اقوام متحدہ میں بہت سارے مسائل پیش ہوئے اور حل بھی
ہوگئے کئی اقوام کو اس کی مداخلت سے آزادی بھی مل گئی لیکن نہ ہوا تو کشمیر
کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ مذہبی بنیادوں پر ریاستوں کو آزادی ملی جس کی مثال
ایسٹ تیمور ہے سوڈان کی 1.5 فی صد عیسائی آبادی کی فکر بھی کی گئی لیکن
سالہا سال سے قربانیا ں دینے کشمیری کبھی وہ اہمیت نہیں پاسکے جو اُن کا حق
ہے حالانکہ ان کا مطالبہ بہت سادہ ہے اور وہ ہے آزادی ۔وہ جس ملک کے ناجائز
قبضے میں ہیں وہ اُس سے آزادی چاہتے ہیں جس کے ساتھ نہ ہی تو ان کا ثقافتی
رشتہ ہے نہ سماجی اور نہ ہی مذہبی اور ظاہر ہے مذہب نے ان تاریخ بھی ایک
دوسرے سے جدا کردی ہے۔ اور یوں کوئی ایک بھی وجہ نہیں ہے جس کی بنا پر ایک
بڑا علاقہ اور ایک بڑی آبادی اس کی مرضی کے خلاف غلام بنا کر رکھی جائے ،نہ
ان کا احتجاج نظر آئے ،نہ قربانیاں درخور اعتنائ سمجھی جائیں اور نہ ہی ان
کا بنیادی انسانی حق یعنی حقِ آزادی تسلیم کیا جائے۔ کیا اس لیے کہ وہ
مسلمان ہیں یا اس لیے کہ بھارت کو ناراض کرنا مشکل ہے وہ بھی پاکستان کے
لیے یا، اس لیے کہ اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو بڑی طاقتوں کی اسلحے کی بہت
بڑی منڈی ختم ہو جائے گی اور ان ملکوں میں ان کے مفادات بھی نہ رہیں گے ۔
بہر حال جو وجہ بھی ہومسئلہ کشمیر سرد خانے کی نظر ہو رہا ہے لیکن اس کا ہر
گز یہ مطلب نہیں ہے کہ کشمیر ی بھی اپنے مطالبے سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ وہ
تو اب بھی جانیں دے رہے ہیں ،مائیں، بیویاں اور بیٹیاں اب بھی بین کر رہی
ہیں اپنے شہیدوں کی لاشیں بھی اُٹھا رہے ہیںاور اپنے پیاروں کو گم بھی کر
رہے ہیں جنہیںبھارتی افواج اٹھا لے جاتی ہیں اور جو خوش قسمت ہوتے ہیں اُن
کی لاش مل جاتی ہے ورنہ وہ بھی نہیں ملتی۔
جب جب کشمیر میں حالات بھارت سرکار کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں وہ پاکستان پر
دراندازی کا الزام لگا کر دنیا کی توجہ موڑ دیتا ہے حالانکہ کشمیریوں کی یہ
جدوجہد پاکستان کے وجود سے بہت پرانی ہے۔ اس جنت نما خطے کے باسیوں کی
بدقسمتی رہی ہے کہ اسے ظالم حکمرانوں نے اپنا نشانہ بنائے رکھا لیکن ان کی
ہمت کہ وہ ان مظالم کے سامنے جھکے نہیں اور کشمیریوں نے کبھی اپنے شہیدوں
کو بھلایا بھی نہیں بلکہ ہر نئی نسل نے اپنے سے پرانی نسل سے بہادری کا سبق
سیکھا ۔ ہر 13 جولائی کو کشمیری ایک ایسا ہی یوم شہدا مناتے ہیں جب آج سے
بیاسی سال پہلے یعنی 1931 میں ڈوگرہ ڈی آئی جی چودھری رام چند نے جموّں
میونسپل پارک میں خطیب منشی محمد اسحاق کو عید کا خطبہ دینے سے روکا تو
پورے کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور پوری وادی میں ہنگامے اٹھ کھڑے
ہوئے۔ ایسے ہی ایک احتجاج میں عبدالقدیر نامی ایک نوجوان نے راجہ کے محل کی
اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ لگایا اور اس جرم کی پاداش میں اُسے گرفتار کر
لیا گیا اور سری نگر کی سنٹرل جیل کو عدالت قرار دے کر اُس پر مقدمہ چلایا
گیا ۔کاروائی سننے کے لیے آنے والے لوگوں میں سے ایک نوجوان نے اٹھ کر بوقت
ظہر، ظہرکی اذان دینی شروع کی ہی تھی کہ ڈوگرہ سپاہیوں نے اُسے شہید کر دیا
،دوسرانوجوان اذان دینے اٹھا تو اُسے بھی گولی مار دی گئی اور یوں اکیس
نوجوانوں نے جام شہادت نوش کرتے ہوئے اذان مکمل کی اور تاریخ کا ایک ایسا
باب بھی رقم کیا کہ جس پر آج بھی نہ صرف کشمیری بلکہ ہر مسلمان کو فخر ہونا
چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ کشمیری آج بھی اس دن کو فخر کے ساتھ مناتے ہیں۔
لیکن افسوس کہ آج بھی نہ وہ آزادی حاصل کر سکے ہیں اور نہ ان کی زندگیاں
محفوظ ہیں۔اگر چہ وہ اپنی جدوجہد میں ثابت قدم ہیں لیکن اور کتنی نسلیں خون
کی اِن ندیوں سے پار ہوتی رہیں گی۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان کی حکومتوں
نے بھی رفتہ رفتہ کشمیر کو پس پشت ڈالنا شروع کر دیا ہے۔اسی کشمیر کے مسئلے
پر 1948 ، 1965 اور پھر 1999 میں جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس مسئلے کو کچھ وقت کے
لیے تو دبا دیا جاتا ہے لیکن اس کا مستقل حل نہ ہونے تک برصغیر میں پائیدار
امن کا قیام ناممکن ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ مسئلہ جنگ کے ذریعے حل ہو لیکن
جنگ کا خطرہ ہر وقت اسی مسئلے کی وجہ سے موجود رہتا ہے۔ کبھی کبھار اقوام
متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کا کوئی نمائندہ یا کوئی مندوب پالیسی
میٹرز کے طور پر اس مسئلے کا ذکر کر دیتا ہے ورنہ عملی طور پر کوئی قابل
ذکر کوشش اس مسئلے کے حل کے لیے دکھائی نہیں دیتی جبکہ کشمیری آج بھی اُسی
طرح تہہ تیغ ہو رہے ہیں ۔ 1989 میں جب تحریک آزادی کشمیر میں تیزی آئی تو
اُس وقت سے لے کر 2012 تک 93,831 ہلاکتیں ہو چکی ہیں تقریباََ ایک لاکھ کی
اِن قربانیوں کے بعد تو آزادی کشمیریوں کا استحقاق بنتا ہے ایک لاکھ سے
زیادہ بچے یتیم ہو چکے ہیں تقریباََ تیس ہزار عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں اور
تقریباََ دس ہزار عورتوں کی بے حرمتی کی جا چکی ہے، 2013 میں بھی اب تک 34
افراد شہید ہو چکے ہیں ۔ اِن اموات میں ہزاروں پولیس کے زیر حراست ہوئیں
ہیں اورگرفتاریوں کا تو کوئی شمار نہیں۔ ان میں سے ایک ایک شہید اپنے پیچھے
کتنے لواحقین چھوڑ رہا ہے کتنے بوڑھے والدین، معصوم بچے اوربیوہ عورتیں
کشمیر کی وادی میں بھارتی مظالم کا کھلا ثبوت ہیں۔
101,338مربع کلومیٹر کی اس مقبوضہ وادی میں کسی بڑے ملک کی فوج جتنی قابض
فوج موجود ہے اور سات لاکھ کی یہ فوج مختلف ریاستی قوانین کی ایسی ڈھال کے
پیچھے چھپی ہوئی ہے جس میں ان کو ہر زیادتی کرنے کے باوجود مکمل قانونی
تحفظ حاصل ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہ مظالم عالمی برادری کو نظر بھی
نہیں آتے۔ کبھی کبھار ایمنسٹی انٹر نیشنل یا انسانی حقوق کی کسی دوسری
تنظیم کی بھولے بھٹکے یہاں نظر پڑتی ہے ایک بے ضرر سی رپورٹ شائع ہوتی ہے
اور بس ،جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی قوتوں کو اس مسئلے کو حل کرنے کے
لیے بھارت پر دبائو ڈالنا ہوگا۔ ایٹمی جنگ کی فکر توکی جاتی ہے لیکن اُس کے
سب سے بڑے ممکنہ محرک کو ختم کرنیکی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ تو غیروں کی بات
ہے مگر سچ یہ ہے کہ اب تو خود ہماری حکومتیں بھی اس مسئلے کو وہ اہمیت نہیں
دے رہیں جو اس کا حق ہے بھارت سے دوستی کی بات کرتے ہوئے اگر کشمیر کے
مسئلے کو حل کرنے کی بھی بات کی جائے تو شاید ہم چھیا سٹھ سالوں کی
قربانیوں کا حق ادا کر سکیں۔ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے اور تجارتی
روابط استوار کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہے کیونکہ امن سے رہنا ہر ایک کی
خواہش کہ امن ہوگا تو ترقی اور سکون ہوگا لیکن اس سب کچھ کے لیے بدامنی کی
سب سے بڑی وجہ دور کرنا ہوگی ۔امن کی تمام یک طرفہ تمام کوششوں کے باوجود
بھی کیا بھارت کشمیر میں ریاستی دہشت گردی بند کرنے پر آماد ہ ہے یا اُس نے
ہماری سرحد ی خلاف ورزیاں بند کردی ہیں اگر نہیں تو پھر مان لینا چاہیے کہ
پہلے کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا تو سارے مسائل خود بخود حل ہوتے جائیں گے ۔
ہمیں صرف یوم شہدا منانے میں ہی کشمیریوں کا ساتھ نہیں دینا ہوگا بلکہ
عالمی سطح پر کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اٹھانا ہوگی اور اس مسئلے کو
اقوام متحدہ کے سرد خانے سے بھی نکالنا ہوگا اور سفارتی سطح پر ایک ایسی
مہم چلانا ہوگی کہ عالمی طاقتیں اور خود اقوام متحدہ بھارت کے پروپیگنڈا کے
اثر سے نکل کر مسئلے کی حقیقت اور کشمیریوں کے حق کو تسلیم کر لیں کہ آزادی
ان کا بھی اُتنا ہی حق ہے جتنا دوسری قوموں کا۔ |