرتے ہوئے صحافیوں کو ڈر بھی لگا رہتا کہ خدانخواستہ ان کی وجہ سے وہ دھماکے یا خودکش حملے کی زد میں نہ آجائے کیونکہ انہیں متعد د مرتبہ یہ کہا گیا کہ ہسپتال یا دھماکے والی جگہ پر جانا سیکورٹی رسک ہے لیکن ان دونوں کی آمد سے کم از کم دھماکے میں متاثر ہونے والوں کو دلی سکون تو مل جاتاکہ کوئی ان کا پوچھنے تو آیا ہے ایک بات جو کہ پختون معاشرے میں خاص طور پر یاد رکھی جاتی ہے کہ اگر کوئی کسی کے خوشی میں شامل نہیںہوتاتو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر کوئی کسی کے غم میں شریک نہ ہو تو اسے انتہائی درجے کا برا سمجھا جاتا ہے اپنی زمین پر اپنے اختیار والے بھی اتنے اچھے نہیں تھے لیکن ان میں شرم نام کی کوئی چیز تھی اب ان کے جانے کے بعد تبدیلی اتنی آئی ہے کہ اب اگر دھماکہ ہوتا ہے تو پہلے اسمبلی میں یہ بیان سننے کو ملتا ہے کہ کہ دھماکہ ہوا تو کونسی قیامت آگئی یعنی جن کے پیارے دھماکے میں متاثر ہو جائے ان کیلئے تو قیامت ہے لیکن ان ممبران کیلئے قیامت اس لئے نہیں کہ ان کے اپنے تو کوئی نشانہ نہیں بنا -یہ تبدیلی کے دعویداروں کے اوقات ہے اب تو نیا سلسلہ شروع ہوگیا کہ دھماک کے فوری بعد صوبائی حکومت کے کسی وزیر کے ہسپتال آنے اور مریضوں کی عیادت کے بجائے خاتون ہسپتال آتی ہے اورپھر صحافیوں کو برملا یہ کہتی ہے کہ انہیں صوبائی وزیر نے ہدایت کردی ہے کہ جو کہ شائد اسلام آباد میں کسی کام کیلئے گئے ہیں اسی وجہ سے وہ زخمیوں کی عیادت کیلئے آئی ہے جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا صرف ایک وزیر ہے کوئی اور نہیں جو مریضوں کی عیادت کیلئے آئے تو پھر اس خاتون کا جواب آتا ہے کہ صوبائی حکومت کے لوگوں کے اور بھی کام ہیں اور چونکہ یہ حادثہ ہوا ہے اس لئے وہ نہیں آسکتے یعنی صوبائی حکومت کے ترجمان کے بھی ترجمان ہیںاور یہ سب کچھ آن ریکارڈ ہے -

ہمیں تو تبدیلی کے خواب دکھانے والوں سے اتنی امید نہیں تھی لیکن پھر بھی مزے کی بات کہ اتنے دھماکو ں کے بعد بھی کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ ان واقعات کی کم از کم مذمت تو کرے ڈرون کیلئے وزیرستان تک ڈرامہ کرنے والے اب اسے وفاق کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں یعنی ان کے بس میں کچھ بھی نہیں-حال تو یہ ہے کہ اتنی جوانمردی تبدیلی کے دعویداروں میں نہیں کہ پولیس اہلکاروں کی میتوں پر جنازوں میں شرکت کیلئے کوئی جائے ہمیں پولیس کی کارکردگی ان کے عوام دشمن روئیے پر لاکھ تحفظات ہیں لیکن اگر کوئی پولیس اہلکار دوران ڈیوٹی فائرنگ کانشانہ بن کر جاں بحق ہو جائے تو کیا ان کا مورال بنانے کیلئے ان پولیس اہلکاروں کے پیچھے کھڑے ہونا حکومتی عہدیداروں کی ذمہ داری نہیں کم از کم اس معاملے میں سابقہ حکومت میں شرم و حیا رکھنے والے کچھ تو لوگ موجود تھے پہلے بھی اتنے شریف نہیں تھے لیکن بقول ہمارے ایک ساتھی کے کہ ان لوگوں کے دیدوں کا پانی ختم نہیں ہوا تھا جبکہ نئے آنیوالے تبدیلی تو پتہ نہیں کب لائے -ہاں یہ تبدیلی یہ اپنے ساتھ لیکر آئے ہیں کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبے میں صوبائی کابینہ پندرہ وزراء پر مشتمل ہونی چاہئیے تاہم تبدیلی والے اتنی تبدیلی لیکر آگئے ہیں کہ اپنے بندوں کو خوش کرنے کیلئے دس اضافی مشیر بھی بھرتی کردئیے گئے ہیں جن کا خرچہ عوام سے نکالا جائے گا یعنی صوبے کے کمی کمین اپنے بچوں کیلئے کچھ کمائے یا نہ کمائے تبدیلی کے دعویداروں کیلئے اتنا کچھ ٹیکس کی مد میں دیں کہ مشیر بھی وزراء کی طرح گاڑیوں میں پھریں آئین کی رٹ لگانے والے خود ہی آئین کا مذاق اڑائیں تو پھر کیا رہ جاتا ہے لیکن اب ہم کریں تو کیاکرے کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے دفتر کے چپڑاسی کو اس بات پر ذلیل کرے کہ دفتر میں آنیوالے ہر شخص کیلئے چائے لیکر نہ آئے اور اگر چپڑاسی نے دوبارہ ایسا کیا تو اس کی تنخواہ سے پیسے کاٹے جائینگے اگر ایسے لوگ وزارت کی کرسی پر بیٹھ جائے تو پھر ایسی ہی تبدیلی آسکتی ہے جو آج کل ہم خیبر پختونخوار میں دیکھ رہے ہیں ہم یہاں پر خیبر پختونخوار کے عوام سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے یہی کہہ سکتے ہیں کہ صبر کرو ابھی تو آغاز ہے تبدیلی آوے ہی آوے -
 
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497751 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More