بقلم: محمود شام۔۔۔۔۔تاریخ کبھی میرے روبرو ہوتی ہے ۔
کبھی میں تاریخ کی عدالت میں نادم وگریاں کھڑا ہوتاہوں ۔
مگر آج کل تاریخ اور میں دوبدوہیں ۔
کبھی تاریخ حملہ آور ہوتی ہے۔ کبھی میں تاریخ کو پسپا کرنے کی کوشش
کررہاہوتاہوں ۔
’مظفریات‘کے اوراق پلٹتے ہوئے تو تاریخ سے جنگ کچھ اور تیز ہوگئی ، مجھے
سطور کے درمیان گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیتی رہیں، سنانیں چمکتی رہیں ۔
پاکستان یوں تو کبھی بھی مستحکم اور پرسکون نہیں رہا، لیکن ان دنوں تو یہ
فی الحقیقت انتہائی فیصلہ کن موڑ پر کھڑاہے۔
کھڑے ہیں اب تو وجود وعدم کی سرحد پر
بس ایک لغزش پاپر ہے فیصلہ ہونا
کئی انتہاؤں میں بٹاہوا معاشرہ کیسے استحکام حاصل کرسکتاہے۔ یہ انتہائیں
بھی سمٹنا نہیں چاہتی ہیں اور نہ ہی مقتدر طاقتوں میں سے کوئی ان کو قریب
لانے ان کے درمیان دوریاں مٹانے کے لئے آمادہ ہے ۔ بلکہ حکمران طبقوں نے تو
شعوری طورپر کوشش کی ہے کہ یہ فاصلے بڑھتے رہیں ۔ میری یہ آرزو رہی ہے کہ
دوبہت ہی واضح انتہاؤں کو ایک دوسرے کے قریب لایاجائے ایک تو وہ پاکستانی
ہیں جوعام نظام تعلیم کے ذریعے پرورش پاکر کالجوں یونیورسٹیوں سے گزرتے
ہوئے عملی زندگی میں داخل ہورہے ہیں۔ سیاست ،تجارت اور دوسرے شعبوں میں
قیادت کررہے ہیں، دوسری طرف وہ پاکستانی ہیں اور بڑی تعداد میں ہیں جن کا
اپنا جہان ہے جودینی مدارس میں تربیت پارہے ہیں، قرآن پاک کو سمجھتے ہیں ،
احادیث کا ادراک حاصل کرتے ہیں ، عربی زبان کے وسعتوں میں علم کے موتی چنتے
ہیں ، دنیاداروں کو دین کی طرف راغب کررہے ہیں، عام پاکستانی اس حلقے سے بے
خبر ہے ،اس لئے اسے انداز ہ ہی نہیں ہے کہ یہاں کیسی تربیت ہوتی ہے ،کن
زبانوں سے شناسائی ہوتی ہے۔ عالم اسلام سے ان کے کیا روابط ہیں ، مختلف
اسلامی ممالک میں جوتحریکیں چل رہی ہیں ان کی منزل کیا ہے ، دنیاکے بعض
مملکوں میں مسلمان جہاں اقلیت میں ہیں ان پر کیا گزررہی ہے ۔ پاکستانی ہی
نہیں مسلمانوں کی اکثریت ایک دوسرے کے بارے میں مغربی میڈیا کے ذریعے
معلومات حاصل کرتی ہے۔ اس لیے حقیقت حال سے ناآشنارہتی ہے۔
شیخ ولی خان المظفر سے جب بھی ملاقات ہوئی ہے مجھے یہ حوصلہ ملاہے کہ دونوں
انتہاؤں کو قریب لانے کے لئے موثر کو ششیں ہوسکتی ہیں ۔
پاکستان کے سیاسی ،معاشی ، سماجی حالات پر تو ان کی بہت گہری نظر ہے ہی ،اس
کے ساتھ ساتھ وہ عالم اسلام اور بالخصوص عرب دنیا کے بارے میں حقائق سے خوب
آگاہ ہیں ۔ جدید عربی زبان پر عبور ہونے کے باعث وہ ان ممالک کے اخبارات
وجراید کا براہِ راست مطالعہ کرتے ہیں ، یہاں کی ممتاز شخصیتوں او رعلمی
مراکز سے ان کے روابط ہیں ۔ جدید اطلاعاتی ٹیکنا لوجی پر بھی ان کی گرفت
ہے، اس لیے آج کے مواصلاتی دور میں وہ ہر شعبے میں ہونے والی پیشرفت کی خبر
رکھتے ہیں ۔
مظفریات ‘ _مختلف اخبارات وجرید میں چھپنے والے متنوع مضامین ومقالات کا
انتخاب ہے۔ عام طور پر اخباری کالم ایک سرسری حیثیت کے حامل ہوتے ہیں ۔
لیکن یہ تحریر یں ایک مقصد رکھتی ہیں اور ایک سمت ۔ پڑھنے والے کو حالات
وحقائق سے مطلع رکھنے کا جذبہ ہر سطر میں کارفرمادکھائی دیتاہے۔ برادرملک
ترکی کے سلسلے میں مضامین آج کے ترکی کی تصویرپیش کرتے ہیں۔ سنگاپور میں
اسلام بھی تازہ ترین صورت حال سامنے لاتاہے۔ کتاب کی مرکزی افادیت یہ ہے کہ
پاکستان کے دینی مدارس نے جودنیا آباد کررکھی ہے وہ اس کے مناظر بہت خوبصور
ت پیرائے ۔ دل نشیں زبان میں ہماری نظروں میں اپنی جگہ بناتے ہیں ، جس سے
عام پاکستانی پر یہ حقیقت تہ درتہ کھلتی ہے کہ اس جہانِ دگر میں علم وعمل
کے کیا انداز ہیں ۔ ان مدارس سے پاکستان کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ اور
دوسرے ممالک میں اسلامی تعلیمات کی خوشبو کس طرح پھیل رہی ہے۔
وہ پاکستانی حلقے جو اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال قرار دیتے ہیں
اور یہ تمنا رکھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک متوازن اور معتدل فکر کا غلبہ
ہونا چاہیئے ۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ ان مضامین کامطالعہ کریں، یہ انہیں اس
مختلف پاکستان کے قریب لائے گی اور پورے پاکستان کوایک منزل کی طرف لے جانے
میں ممدود معاون ہوگی ۔
اﷲ تعالٰی سے میری انتہائی عاجزی سے دعاہے کہ شیخ ولی خاں المظفر کو مزید
استطاعت دے کہ وہ مذہب ،تاریخ اور سائنس کے امتزاج کی کوشش اسی طرح جاری
رکھیں اورہمیں یہ توفیق دے کہ ہم ان کی تحریرں سے استفادہ کرتے رہیں ،تاکہ
ہمارے علم میں اضافہ ہوتارہے ۔ ہم تاریخ کے جبر سے نجات حاصل کرسکیں ۔ |