بقلم:عظمت علی رحمانی۔۔۔
رمضان کا لفظ ’’رمضا‘‘ سے نکلا ہے اور رمضا اس بارش کو کہتے ہیں جو کہ موسم
خریف سے پہلے برس کر زمین کو گردوغبار سے پاک کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کے لئے
یہ مہینہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کی بارش کا نزول ہی ہے جس کے برسنے سے
مسلمانوں کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ عربی زبان میں روزے کے لئے صوم کا لفظ
استعمال ہوا ہے جس کے معنی ــ’’رک جانا‘‘ کے ہیں، یعنی انسانی خواہشات اور
کھانے پینے سے صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب
تک رک جاتا ہے اور اپنے جسم کے تمام اعضاء کو برائیوں سے روکے رکھنا
ہے۔روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے اہم رکن ہے۔انسان کائنات میں رہتے
ہوئے جو بھی کوئی کام کرتا ہے، اس کی کوئی نہ کوئی غرض و غایت اور ایک خاص
مقصد ہوتاہے ،اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے رمضان المبارک کی غرض و غایت اوروہ خاص
مقصد’’ تقویٰ ‘‘قرار دیا ہے ۔ایک مسلمان روزہ کی وجہ سے برائیوں کو ترک کر
دیتا ہے اور نیکیوں کی طرف راغب ہوجاتاہے ،جس کی وجہ سے اس کا ایمان بڑھ
جاتا ہے۔ تقویٰ نام ہی اس چیز کا ہے کہ تمام برائیوں سے انسان نفرت کرنے
لگے اور نیکیوں کی طرف لپک کر جائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے کسی نے
پوچھا کہ اے امیر المومنین تقویٰ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کیا تیرا گزر کبھی
خاردار جھاڑیوں سے ہوا ہے؟ تو وہاں سے کیسے گزرتا ہے؟عرض کی کہ اپنے دامن
کو سمیٹ کر، کانٹوں سے بچ کر گزرتا ہوں کہ کہیں خاردار کانٹوں کی وجہ سے
میرا جسم زخمی نہ ہو جائے تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا یہی تقویٰ
ہے کہ مسلمان اس دنیا میں گناہوں سے اپنے دامن کو بچا کر گزر جائے اور آخرت
کا رختِ سفر باندھ لے۔ اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی
بتدریج عائد کی گئی ہے ۔نبی کریم ﷺنے ابتداء میں مسلمانوں کوہر ماہ صرف تین
روزے رکھنے کی ہدایات اور حکم دیا تھا۔مگر یہ روزے فرض نہ تھے ۔پھر ۲ھ میں
رمضان کے روزوں کا حکم قرآن میں نازل ہوا۔مگر اس وقت بھی ان میں اتنی رعایت
رکھی گئی تھی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی
روزہ نہ رکھیں وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلادیا کریں،بعد میں
ایسے بوڑھے لوگوں کے لئے جن میں روزے کی طاقت نہ ہو اس رعایت کو بدستور
قائم رہنے دیا گیا۔
روزے کے بارے میں عام مسلمانوں کو احکامات ، سنن ،واجبات، مکروہا ت ،مباحات
کا علم نہیں ہوتااور دیگر شرعی تقاضوں کا علم بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ وہ
نا دانستہ طور پر بعض ایسی کمی اور کوتاہی کے مرتکب ہو جاتے ہیں کہ جس کی
وجہ سے روزہ مکروہ،اور فاسد بھی ہوسکتا ہے ۔لہذاایک عام آدمی کیواسطے روزہ
کے مطلق بنیادی اور اہم معلومات سے آگاہی کے لئے،روزے کے بارے میں کیا کیا
احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں،کس مریض کے لئے کہاں تک روزے کی چھوٹ
ہے اور کیا بیماری کے بعد روزہ دوبارہ رکھے گا یا کفارہ ادا کرے گا،کیا کرے
گا؟بعض مرض ایسے ہیں جس میں روزہ دار کیلئے اس کی بیماری بڑھنے کا خدشہ
زیادہ رہتا ہے مثلاگردے کا مرض،شوگر کا مریض وغیرہ ان کے لئے کیا احکام
ہیں؟
اس حوالے سے ممتاز اسکالراور معروف مصنف ومحقق ا شیح ولی خان المظفر دامت
برکاتہم کا کہنا ہے کہ ایمۂ مساجد کا فرض بنتا ہے کہ وہ حضرات رجب اورشعبان
ہی سے روزہ کے متعلق تربیتی کورسزیا کم از کم بیانات کا اہتمام
فرمائیں،بالخصوص شعبان کے آخری عشرے میں ماحول بنانے کی کاوشیں تیز کی
جائیں،ان کے علاوہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ،عام علماء ،اہل تصوف و سلوک
،تبلیغی ، مذہبی ،دینی جماعتوں اور اداروں کے بھی(حیّ علی رمضان) کی صدا
لگانے کی ذمہ داری بنتی ہے۔نیز فضائل ومسائل رمضان کے متعلق چھوٹے بڑے
رسائل بھی مارکیٹ اور نیٹ میں دستیاب ہیں، ان سے استفادہ کیا جاسکتا
ہے،رفاہی ادارے بھی عام لوگوں کو اس بابرکت ماہ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے
پمفلٹ بڑی مقدار میں شائع کرسکتے ہیں۔
رمضان شریف کو مد نظر رکھ کر اپنا اور اپنی معمولات کا ٹائم ٹیبل بنایا
جائے،اپنا ایسابجٹ بنایاجائے کہ اپنے اور گھر والوں کے علاوہ اس ماہِ مبارک
میں غریبوں ، مسکینوں اور بے کسوں پربھی انفاق کا بھر پور اہتمام ہو،عید تو
ایک دن ہوتی ہے ،رمضان کی ہر افطاری میں عید کا سماں ہوتا ہے، افطاری کرانے
کا بھی خوب خوب انتظام ہو، کیوں کہ یہاں اصل اہتمام ہی ہے۔
مریض کے لئے رخصت (اجازت)ہے ،عالم ِباعمل اور ماہر ڈاکٹر کے کہنے کے
بعد،مریض صرف قضاء کریگا ، اس پر کفارہ نہیں ہے۔
شوگر، گردہ،حمل وغیرہ کچھ امراض کی نشاندہی علماء نے کی ہے، ان مریضوں کو
روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔نیز ہر وہ مرض جس کے بڑھ جانے کا اندیشہ
ہو اس میں بھی عدم ِ صوم کی رخصت (اجازت )ہے۔ |