خوشی،راحت،سکون

ایک عام انسان ہو یاخاص ،کوئی مڈل کلاس یا اپر کلاس،کوئی مزدور ہویا باس کوئی کنجوس یا سخی ہو،محنت کش ہو یا بادشاہ حتیٰ کہ ہر انسان تاحیات کسی نہ کسی صورت میں سکون قلب وراحت کی تلاش میں رہتا ہے اسے یہ خوشی مل پائی ہے یا نہیں وہ اس جدوجہد میں کس حد تک کامیاب رہا یہ اور بات ہے لیکن ہر انسان اپنی زندگی دانستہ یا نا دانستہ اسی ایک مقصد کی خاطر گزار دیتا ہے اور اپنے اس مقصد کے حصول کی خاطر انسان کیا کیا جتن کرتا ہے کن راستوں پہ چل نکلتا ہے یہ بھی ایک طویل بحث ہے ۔کچھ لوگ تخت وتاج و حکمرانی کو سکون قلب کا زریعہ سمجھتے ہیں تو کچھ دولت و شہرت و پر آسائیش زندگی کو ۔۔۔کچھ لوگ اپنی بھوک قربان کر کہ دوسروں کو کھلانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور کچھ دوسروں کا نوالہ چھین کر دف بجاتے ہیں ۔۔۔کچھ لوگ مخلوق خدا کو غلام بنا کر سمجھتے ہیں انہیں سکون ملیگا تو کچھ اپنے آپ کو دوسروں کے چہروں پر ایک مسکان دیکھنے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔۔۔بد قسمتی سے ایسے لوگ اب نایاب ہیں ۔۔۔محراب و ممبر ہو یا مصند اقتدار !!!دنیا بھر کی دولت ہاتھ میں ہو مگر سکون قلب ،خوشی و راحت جیسی کیفیات پر اختیار صرف خدائے پاک کو ہے اور بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اس گوہر نایاب سے نوازہ گیا ہو۔

غور کیا جائے تو دنیا میں لاکھوں لوگ ہیں جو دنیا بھر کی دولت پر سانپ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھے ہیں جو دنیا کی ہر آسائش کو خرید سکتے ہیں لیکن وہ سو نہیں سکتے انکے نصیب میں پر سکون نیند نہیں اور انہیں دواؤں کا سہارہ لینا پڑھتا ہے ۔ایسے بھی لاکھوں ہیں جن کے دستر خواں پر سینکڑوں قسم کے کھانے موجود ہوتے ہیں اور وہ انہین چھو تو سکتے ہیں مگر کھا نہیں سکتے ’’پرہیز‘‘ ہے اور ایسے بھی ہزاروں ہیں جو دنیا کی کسی بھی شے کو خریدنے پر قادر ہیں لیکن دلی سکون نہیں ۔۔وہ مطمعین نہیں۔۔انہیں راحت نہیں اور وہ خش نہیں۔۔۔کیوں،،؟کیا وہ کبھی سوچتے ہونگے کہ ایسا کیوں ہے،،؟ نہیں اگر اس نوح کے سب لوگ ایسا سوچنے لگیں تو دنیا جنت بن جائے اور چونکہ جنت تو اﷲ رب العزت نے قائم کر رکھی ہے اور یہ دنیا ہے ۔

دیار غیر میں آباد لوگوں کو آئے روز ہزارہا مسائل کا سامنا رہتا ہے اور پردیس بذات خود ایک سنگین مسئلہ ہے جوہر وقت انسان کے اعصاب کو جکڑے رکھتا ہے انہی مسائل سے دوچار’’ احمد‘‘ کمپنی کے حالات اور روز گار کی وجہ سے پریشان’’ابو ظبیی‘‘کے ایک صحراء سے چھ روز کام کرنے کے بعد شہر جارہا تھا راستے میں اسے گھر ’’ ملک ‘‘سے ایک فون آیا جس نے اسکی پریشانی میں مذید اضافہ کیا اور اسی پریشانی کے عالم میں وہ شہر کے ایک ٹریفک سگنل پر پہنچا سرخ بتی جل رہی تھی گاڑیاں کھڑی تھیں اور اسے بریک کا دھیان نہ رہا اور آگے کھڑی ایک گاڑی کو ٹکر مار دی ۔پولیس آئی اسکی غلطی تھی فائن بھی ہوا اور رپورٹ بننے میں ایک گھنٹہ لگ گیا ۔وہاں سے جان چھوٹی اور گھر کے قریب گاڑی پارک کر کے اندر چلا گیا۔گھر پہنچے تو دروازے میں بجلی کے بل کو منتظر پایا۔۔۔دیکھا تو عام مہینوں سے ڈبل ہے رات انگڑائیاں لیتے جاگ کر گزاری اور صبح ہوئی ۔۔۔مختلف دفاتر میں جاب کی تلاش کیلئے نکلے اور جب گاڑی کے قریب پہنچے دیکھا کہ اس کے وائپر پر ایک پیپر رکھا ہے ۔۔۔یہ تو پارکنگ فائن ہے ۵۰۰ درہم ۔۔۔جو صرف پانچ منٹ تاخیر سے آنے پر ہوا ۔۔۔اف خدایا ۔۔۔سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے ؟وہاں سے اٹھا تو نیوز پیپر آفس جانیکا ارادہ کیا وہاں پہنچا تو پتہ چلا انہوں نے لوکیشن بدل دی ہے متعلقہ جگہ پر پہنچا تو گاڑیوں کا بے پناہ ہجوم تھا پارکنگ کیلئے جگہ نہیں تھی تو دو گھنٹے عمارت کے چکر لگانے کے بعد جب پارکنگ ملی تو اندر جاسکے ۔وہاں گئے تو آفس ٹائم ختم ہو چکا تھا ۔۔۔جناب یہ شام چار بجے کے بعد کھلے گا۔تب’’ احمد‘‘ وہاں سے بوجھل قدموں واپس لوٹا گھرآیا اور فیصلہ کیا کہ بعد میں پاپیدل جائیگا۔

پھر شام کو دوبارہ آفس آئے تو پتہ چلا کہ لینچ بریک سے پہلے ہی ایک آدمی کو سلکٹ کر دیا گیا اگر آپ پہلے پہنچ جاتے تو یہ جاب آپکو مل جاتی اور اس طرح اسکی ساری کوشش و محنت لاحاصل رہی اور جمعرات وجمعہ گزر گئے اور وہ جب لوٹ کر آرہا تھا تو اسکی حالت یوں تھی کہ اردگرد آگے پیچھے کیا ہو رہا ہے؟ دنیا کیا کر رہی ہے؟ شہر ہے گاڑیاں ہیں خوبصورت عمارتیں ہیں لوگ ہیں ہجوم ہے اسے کچھ خبر نہیں وہ ان تمام سے بیگانہ آہستہ آہستہ اپنے گھر کی جانب بڑھ رہا تھا اور اسکے زہین میں اپنے مسائل پر مبنی کئی فلمیں چل رہی تھیں دیکھنے والوں کو وہ ایک چلتا پھرتا خوش باش نوجوان لگتا رہاہو گا مگر اسکے اندر کیا ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی اسکی کیا کیفیت ہے کسی کو نہ غرض ہے نہ پتہ ۔اتنے میں وہ قریب والے ٹریفک سگنل پرپہنچ گیا جہاں پیڈسٹرل سرخ بتی جل رہی تھی اور اسکے آگے ایک ادھیڑعمر خاتون کھڑی تھی ۔اپنے مسائل سے تھوڑی سی مہلت ملی کہ اس کی نظر اس خاتون پر پڑھی جو چند کاٹون اور سامان بار بار اٹھاتی ہے کہ وہ گر جاتا ہے کبھی ایک ہاتھ سے کبھی دوسرے ہاتھ سے کہ نا جانے اسکے من میں کیا سوجھی کہ وہ نادانستہ آگے بڑھا اسکا آدھا سامان اٹھایا اور سڑک پار پہنچا دیا ۔جب وہ سامان نیچے زمین پر رکھ رہا تھا کہ اس خاتوں پرنظر پڑھی جو اسکا شکریہ ادا کر رہی تھی اسنے دیکھا ایک حقیقی خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی ۔بس وہ لمحہ ۔۔۔وہ کیفیت ۔۔۔ایسا لمحہ کہ جسے اس نے محسوس کیا اور اسے وہ خوشی ملی کہ وہ سال بھر کے تمام مصائب پریشانیاں ایک دم بھول گیا اور اپنے اندرحقیقی مسرت، خوشی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب قوت محسوس کی۔۔۔ وہ واقعی خوش تھا اور اسے لگا کہ جیسے اسکی تمام پریشانیوں و مصائب کی تپش پر جیسے اوس پڑھ گئی ہو۔چند لمحے پہلے اسکی جو کیفیت تھی یکسر بدل گئی ۔گھر پہنچا پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اس رات جی بھر کے ایسے سویا جیسے پہلے کبھی نہ سویا تھا۔۔ ۔یہ ایک حقیقی واقع ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ لوگو آپ جس سکون و راحت کی خاطر دوسروں کا حق چھین لیتے ہو ان کے ہاتھ سے کھانا چھین لیتے ہو ان سے پیار چھین لیتے ہو ان سے رشتے چھین لیتے ہو انکی خوشیاں چھین کر انہیں دکھوں کے دلدل میں دھکیل دیتے ہو تمیں زرہ سا موقع ملے تو آسمان چھونے کی دھن میں انسانیت کو پاؤں تلے مسل دیتے ہو تمیں موقع ملے تو دنیا بھر کو اپنی جیب میں رکھنے کی سعی لاحاصل کرتے ہو لیکن ایسا کرتے ہوئے تم بھول جاتے ہو کہ تم بھی کسی کی تخلیق ہو اور وہ تمیں اور تماری کارستانیوں کو دیکھ رہا ہے اور بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے اگر تم سکون قلب و راحت و مسرت کے متمنی ہو توتمیں اتنی جفا اتنی مشقت اٹھانے کی ہر گز ضرورت نہیں وہ تمیں اس سے مالا مال کر دیگا تم فقط اسکے پیدا کئے انسان کو ایک لمحہ بھر کی خوشی دینے کی کوشش کروبس لمحہ بھر۔۔۔تمیں تمہارا انعام مل جائیگا جس کے تم طلبگار ہو۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 76427 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.