دل کی بات پیاروں تک پہنچانا ہر
شخص کی خواہش ہوتی ہے۔پیاروں سے دوردیارِ غیر میں رہنے والا ہر شخص اس بات
کا اشتیاق مند ہوتا ہے کہ وہ اپنوں کے حالات سے باخبر رہے۔ اس کے لیے مختلف
قسم کے ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ بھی وقت تھا کہ پیغام رسائی کے
لیے پرندوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ بے زبان پرندوں کی تربیت کچھ اس انداز
سے کی جاتی تھی کہ وہ آپ کا لکھا ہوا رقعہ مطلوبہ مقام پر پہنچا آتے تھے۔اس
کی منظر کشی قرآن میں سلیمان علیہ السلام کے قصے میں مذکور ہے جس میں بلقیس
کی طرف ہدید کے ذریعے دعوت کا پیغام پہنچایا گیا۔ اسی طرح ادوار گزرتے رہے۔
دونوں کی ہیر پھیر نے انسانی زندگی میں مختلف انقلابات برپا کیے۔ جدید سے
جدید کی طلب میں یہ ذریعہ ہر دور میں ایک نئی صورت میں سامنے آیا۔ پھر
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تیز رفتار گھڑ سواروں کو پیغام رسائی کے لیے
استعمال کیا جانے لگا ۔پھر گزرتے وقت کے ساتھ ایجادات کی دنیا میں انقلاب
برپا ہوئے ۔ ٹیلیفون کی ایجاد نے پیغام رسائی کی دنیا میں ایک آسان ذریعہ
فراہم کیا۔ مگر اس تک بھی سب کی رسائی نہ تھی۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ
اس سے بڑھ کر موبائل کی سہولت فراہم کردی گئی۔ اور اس کی اتنی تشہیر کی گئی
کہ ہر کسی نے اس کی طلب میں دن رات ایک کردیئے۔ آج جدھر بھی نگاہ دوڑائی
جائے بڑے بڑے بچوں کے پاس بھی جدید سے جدیدتر موبائل نظر آتے ہیں۔ ظاہراً
تو یہ لوگوں کی سہولت کے لیے سامنے لایا گیا تھا۔ مگر گزرتے وقت کے ساتھ
اسے مجبوری بنا لیا گیا ۔ جسے دیکھو ہر وقت موبائل میںگم سم ہے۔ اسکول ،
کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو دیکھیں موبائل، غریب ہوںیا راستے میں کچرا
اٹھانے والے، غرض طرف موبائل ، موبائل، موبائل۔
ہر طرف غربت کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔ غربت کے نام پر خودکشیاں کی
جارہی ہیں۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا رونا رویا جار ہا ہے۔ مہنگائی ،
مہنگائی کا شور مچایا جا رہاہے۔ مگر دوسری طرف موبائل کو اتنا سستا کر دیا
گیا ہے کہ ہر کوئی اس چنگل میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ موبائل کے جہاںبہت
فوائد ہیں وہاں اس کے بھیانک نقصانات بھی ہیں۔ جس نے اس وقت کی نوجوان نسل
کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس وقت موبائل کو زبردستی اپنی مجبوری بنا لیا
گیا ہے کہ رات سوتے جاگتے ، دن کے ہر ہر لمحے ، موبائل ہاتھ میں ہوتا ہے
اور ٹِک ٹِک ٹِک....
بٹنوں کے دبنے کی آواز اور آنکھیں اسکرین پر SMSآرہے ہیں اور بھیجے جار ہے
ہیں۔ دن میں ہزاروںSMSآتے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھنٹوں پیکجز، خاص تر رات
کے اوقات میں پیکجز کی بھرمار ۔ دن کیا ساری ساری رات لگے رہو۔ موبائل
انٹرنیٹ آکر تو کسر ہی پوری کردی گئی ہے۔ نہ اسلام فکر، نہ قرآن کی فکر، نہ
نماز ، نہ روزہ ، نہ نیکیوں کا خیال، غرض کے موبائل جیسے چھوٹے سے پرزے نے
ہمارے تمام اوقات کو جکڑ لیا ہے۔ اللہ قرآن میں اپنے نبی ﷺ کو اس بات کی
ترغیب دلاتا ہے ۔” کہ اے پیارے جب بھی تجھے فارغ اوقات ملیں تو اپنے رب کی
طرف متوجہ ہوجا اور رب کی عبادت میں اپنے آپ کو تھکا ( انشراح:7,6)
مگر ہم اسی نبی سے محبت کے دعوے دار، عشق نبی ﷺ کے نام سے جلسے منعقد کرنے
والے، نبی ﷺ پر جان قربان کرنے کا دعویٰ کرنے والے، اس کی اطاعت سے
روگردانی کے لیے اپنے اوقات کو بڑی دیدہ دلیری سے ضائع کرنے میں مگن ہیں۔
کچھ تو عشق موبائل میں اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ انسانی ضروری حاجات کو پورا
کرتے وقت بھی موبائل ہاتھ میں اور ہینڈفری کانوں میں لگائے مصروف عمل ہوتے
ہیںا۔ انہیں دنیا کی کوئی بھی پرواہ نہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ امت مسلمہ
تڑپ رہی ہے۔ نہ اپنے وطن میں محفوظ ہیں نہ دیار اغیار میں سکون ہے۔ امت کی
بیٹیوں کے پردہ حیا کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ پھول جیسی نرم کلیوں کی صورت
میں مسلم بچوں کو مسلا جا رہا ہے۔اسلام کے نام لیواﺅں کی زندگی تنگ کردی
گئی ہے۔ غرض ہر طرف فرزندانِ اسلام مصائب ، تکالیف اور تنگیوں میں مبتلا
ہیں۔ مگر انہیں کوئی فکر نہیں۔ یہ اپنی مستی میں مگن ہیں کیونکہ ان پر کوئی
آنچ نہیں۔ پریشان اگر قحط سے کہ جہاں ہے تو بے فکر ہیں کیونکہ گھر میں سما
ہے
اگر باغِ امت میں فصل خزاں ہے
توخوش ہیں کہ اپنا چمن گل فشاں ہے
بنی نوع ، نوع بشر سے جدا ہے
وہ اک نوع، نوع بشر سے جدا ہے
غرض کہ موبائل نے ان کو ہر چیز سے غافل کر دیا ہے۔ یہ کیسی سہولت ہے ؟ یہ
کیسی مجبوری ہے؟ اسلام تو یہ کہتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ اسلام کی
خوبصورتی اس میں ہے کہ فضول امورکو ترک کر دیا جائے۔
مگر یہ عاشقان موبائل ! سارا سارا دن SMS، سارا سارا دن موبائل نیٹ، سارا
سارا دن فضول گپ شپ میں گزارتے ہیں۔ بظاہر یہ سہولت مگر حقیقتاً ایک سازش
ہے کہ جس نے اپنا ؟؟؟ اچھی طرح ہمیں دکھانا شروع کر دیاہے۔ اس موبائل سے اس
وقت تک کتنے گھرانے برباد ہو چکے ہیں؟ کتنے ہی خوشیوں بھرے مسکن اجڑ چکے
ہیں؟ کتنے ہی شرفاءکی عزتوں کو پامال کیا جا چکا ہے؟ کتنے ہی عزت مندوں کی
عزتوں پر بدنامی کا ٹھپہ لگ چکا ہے؟ پھر بھی ہم موبائل کو اپنی مجبوری
سمجھتے ہیں۔ باپ خوشی خوشی سے اپنے لخت جگر کو چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی
موبائل خرید کر دیتا ہے اور وہ بھی جدید سے جدید تر کیمرے والا مگر حقیقت
میں اسے گمراہی کی دلدلوں میں خود کو اتار رہا ہوتا ہے۔
خدارا کچھ تو غور کریں۔ آپ بڑے ہیں یا بچے، نوجوان ہیں یا بوڑھے ، امیر ہیں
یا غریب۔ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آخر کیوں آپ خود ہی اپنی کشتی ڈبونے پر مگن
ہیں۔ خود ہی اپنی اولاد کو تباہی کے دہانے پر چلا رہے ہیں۔ کچھ تو سوچیں
اور خیال کریں۔ کیونکہ گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہ آئے گا اور پھر قیامت کے
دن ان اوقات کا بھی سوال ہوگا۔ کیسے گزارا اور کہاں گزارا؟ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جس میں انسانوں کی اکثریت خسارے میں ہے ایک صحت
ہو اور دوسری فراغت ہے ( مسلم )
ہم فراغت کے اوقات کو ضائع کرکے کہیں اپنی آخرت تو برباد نہیں کر رہے۔ اس
لیے ابھی سنبھل جائیں۔ کہیں غفلت میںڈوبے دیر نہ ہو جائے اور پھر پریشانی
کا سامنا نہ کر نا پڑے۔ |