ایک رول ماڈل تعلیمی نگر

 قوموں کے عروج وزوال میں تعلیم بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔ ا س حقیقت سے کوئی ذی روح انکار نہیں کرسکتا کہ تعلیم یافتہ قوموں کے عروج کابنیادی سبب علم کی دولت ہے ،یہ اقوام ہمیشہ اپنے عروج پر رہنے کے ساتھ ساتھ دوسری قوموں پر حکمران بھی رہی ہیں۔ماضی کے اوراق میں اس کی ان گنت نظیریں بکھری پڑی ہیں کہ جن قوموں نے تعلیم کو اپنا زیور بنایاانہیں بغیر وسائل کے بھی غلبہ نصیب ہوا اور جن اقوام کے پاس وسائل و ذخائر کے ڈھیر تھے مگر تعلیم جیسی نعمت سے دوررہے ،آج قصہ پارینہ بن چکے ہیں ۔ سا بق افریقی صدر نیلسن مینڈیلا کا قول ہے "Education is a the most Powerful weapon which you can use to change the world". امریکا نے جب ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم برسائے تو جاپان ترقی کی دوڑ میں صدیوں پیچھے رہ گیا،جاپانیوں نے مینڈیلا کے قول پر عمل کرتے ہوئے صرف تعلیم کو اپنے ہتھیا ر کے طور پر استعمال کیا تو دنیا اس کی ترقی پر رشک کرنے لگی ۔ تعلیم ایک بیش بہا قیمتی زیور ہے ، ایک روشن مینا ر ہے ، تعلیم کے بغیر سارا جگ اندھیر نگری کے مانند ہے۔ اقوام کی ترقی و فروغ اور شعور کی نشو ونما بھی تعلیم کی مرہون منّت ہے۔ ہماری وزارت ِ تعلیم کے مطابق ہر وہ شخص پڑھا لکھا ہے جو کسی بھی زبان میں ایک واضح پرنٹ پڑھ سکتا ہو اور ایک سادہ خط لکھ سکتا ہو۔اور اس تعریف کی رو سے پاکستان کی 58%آبادی خواندہ (تعلیم یافتہ) ہیں ، تاہم اس کے با وجود پاکستان دنیا کے 204تعلیم یافتہ ممالک میں سے 185نمبر پر ہے۔

موجودہ حالات میں پاکستان کو درپیش بحرانوں میں سے ایک تعلیم کا بحران بھی ہے ،جس پر قابو پانا بہت ضروری ہیں کیونکہ اس کے ساتھ ہمارا اور ہماری نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ ہر ذی شعور شہری با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ موجودہ ملکی مسائل کی بنیادی وجہ تعلیمی فقدان ہے کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس کے ذریعے ہم تبدیلی لا سکتے ہیں ،خوشی لا سکتے ہیں ،امن لا سکتے ہیں ،اور اسی طرح مہنگائی کے جن کو قابو کرنے میں بھی تعلیم ہی کام آ سکتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس مسئلہ کی طرف توجہ بھی سب سے کم دی جاتی ہے ۔اس کا اندازہ صرف اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے تعلیم کے لیے مختص بجٹ صرف 2%ہے۔اسی طرح اب تک کسی بھی حکومت نے تعلیم کے فروغ کے لیے کوئی قابل ذکر امر صادر فرمایااور نہ ہی ارباب ِاختیار نے اس طرف سنجیدگی سے کوئی توجہ دی ۔اگر اس مسئلہ کا مستقل کوئی حل نہ نکالا گیا تو مستقبل قریب میں صورتحال خوفناک شکل اختیا ر میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ لیکن۔۔۔۔۔ الحمد للہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود ہماری تعلیمی ترقی رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس میں روز بہ روز اضا فہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے ۔تو کیا ہماری شرح خواندگی سو فی صد ہوسکتی ہے اور ہم تعلیم یافتہ اقوام کی صف ِ اول میں شامل ہو سکتے ہیں ؟؟جی ہا ں اگر حکومتی سطح پر اس بحران کو مسئلہ سمجھ کر اس کا حل تلاش کرے تویہ بالکل سو فیصد ممکن ہے ، جبکہ اب بھی ہمارے ارض پاک میں ایک ایسا گاؤں ہے جس کی شرح خواند گی ان تمام تر عوامل کے باوجود ناقابل یقین 100% ہے ۔ یہ گاؤں صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ ہر لحاظ سے پاکستان کے تمام شہروں ،قصبوں اور دیہا توں کے لیے ایک رول ماڈل ہے ۔

یہ گاؤں کراچی سے پشاور کی سمت انڈس ہائی وے کے 890کلو میٹر گزرنے پر دائیں جانب روڈ کے ساتھ متصل ہی واقع ہے ، اس چھوٹے سے گاؤں کا نام ”ر سول پور“ ہے ۔ گاؤں کی آبادی تقریباََ2000 بلوچ احمدانیوں پر مشتمل ہیں ۔تاریخ بتلاتی ہے کہ ان کے بزرگوں نے پچھلے 200برس میں سیلاب کے ہاتھوں پانچ بار ہجرت کیں اور پھر 80برس قبل1933ءمیں اسی جگہ آباد ہوگئے تھے۔ سرسری گزرجائے تو معمولی سا گاؤں ہے،دھیرے دھیرے دیکھیں تویہاں بہت کچھ عام ڈگر سے ہٹا ہوا ہے ۔نزاکت دیکھیں تو کوئی گلی آڑھی ٹیڑھی نہیں ،کوئی کوچہ بے نام نہیں ۔اور جب بات آجائے صفائی کی تو پورے گاؤں میں کہیں بھی گندگی نہیں،حتی کہ بھینسوں کے باڑے میں بھی صفائی کے اعلٰی مثال قائم کئے ہوئے ہیں ۔ اور تعلیم کی اگر بات ہوتویہاں کے بچے بچیاں جوق در جوق اسکول جاتے ہیں ۔سوال ہوتا ہے کہ صفائی تو ہر گاؤں دیہات میں ہوتی ہے،کوچوں کے نام ہر جگہ رکھے جاتے ہیں، اسی طرح بچے بھی توسبھی جگہیں اسکول جاتے ہیں ،البتہ کہیں کم کہیں زیادہ ،بھلا یہاں کی خاص بات کیا ہے ؟

تو جناب! رسول پور کی حیران کن چیزوں میں سے سب سے پہلی چیز ہے یہاں کا معیارِتعلیم ، یہاں کے باسی حضرات اقوام متحدہ کی یہ تعریف نہیں مانتے کہ خواندہ انسان وہ ہے جو کم از کم حروف تہجی پڑھ لکھ کر اپنا دستخط کر سکتا ہو ۔ یہاں کے ایک مقامی اسکول کے استاد کا کہنا ہے کہ ”عالمی معیا رِتعلیم جو بھی ہو ہمارا معیار یہ ہے کہ پڑھا لکھا کہلانے کے لیے کم از کم میٹرک ضروری ہے ۔“ اگر کوئی شخص میٹرک پاس نہیں ہے تو اسے رسول پور والے پڑھا لکھا نہیں کہتے ،یہاں تک کہ مڈل پاس کو بھی پڑھا لکھا نہیں کہتے۔ان کے مطابق یہاں یہ تصور ہی نہیں ہے کہ بچہ اسکول نہیں جائے گا ۔یہ خیالِ ناپید کسی خاندان ،فرد ،ماں باپ کسی کے ذہن میں بھی نہیں ہے کہ ہمارا بچہ اسکول نہیں جائے گا ۔بلکہ بچہ آٹومیٹک اسکول جاتا ہے۔“۔ چند برس قبل یہاں کسی کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھاالبتہ آج کل لوگ اسلحہ رکھتے تو ہیں مگر سرِعام لہراتے نہیں ہیں۔اسی لیے آج تک یہا ں قتل کی کوئی واردات نہیں ہوئی ہیں ، ایک مقامی شخص کا کہنا تھاکہ 1933ءسے ہمارا گاؤں آباد ہیں ،جب سے لے کر اب تک ہمارے گاؤں کے کسی بھی فرد پر خواہ مرد ہو یا عورت ،بچہ ہو یا جوان کسی پر کوئی ایف ائی آر درج نہیں ہے ۔

یہاں کے ایک اور باشندے کا کہنا تھا ” یہ 1800ءکی بات ہے جب ہم سبھی لوگ کاشتکار تھے ۔جٹ،کورے اور بالکل جاہل اَن پڑھ تھے، اس وقت ہمارا ایک بزرگ گیاتھا دہلی (امین آباد)وہاں انہوں نے اسلامی تعلیم حاصل کی ۔ انہو ں نے کہا کہ بھئی تم لوگ تعلیم حاصل کرو ۔پھر ہمارے تین دادا گئے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ۔پھر اُس وقت سے ایک سلسہ چل پڑھا ۔یہاں ایک پولیس آفیسر (ایس ایس پی)عارف نواز آیا تھا ۔وہ اپنے محکمہ کی کارکردگی کے حوالے سے سالانہ ایک رسالہ نکالتے تھے ،اُس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ”اس ضلع میں ایک گاؤں ہے ”رسول پور “ یہاں کی بلّی بھی گریجویٹ ہے۔“ رسول پور بسنے کے دو برس بعد 1935ءمیں یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے دو الگ الگ پرائمری اسکول اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے یہ اس گاؤں والوں کا تعلیم کے لیے ایک بہت بڑا اقدام تھا ۔89برس کی ایک بوڑھی اماں(یہاں کی پہلی استانی ہیں) نے بتایا ” میری پیدائش 1924 ءکی ہے ،میں پانچ جماعتیں پڑھی ہوئی ہوں ،پانچویں جماعت کا امتحان بھی لڑکوں کے اسکول میں میرے ابا نے دلوایا ، اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم طرف کوئی بھی توجہ نہیں دیتاتھا ،لڑکیاں بیچاری ویسے ہی اسکول سے گھوم پھر کر آجاتی تھی ،پھر جب سب سے پہلے میں نے لڑکیوں کو پڑھانا شروع کیا تو لڑکیاں بہت خوش ہوئیں ۔ چونکہ میں انگریزی پڑھی ہوئی تھی نہ ہی میں نے سیکھنے کی کوشش کی،اس لیے اردو زبان میں ہی پڑھاتی تھی۔اور پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ رسول پور میں طالبات کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہو تی گئی “ ۔ تعلیم نسواں کے اس رجحان نے یہاں کی سماجی سوچ کو اِک نیا رُخ دیا ،رسول پور کے ایک باشندہ نے بتایاکہ یہا ں پہلے جو بھی فیصلے ہوتے تھے مرد حضرات خود ہی کرتے تھے ،اب ایسا نہیں ہے ۔اب نہ صرف گھروں میں عورتوں سے فیصلوں کے متعلق پوچھا جاتاہے بلکہ کاروباری معاملات وغیر ہ کے متعلق بھی عورتوں سے مشاورت کی جاتی ہے ۔پہلے یہاں کی لڑکیا صرف ٹیچری(تدریس) کیا کرتی تھی لیکن اب جو لڑکیا ں ہیں ان میں MBBSڈاکٹر اور انجینئر بھی ہیں ،اوروہ بھی گاو ¿ں سے باہر جا کر نوکری کیا کرتی ہیں ۔ اس کو گاؤں کی سب سے بڑی تبدیلی تصوّر کی جاتی ہے ۔اس سب کچھ کے باوجود رسول پور والوں کے کچھ اپنے ہی وضع کردہ سماجی اصول و ضوابط ہیں ۔(۱)پورا رسُول پور " No Smoking Area " ہے ۔ پورے گاؤں میں اسنوکر اور ویڈیو گیمز کی دکانیں تو درکنارچائے کا کھوکھا تک نہیں ہے ۔(۲) کوئی غیر آدمی یہاں زمیں نہیں خرید سکتا ،چاہے خریدار زمین کی کتنی ہی زیادہ قیمت لگائے وہ اس زمیں کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا (۳) اگر بالفرض کوئی باہر کا آدمی آ بھی جائے تو اسے گاؤں کی تقریبات ،شادی بیاہ وغیرہ میں شرکت کرنے نہیں دیتے ۔(۴) (۵) اگر کوئی باہر کا آدمی یہاں آ کر اپنا کاروبار چمکانا چاہے تو اُسے اپنے اِس مقصد میں کامیاب ہونے نہیں دیتے۔ (۶)پورے گاؤں میں نائی اور دھوبی کے پیشے سے منسلک کوئی شخص نہیں ،اس لیے یہ دونوں ضروریات زیادہ تر باہر سے ہی پوری کی جاتی ہیں۔ رسول پور کے چاروں اطراف میں اور بھی متعدد قبائل آبادہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی رسول پور نہیں ہے۔حکومت ِوقت کو چاہئے کہ کم از کم اس گاؤں ہی کو رول ماڈل بنا کرکوئی واضح تعلیمی پالیسی وضع کریں۔

Sohail Ahmed Zia
About the Author: Sohail Ahmed Zia Read More Articles by Sohail Ahmed Zia: 5 Articles with 4992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.