نفع بخش مال

اس وقت کرہ ارض پر جتنے بھی انسان موجود ہیں ان کی اکثریت نے اپنا مقصد حیات حصول مال سمجھ لیا ہے۔ مال کی محبت میں وہ اپنا دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ جائز ناجائز طریقوںسے زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کی تگ و دو میں مگن نظر آتے ہیں۔ کچھ تو مال کی محبت میں اتنے اندھے ہوجاتے ہیں کہ باقی لوگوں کی جان جوکھم میں ڈال کر اپنا الو سیدھا کرتے نظر آتے ہیں۔ مال اللہ رب العالمین کی نعمت بھی ہے اور عذاب بھی ہے۔ حلال مال جس کا طریقہ حصول اور مصرف غلط ہو تو یہ باعث عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے مال کو اس کے دین کی نصرت و تائید اور کمزور مسلمانوں کی غربت کا مداوا کرنے کے لیے راہ فی سبیل اللہ میں لٹایاجائے۔ یہ بہت ہی عظیم عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کو مختلف درجات میں منقسم فرمایا ہے۔ کسی کو امیر بنایا تو کسی کو فقیر رکھا۔ کسی پر اللہ نے اپنے رزق کے خزانوںکو برکھا برسادی اور اس کو زندگی کی ہر نعمت عطا فرمائی تو اس کے برعکس کچھ کو حالت فقر میں رکھ کر امتحان لیا۔ اللہ نےاس کے برعکس کچھ کو حالت فقر میں رکھ کر امتحان لیا۔ اللہ نے بندوں کی یہ تقسیم بھی بغرض امتحان کی ہے۔ اس میں اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہے اور حکمت بھی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے مالداروں کو ان کے اموال کے ذریعے امتحانوںمیں ڈال کر آزماتا ہے تو فقیروں کو حالت فقر میں مبتلا کرکے آزمائش کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ مالداروںکو دیکھتاہے کہ یہ اپنے اس مال کے انباروں کو جو میں نے عطا کیاہے کیسے خرچ کرتے ہیں؟ اور کیا انہیں اس حالت میں اپنا خالق و مالک بھی یاد رہتاہے یا نہیں ؟

حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے اچھی طرح علیم و خبیر ہے کہ فلاں بندہ جو مجھ سے دنیا کے مال کا متمنی ہے اگرمیں نے اس شخص کو دنیا کا مال عطا فرمایادیا تو حصول مال کے بعد وہ مجھ سے غافل ہو جائے گا۔ اس کا مال اسے سب کچھ بھلوا دے گا۔ اسے عبداللہ سے عبدالمال اور عبدالدنیا یعنی مال اور دنیا کا بندہ بنا دے گا۔ اس لیے اللہ نے اس پر اپنا خاص احسان فرماتے ہوئے اس حالت فقر میں رکھا۔اس کے برعکس وہ علیم وخبیر جانتا ہے کہ فلاں مومن بندہ کو اگر میں نے مال دنیا عطا کیاتو پھر وہ بھی راہِ ہدایت سے انحراف کر سکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے کچھ مال عطا فرما دیتا ہے۔ دنیا کے مال کامل جانا ہر کوئی قابل فخر بات نہیں ۔ یہ تو مالک الملک کی تقسیم ہے ۔اگر دنیا میں نظر دوڑائی جائے تو انسانی نظریں یہ مشاہدہ کرتی ہیں کہ مسلمانوںکے مقابلے میں کفار کے پاس مال و دولت اور دنیاوی نعمتیں زیادہ ہیں۔ اگر یہ باعث فخر ہوتا اور اس میں ایمان و کفر کامسئلہ ہوتا تو اللہ کافر کو پانی کی ایک بوند تک بھی عطا نہ فرماتا۔ اب اس شخص پر اللہ نے اپنا خصوصی فضل فرماتے ہوئے مال و دولت کے دروازے کھول کر اسے غنی کر دیا ہے۔ کیا اللہ نےاسے آزاد چھوڑ دیا ہے کہ تو جیسے چاہے ، جب چاہے، جہاں چاہے، جس پر چاہے اپنا مال خرچ کرتا رہ؟ نہیں نہیں۔

سبحان اللہ ! اللہ رب العزت کے فیصلے بھی کتنے عجیب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے غریبوں، فقیروں اور ضرورت مندوںکی غربت کا مالداروں کے مال میں مختلف صدقات کو فرض کرکے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰ ة بھی فرض فرمائی ہے۔ فطرت اداکرنابھی لازم قرار دیا ہے صدقات کی بھی فضلیت بیان فرمائی ہے اور مختلف طریقوںسے امیروںکو ترغیب دلائی ہے کہ وہ اپنا مال راہِ فی سبیل اللہ میں خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو بہاناباعث اجر ہے۔ جولو گ اپنے اموال کے ڈھیروں کو روک کر نہیں رکھتے بلکہ راہ فی سبیل اللہ میں خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو روک کر نہیں رکھتے بلکہ راہ فی سبیل اللہ میں لٹاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے ہی عطاکردہ مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتے رہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ان کی مدح کچھ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے:” وہ لوگ جو اپنے اموال( راہ فی سبیل اللہ) میں دن رات چھپ کر اور ظاہراً خرچ کرتے ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر عظیم ہے۔ ( قیامت والے دن) ان پر نہ کوئی خوف ہوگااور نہ ہی وہ ( جہنم میں جانے کی وجہ سے ) غمگین ہوں گے۔ “ البقرہ274)

یہ تو عام دنوں میں صدقہ کرنے کی اتنی زیادہ فضیلت ہے۔ مگر نیکیوں کے اس موسم بہار ماہ رمضان میں جس طرح ہر نیکی کا اجر کئی گناہ بڑھ جاتاہے ایسے ہی انفاق فی سبیل اللہ کا اجر بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو مومن بندہ جتنے زیادہ خلوص دل اور ثواب کی نیت سے اپنا مال خرچ کرتاہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس مومن بندے کو اتنا ہی زیادہ بدلہ عطا فرماتا ہے۔ یہ بدلہ دنیا میںبھی مل جاتا ہے اور آخرت کے لیے بھی ذخیرہ ہو جاتاہے۔ ماہ رمضان کے اندر اموال کو لٹانا اور مستحقین پر مال کے سمندر کو بہانا کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سیرت کا ایک روشن پہلو کتب احادیث میں کچھ اس طرح وارد ہوا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے: کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور ماہ رمضان میں جب جبرائیل امین علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لاتے تو آپ بہت زیادہ سخاوت کرتے ۔ جبرائیل امین علیہ السلام ہر رات آپ سے ملتے اور قرآن کو دور ( دھرائی) مکمل کرتے تھے۔ یقینا جبرائیل امین علیہ السلام جب بھی آپ سے ملتے تو آپ تند و تیز آندھیوںسے بھی زیادہ تیز رفتارمیں مال کو خرچ کیا کرتے تھے۔ ( بخاری6، مسلم 2308)

تو سیرت کے اس روشن پہلو سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ جن مومنوں کو اللہ نے اپنے مال کی دولت سے نوازا ہے وہ اسے راہ فی سبیل اللہ میں خرچ کریں ۔ اب کچھ کنجوس مزاج یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے لگ جائیں تو پھر وہ کم ہو جائے گا۔ توان سے بڑا کم عقل اور مجنون کوئی نہیں۔ یہ صرف قرآن و حدیث سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں تو ان کی مثال اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایسا کرنے والے اس دانے کی طرح بڑھ چڑھ کر دیتا ہے کہ ایک دانہ زمین میں بویا جائے جس کی سات کونپلین اُگیں اور ہر کونپل میں سات سو دانے ہوں یہ بات ( سورة البقرة :261) سے ثابت ہوتی ہے۔

آج کے اس دور میں ہم مسلم ممالک کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو اللہ نے وافر مقدار میں مال و دولت اور انعامات سے نوازا ہوا ہے۔ کچھ نام نہاد مسلمان تو ایسے ہیں کہ جن کو اللہ نے اتنا مال عطا کیا ہے جس کا حساب بھی ممکن نہیں ۔ اس کے باوجود وہ اسے راہ فی سبیل اللہ میں لٹانے کے بجائے سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں۔ وہ اپنے خزانے پر گنجے سانپ کی مانند بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن و حدیث سے سخت و عیدات آتی ہیں کہ روز قیامت ان کے مال کو گنجے سانپ کی صورت میں تبدیل کرکے اس شخص پر مسلط کر دیا جائے گا جو اسے ڈسے گا، مارے گا، کاٹے گا تو اس وقت یہ انسان کہے گا ہائے افسوس کاش میں دنیا میں اللہ کے راستے میں اپنے مال کو لٹا دیا کرتا تو آج میرا یہ انجام نہ ہوتا۔
قارئین کرام ! رمضان المبارک
انفاق فی سبیل اللہ کا مہینہ ہے اس میں اپنے اموال کو راہ فی سبیل اللہ میں خرچ کرکے آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیں۔ یہ مواقع بار بار نہیں ملتے۔ آج ہم فضول رسومات شادی بیاہ میں لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں دس یا سو روپے نکالتے متزد ہوجاتے ہیں۔ پھر بھی ہم پختہ مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ کردار صفر ہے۔
گفتار کا غازی بن تو گیا
کر دار کا غازی بن نہ سکا

قیامت کے دن جب غضب کی گرمی تو صدقہ کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک مومن کا صدقہ قیامت والے دن اس کے لئے سایہ بن جائے گا( رواہ احمد ) تو صاحبو! اپنی اداﺅں پر غور کرو اور اس رمضان کو غنیمت جانو تاکہ کل حسرت سے ہاتھ نہ ملنا پڑیں اور افسوس نہ کرنا پڑے۔

حبیب اللہ
About the Author: حبیب اللہ Read More Articles by حبیب اللہ: 25 Articles with 23239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.