محمد اسعد خلیل
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اس کو جس نظریہ کی بنیاد پر لیا گیا ہے وہ
نظریہ اسلامی نظام حیات ہے جس کے مطابق مسلمان اپنی انفرادی واجتماعی زندگی
کو اس سانچے میں ڈھالتے ہیں ۔نظریات کی آ بیاری تعلیم ہی کے زریعہ ممکن
ہوتی ہے ۔ایک نظریاتی ملک کو اپنے نظام تعلیم کو نظام حیات کے ہم آہنگ کرنا
پڑتا ہے تا کہ قوم کے جملہ افراد کے درمیان ذہنی وقلبی ھم آہنگی پیدا ہو
سکے جو اسکے اجتماعی وجود کیلیے انتہائی ضروری امر ہے ۔انگریز جب پاک و ھند
پر قابض ہوا تو اس نے سب سے پہلے ہمارے نظام تعلیم کو بدل ڈ الا اوراسکی
جگہ ایک ایسا تعلی مرتب کیا جو اس کے مقاصدکے عین مطابق تھا لارڈ میکالے نے
جونصاب ترتیب دیا تھا اس کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد لوگوں کے قلوب
واذھان بدلنا تھا اوریہ مقصد بخوبی حاصل ہے آج آزادی کے۵۶سال بعد بھی
انگریز سے متأثرقلب وذھن رکھنے والے ہی لوگ ہمارے ملک پر قابض ہیں۔
اوریہ الگ بات ہے کہ جب انگریز نے ہمارے نظام تعلیم کو خراب کیا تو اس کے
متبادل کے طور پر مسلمانوں نے پرائیویٹ سیکٹر میں اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم
کرکے اس بڑی ضرورت کو پورا کیا ،جیسے دارالعلوم دیوبند،ندوۃالعلماء ،علی
گڑھ،جامعہ عثمانیہ ، اس دور کی عظیم یاد گار ہیں۔
اسوقت ہمارے ملک میں کئی قسم کے نظام ہاے تعلیم رائج ہیں جو کہ قو می ،ملی،تقاضے
ہرگز پورے نہیں کررہے ہیں۔ایک طرف انگلش میڈیم سکولز ہیں انمیں اکثر بڑے
گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں دوسری طرف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں
انمیں بالعموم وہ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کی رسا ئی انگلش میڈیم سکول
تک نہیں ہوتی انکا معیار تعلیم تسلی بخش نہیں ہوتا اس لیے ان میں پڑہنے
والوں کی قسمت میں صرف کلرکی ہوتی ہے ۔
یہ اس لیے ہے کہ استادوشاگرد کا تعلق ایک رسمی بن کے رہ گیاہے اعمال واخلاق
کی تربیت فہرست سے خارج ہو گئی ہے ۔تعلیم وتعلم کے اصل مقصد سے استاد و
شاگرد دونوں غافل ہیں اسوقت تعلیم وتعلم بھی دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشہ
بن کے رہ گیا ہے جسکا اصل مقصد حصول معاش ہے ۔معلم ایک وقت میں آتا ہے اپنی
ڈیوٹی پوری کرکے چلا جاتا ہے ۔طلباء کس حال میں ہیں ان کی قابلیت کیوں
کمزور ہورہی ہے ؟ ان کے اخلاق کیوں خراب ہو رہے ہیں ؟ اس سے اس کو کوئی سرو
کار نہیں ۔
ظاہر بات ہے جب استاد کو طلباء کی استعدادکی فکر نہیں ہوگی تو وہ ان کے
اعمال و اخلاق واور دینی تربیت کی فکر کیوں کریگا؟ان حالات میں نئی تعلیمی
مراکز اور دینی جماعتیں بنانے کی بجائے اھل فضل اور رہنماؤں سے گزارش ہے کہ
موجودہ تعلیمی مراکز کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور ان اسباب کی کھوج
لگائیں جن کی وجہ سے اصل مقاصد سے انحراف ہوا ہے کیوں کہ اسلام کبھی انجمن
یا جماعتوں سے نہیں پھیلا اسلام زیادہ تر افراد کے کردار واعمال سے پھیلا
ہے۔
اگریہاں افراد تیار نہیں ہورے ،ہماری درسگاہیں بانجھ پڑگئی ہیں تو ہم ہزار
جماعتیں بنالیں کتابیں لکھ ڈالیں وہ اتنا سود مند نہیں ہوگی اس لیے اسوقت
کی سب سے اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم پہ نظرثانی کر کے
اسکے مردہ جسم میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کریں۔ |