رشوت

رشوت بدعنوانی کی ایک قسم ہے ۔جس میں پیسے یا تحفہ دینے سے وصول کردہ کا طرز عمل تبدیل ہوتاہے۔قانونی ،لغتی معنوں میں کسی سرکاری افسر یاکسی عوامی یا قانونی امور کے مجازکے عمل کو متاثر کرنے کے لیے کسی قدر کی شئے کی پیشکش ،دینا،وصولی یا مانگنارشوت کہلاتاہے ۔بعنوان دیگرکوئی کام نکالنے یاکسی پر ظلم کرنے یاکسی کا حق مارنے کے لیے جوروپیہ یا پیسہ یا کوئی اور چیزوصول کی جائے یادی جائے اسے رشوت کانام دیاجاتاہے۔ رشوت کا مقصد وصول کنندہ کے اعمال پرا ثرانداز ہونا ہوتاہے ۔دنیا کے مختلف ممالک میں بعض قسم کی رشوت کو قدرے قبولیت حاصل ہے ،مثلاًامریکہ میں سیاست دانوں کو نقد رقوم بطور سیاسی مد د دی جاسکتی ہے جو بعض دوسرے ممالک میں غیر قانونی رشوت تصور ہوتی ہے ۔بعض عرب ممالک میں اہلکاروں کو”بخششیں“ادا کی جاتی ہیںجو غیر قانونی نہیں سمجھی جاتی ۔بدترین قسم کی رشوت وہ ہے جوقیدیوں کے لواحقین سے وصول کی جاتی ہے ،اس کے بدلے قیدیوں اور لواحقین کے ساتھ معاونت والانرم سلوک کیا جاتاہے ۔اس کا راج پرانے زمانے میں برطانیہ جیسے دیگر ممالک میں بھی رہا ہے اورموجودہ زمانہ میں پاکستان جیسے ممالک میں بھی ملتاہے ۔

رشوت ایک سنگین جرم ہے ۔اسلام میں رشوت کھانا ،لینا دینا حرام تصور کیاجاتاہے۔اس کی ممانعت قرآن وحدیث میںبار بار وعیدات کی شکل میں وارد ہوئی ۔ارشاد باری ہے کہ ”آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاﺅاور نہ مال کو حاکموں کے پاس رشوت کے طور پر اس غر ض سے پہنچاﺅکہ لوگوںکے مال میں سے تھوڑا بہت اس کو جان بوجھ کرجائز طور پرکھاﺅ“۔سرور دو عالم ﷺ نے رشوت لینے اور دینے والے (دونوں) پر لعنت فرماتے ہوئے کہا کہ” راشی اور مرتشی دونوں جہنمی ہیں“۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ راشی اور مرتشی دونوں پر لعنت بھیجتے ہیں“۔رشوت کا دائرہ کار بہت وسیع ہے ۔حصول منصب ،غیر حقدار کو نوکری دینے،کسی ادارے کا ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے اورچالان وغیرہ سے بچنے کے لیے پولیس افسر کو رشوت دینابہت عام ہے ۔اس کے علاوہ قیدیوںسے ملاقات کرنے ،سرکاری اداروں میں جلدی کام کروانے یا مفت کام کروانے ،تعلیمی اداروں میں دھکوں سے بچنے اور ٹرین وغیرہ پر مفت سفر کرنے کے لیے بھی رشوت دی جاتی ہے ۔رشوت کی یہ تما م اقسام نہ صرف شرعاًمذموم ہیں بلکہ اخلاقاًاور قانوناًبھی جرم ہیں۔

رشوت کے اجتماعی وانفرادی بہت سے نقصانات ہیں۔ رشوت انسائی سوسائٹی کے لیے ایک رستہ ہو ا ناسور اور مہلک مرض ہے جو کینسر بھی زیادہ خطرناک ہے ،بایں طور کہ جو اس کا شکار ہوتاہے تو رشوت اس کو لقمہ جہنم بنادیتی ہے ،جب کہ کینسر کا مرض ایسا نہیں ہے ۔جب کسی معاشرے میں رشوت کی بیماری عام ہوتی ہے تو وہ پہلی فرصت میں عدل وانصاف کا گھلاگھونٹ دیتی ہے جس کے نتیجہ میں ایک پرامن معاشرہ انتشار وخلفشار کا شکار ہوجاتا ہے ۔انسانی افراد میں اخوت ،محبت ،ہمدردی ،بھائی چارگی کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔بغض وعناد ،نفرت ،عداوت ،شقاوت،خیانت امن وشانتی ،صلح وآشتی کا خرمن جل کر پیوند خاک ہوجاتاہے ۔معاملات میں دھوکہ دہی،جھوٹی گواہی ،ظلم وتشدداور اس جیسے دیگر افعال قبیحہ کی وجہ سے سماج کا ہرفردوبشر ایک دوسرے پر جبر واستبدا د کو اپنا شعار بنالیتاہے ۔یہ سب ایسے مبغوض جرائم ہیں جو اللہ عزوجل کی ناراضگی اور مسلمانوں میں بغض وعداوت اور عام فتنوں کا سبب بنتے ہیں۔یہی وجہ ہے آج سب سے زیادہ قدرتی وسائل کے مالک اسلامی ممالک بدامنی ،انتشار وخلفشار اورآپس میں بغض وعناد کے متعدی امراض کا شکار ہیں۔بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان رشوت کے گند میں بری طرح لتھڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے اکژاوقات بین الاقوامی فورم پر جگ ہنسائی کا سبب بنتارہتاہے ۔گزشتہ دنوں پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات چوہدری عبدالوحید آرائیں نے بھیس بدل کر لاہور کی ایک جیل کا دورہ کیا،قیدی سے ملاقات کرنے کے عوض وزیر جیل کو پولیس اہلکاروں کو گیارہ سو روپیے کا نذرانہ دینا پڑا۔اس واقعہ کو الیکڑانک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا نے بھی ہائی لائٹ کیا،جس سے پوری دنیا میں پاکستان کے بارے میں بدعنوانی کی فضاءہموار ہوئی۔ وزیر جیل خانہ جات نے اگرچہ رشوت لینے والے پولیس افسروں کو معطل کرکے رشوت کے کینسر کے خلاف مہم چلادی لیکن یہ مہم اتنی طاقت ور نہیں جس کے دور رس نتائج نکل سکیں۔ماضی میں رشوت کے خلاف حکمرانوں کے دعوے اور بیانات آج بھی داخل دفتر ہیں مگر کسی حکمران یا منتظم یامنصف نے صحیح معنوں میں معاشرے کی اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام سرانجام دیا ،نہ اس کے لیے کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھائی۔

رشوت ستانی کے انسداد کے لیے آئین وقانون پہلے سے موجود ہیںمگر : ع ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی “۔

مرض کی تشخیص اگر صحیح ہو او ر علاج غلط ہو تو مرض میں افاقہ کی بجائے اضافہ ہی ہوتاہے ۔رشوت جیسی دیگر بیماریوں کے لیے حکومت نے قانون تو وضع کیے ہوئے ہیں مگر امانت ،دیانت اور اخلاص نیت سے روگردانی کرکے ان قوانین کو پس پشت ڈالا ہواہے ۔دنیاوی اور ریاستی قوانین سے انحراف کرنا جس طرح موجب سزا ہے ویسے ہی اسلامی قوانین سے روگرادنی کرنابھی کھلم کھلی بغاوت ہے ۔معاشر ے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا کسی مولوی کا کام ہے،نہ کسی ڈاکٹر ،استاذ اور ماہر دانشور کا ،معاشرے کی اصلاح میں سب سے زیادہ کارگرعمل حکومت کا ہے ۔اگر حکومت چاہے تو رشوت جیسے سنگین جرائم کو معاشرے سے بالکلیہ ختم کرسکتی ہے ۔سرکاری اہلکار ہوں یا نیم سرکاری ،عوام الناس ہوں ،یا پولیس آفیسر،تعلیمی ادارے ہوں یا انصاف فراہم کرنے والے ادارے ،ہسپتال ہوں یا دیگر عوامی نمائندگی کرنے والے ادارے تمام اداروں اور تما م شعبوں سے رشوت کا خاتمہ نہ صرف ممکن بلکہ نہایت آسان ہے ۔اس کے لیے حکومت کو بنیادی طور پر کم آمدنی والے اداروں ،سرکاری اہلکاروں بشمول پولیس اہلکاروں کے تنخواہوں میں مناسب اضافہ کرنا ہوگا۔دوسرے نمبر پر رشوت جیسے مکروہ دھندے میں ملوث افراد کی نہ صر ف حوصلہ شکنی اور سرزنش کرنی ہوگی بلکہ سخت سے سخت سزابھی دیناہوگی ۔اسی طرح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشر ے کے تما م افراد کو رشوت ستانی کے انجام اور نقصان سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے زبردست مہم چلانا ہوگی ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ غیرمسلم رشوت جیسی دیگر برائیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے پلیٹ فارم بناتے ہیں ،بحث ومباحثہ کرتے ہیںاور فلاحی سماجی تنظیمیں بناکر لوگوں میں آگہی پھیلاتے ہیں مگر اسلام کے نام لیوا امت مسلمہ کا شرف حاصل کرنے والی قوم اپنے ہی مذہب کی تعلیمات سے پہلوتہی کرتی ہے ۔ انسداد رشوت ستانی کے لیے چوہدری عبدالوحید جیسے دیگر قابل،محنتی،محب الوطن اور دیانتدار لوگوں کوبھی اسمبلیوںمیں آواز بلند کرناچاہیے تاکہ ملک پاکستان سماجی برائیوں کی دلدل سے نکل سکے اور تعلیم وتعلم ،امن وامان اورصحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا منظر پیش کرکے پوری دنیا کے لیے مقتدا اور رہنماءبن سکے ۔

Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.