فقیرنی․․․․․․․!

’’ہمنہ․․․․․․بڑی آئی․․․اسے پڑھانے والی․․․․․ارے ہم بھکاری ہیں صرف بھیک ہی مانگا کر اور دوسری کوئی بات سوچنے کی ضرورت نہیں ہے․․․․․․․․جیسے بڑا افسر لگ جائے پڑھ لکھ کر۔‘‘

نجمہ نے جیسے اس کے سینے میں آگ بھڑکا دی ہو۔

’’ضرور پڑھے گا اور افسر بھی بنے گا دیکھ لینا․․․․․․․میں نے خود تو یہاں ذلیل و خوار ہو کر اپنی زندگی گزار لی مگر اسے نہیں گزارنے دوں گی․․․․․․․میں اسے لے کر یہاں سے دور چلی جاؤں گی جہاں تم لوگ نا اسے دیکھ سکو نا ہی․․․․․․․اسے کچھ بتا سکو․․․میں اسے اچھی زندگی دوں گی۔‘‘

فریدہ نے اپنے چار سال کے بچے کو مٹی سے کھیلتے ہوئے اٹھا کر سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔

’’ہا․․․․․․․تو کن لوگوں کی دنیاؤں کے خواب دیکھنے بیٹھ گئی ہے․․․․․․․یہ دنیا ہے جہاں ہر کام اور ہرچیزپیسے سے ملتی ہے․․․․․․․تو جوان جہان اور اکیلی․․․․․․کہاں سے لائے گی اتنے پیسے․․․․․․ارے افسر بھی وہی لوگ بنتے ہیں جو پیسے والے ہوں جن کی جیبوں میں نوٹ ہوں ہم جیسے بھکاری اور ان کے بچے نہیں،بڑی آئی․․․․․․․․․‘‘

نجمہ نے پہلے سے تیز آواز میں ہاتھ ہلا ہلا کر کہا۔

’’کچھ ہو جائے میں نے دل میں اپنے بچے کو اس زندگی سے نکال کر پڑھانے کی ٹھانی ہے اور میں ضرور پڑھاؤں گی چاہے․․․․․․․‘‘

’’ہاں․․․․․․اور افسر بن کے تیرا بیٹا بڑے فخر سے لوگوں کو بتائے گا کہ میری ماں فقیرنی ہے․․․․․․․تو گدا گری بس․․․․․اتنی اونچی اونچی باتیں نا سوچ․․․․․․چل اٹھ ۔‘‘

نجمہ کے لہجے میں ہنوز طنز تھا۔

’’میں کب بھیک مانگنا چاہتی ہوں․․․․․․میں خود بھی سب چھوڑ دوں گی․․․․․․آگ لگے اس زندگی کو․․․․․میں ہر مشکل سہہ لوں گی ہر زخم کھا لوں گی مگر․․اسے یہ سب نہیں کرنے دوں گی کبھی بھی نہیں۔‘‘
فریدہ کا عزم بھی اپنی جگہ قائم تھا۔

’’دماغ چل گیا ہے․․․․تیرا․․․․․․․۔اﷲ کے نام پر کچھ دیتے جاؤ․․بابو․تیرا بچہ امتحان میں پاس ہو اﷲ اسے افسر بنائے․․․․․تو․․․․․․․․․․‘‘

نجمہ اس کے پاس سے اٹھتی ہوئی گاڑی سے نکلنے والے ایک آدمی اور اس کے چھ سال کے بچے کی طرف لپکی تھی۔فریدہ اسے بھیک کے مخصوص انداز میں بولتا دیکھتی ہوئی سوچ رہی تھی کہ یہی دعا ہم اپنے بچوں کے لیے کیوں نہیں کر سکتے ہم اپنے بچوں کے لیے ایسا کیوں نہیں سوچ سکتے․․․․․سارا دن ہزاروں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر ہم انہیں ایسی باتیں کہتے ہیں․․․․․تو خود کیوں نہیں․․․․․ان جیسا بننے کا سوچتے․․․․․․․ہمنہ ہم سوچ سکتے ہیں مگر ہمیں ہڈ حرامی کی لت پڑ چکی ہوتی ہے مگر میں․․یہ سب نہیں کروں گی۔

فریدہ نے زریعہ معاش کے لیے بہت تگو دو کی وہ کہاں کہاں نہیں بھٹکی مگر اپنے ارادے پر قائم رہی اس نے اپنے بچے کو اس علاقے سے بہت دورایک سرکاری اسکول میں داخل کرا دیا۔اور وہیں کے قریبی ہاسٹل میں بھی مگر اس کی ہاتھ کی لکیروں میں شاید بھیک مانگنا ہی لکھا تھا۔اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اس سے چھٹکارا پا لے مگر ناکام رہی۔اس نے زمانے کی سختیاں سہیں،سرد گرم موسموں کے عذاب جھیلے، لوگوں کی دھتکاریں اور گالیاں برداشت کی مگر اپنے بچے کو آنچ تک نہیں آنے دی اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔وہ چشم تصور میں اپنے بیٹے کو ایک بہت بڑا افسر بنے دیکھتی ایک خوبصورت زندگی کے ساتھ جس میں وہ اپنی ماں کو ہر آسودگی دے گا جس سے وہ آج تک محروم رہی۔وہ کبھی کبھی اسے ہاسٹل ملنے جاتی اسے ڈھیر ساری نصیحتیں کرتی اور واپس آجاتی اس نے آج تک اپنے بچے کو اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔اس کے اصرار کے باوجود وہ اسے ہمیشہ یہی بتاتی کہ وہ محنت کرتی ہے۔وہ اسے ایک اچھے دن سب سچ بتا دے گی مگر ابھی نہیں۔دن گزرتے گئے اور بلا آخر اس کے بیٹے نے اپنی منزل پا لی۔

’’امی․․․․․․میں اب آپ کواکیلا نہیں رہنے دوں گا میں نے گھر لے لیا ہے،اب آپ میرے ساتھ رہیں گی․․․اور ہاں میں نے آج آپ کو ایک اور خوشی کی بات بھی بتانی ہے․․․اور وہ میری طرف سے تحفہ ہے آپ کے لیے مگر وہ ابھی نہیں۔‘‘

عثمان ہاتھ میں کچھ کاغذات لیے بول رہا تھا۔

’’جیتے رہو میرے بچے ․․․․آج․․․․․․․بیٹا آج ․․․․․․میں نے بھی تمہیں ایک حقیقت بتانی ہے․․․․․․مگر ․․․․․․ابھی نہیں․․․۔‘‘

’’ہمنہ․․․․․․․․آپ مجھے ستارہی ہیں․․․چلیں․․․․․کوئی بات نہیں میں آپ کو کل لینے آؤں گا․․․․اب تو مجھے پتا بتا دیں․․․․․․․۔‘‘

وہ لاکھ انکار کرتی رہی مگر عثمان نہیں ٹلا․․․․فریدہ نے نا چاہتے ہوئے بھی اسے نالے کے قریب بنی جھگیوں کا پتا بتا دیا۔

’’بڑے خوش ہو آج․․․․․․․․․ہواؤں میں اڑ رہے ہو۔‘‘

عامر نے عثمان کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

’’ہاں کیوں نہیں․․․․․آج ہی نئی گاڑی جو لی ہے میں نے ․․پتا ہے میں یہ گاڑی اپنی امی کو دوں گا اور گھر بھی فی الحال تو کرایہ کا ہے مگر اپنا بھی بنالوں گا انشاﷲ،بس آج امی کو لینے جا رہا ہوں،،نئی گاڑی میں بٹھا کر نئے گھر․․․․․ہمن․․ہمنہ․․․․․․۔‘‘

عثمان اب کچھ گنگنا رہا تھا۔

’’ہمنہ․․․․․․گھر․تو لے لیا ہے اب کچھ گھر والی کا بھی سوچ رہے ہو ․․․․․․․․․۔‘‘

عامر نے اسے شرارت سے کہا۔

ان کی گاڑی سگنل پر رکی تھی جب ایک فقیرنی کی آواز انہیں سنائی دی۔

’’اﷲ کے نام پر کچھ دیتے جاؤ بابو․․․․․․․تو بڑا افسر بنے․․․․․تو ․․․․․‘‘

’’دیکھو عثمان اس فقیرنی کے چہرے پر عجیب سا احساس ہے،بڑی عجیب لگ رہی ہے یہ فقیرنی۔‘‘

وہ اپنے والٹ سے پیسے نکال رہا تھا۔فریدہ نے ہٹنا چاہا مگر عثمان اسے دیکھ چکا تھا،اس نے پانچ کا نوٹ اسے پکڑاتے ہوئے عامر کی بات کا جواب دیا۔

’’ہاں فقیرنی․․․․․․․․․․۔‘‘

سگنل کھل چکا تھا۔وہ بیک مرر سے انہیں دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا ،وہ دور تک اس کی گاڑی کو جاتا ہوا دیکھتی رہی اس کے کانوں میں عثمان کے الفاظ گونج رہے تھے ’’فقیرنی‘‘۔وہ پانچ کا نوٹ ہاتھ میں پکڑے دیر تک کھڑی رہی ۔کل عثمان سے ملنے کے بعدبھیک مانگنے کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کرنا چاہتی تھی مگروہ عثمان کے لیے اس کی کامیابیوں پر دینے کے لیے کچھ لینا چاہتی تھی۔یہی سوچ کر اس نے آج کے دن قدم اٹھا یا تھا کہ جہاں اتنے سال چلتی رہی ہوں وہاں ایک دن اور سہی۔کاش وہ آج کے دن ایسا نا سوچتی اس کا بھرم رہ جاتا،کاش․․․․․پانچ کا نوٹ اس کے ہاتھ سے اڑ کر دور چلا گیا۔
Aliya Touseef
About the Author: Aliya Touseef Read More Articles by Aliya Touseef: 3 Articles with 3039 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.