فیضان جمیل
دنیا کی کوئی بھی آزاد قوم اپنی تہذیب وثقافت ،اپنے لباس ،اپنی زبان اور
اپنی اقدار سے پہچانی جاتی ہے ۔جو اس قوم کی شناخت ہوتی ہے ۔جب کسی قوم سے
اسکی شناخٹ چھن جائے تو اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچتا ۔ہم جس طرح
بحیثیت قوم اپنی تہذیب وثقافت کو کھودیا ۔ایسے ہی اپنی قومی زبان اردو کو
بھی پامال کردیا ۔آج کل اس پر انگریزی زبان مسلط ہے ۔انگریز ی ہی ہماری
دفتری زبان بھی ہے اور جدید علوم کے حصول کا ذریعہ بھی ۔اس غیر ملکی اور
غیر اسلامی زبان سے ہمارے فکری اور تہذیبی سانچے کو توڑ پھوڑ دیا ہے ۔طلباء
نظریاتی اعتبار سے الجھ گئے ہیں ۔اس الجھاؤ نے ہمارے کردار اور عمل کو
پامال کردیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جس قوم نے بھی غیروں کی روایات اور اقدار
کو اپنا یا وہ ٹوٹ پھوٹ گئی اور غیروں کی محکوم بن کر رہ گئی۔
انگریزی اگر چہ بین الاقوامی زبان ہے لیکن اسے پوری قوم پر مسلط کرنے کا
نتیجہ یہ ہے کہ نسل نو ایک مرعوب قوم بن کر رہ گئی ہے ۔حال یہ ہے کہ ہمارے
تعلیم یافتہ کو قومی زبان پر عبور حاصل نہیں ۔اپنی بات دوسرے کو سمجھانے کے
لیے انگریز ی کا سہارا لینا انکی مجبوری بن گئی ہے ۔اور انتہائی افسوسناک
امریہ ہے کہ حال ہی میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب بیشتر عوامی
نمائندوں کے لیے اردو میں تحریر شدہ حلف نامہ پڑھنا مشکل ہورہاتھا ۔ہم نہ
جانے کس ڈگر پر چل نکلے کہ اب تو ہم نے اعلیٰ عہدوں کے حلف بھی انگریزی
زبان میں اٹھانا شروع کردیئے ۔
چینی رہنما انگریزی زبان پر اعلیٰ درجے کی قدرت رکھنے کے باوجود اپنی زبان
میں بات کرتے ہیں اور وہ دنیا کو بتاتے ہیں کہ وہ ایک قوم ہیں جسکی ایک
پہچان ہے۔ایک دفعہ چین کے وزیرا عظم چو این لائی (مرحوم ) پاکستان کے دورہ
پر آئے ۔انکا یہاں ہرمقام پر انگریزی میں استقبال ہوامگر انہوں نے ہر مقدمی
کا جواب چینی زبان میں دیا۔اگر چہ وہ انگریزی کے فاضل تھے مگر انہوں نے
اپنی قومی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور یہ بتایا کہ
چین گونگا نہیں ہے۔
بطور ایک آزاد قوم ہمیں اردو زبان کو دفتری زبان بنانا چاہیے اور اسے ذریعہ
تعلیم بھی بنانا چاہیے ۔کیونکہ پوری انسانی تاریخ میں ایک بھی ایسی مثال
نہیں ملتی کہ کسی ایسی قوم نے ترقی کی ہو جس کاذریعہ تعلیم کوئی غیر ملکی
زبان رہی ہو ۔تاریخ اور جدید دور ا س بات کے حق میں فیصلہ دیتاہے کہ ترقی
ان اقوام نے کی جنہوں نے جدید علوم کو اپنی زبان میں ڈھالا نہ کہ وہ اقوام
جو خود اغیار کی زبان میں ڈھل گئیں۔
دنیا کے سامنے چین ،فرانس ،جاپان ،کوریا ،ملائیشیا اورجرمنی سمیت بے شمار
ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی قومی زبان کو اختیار کرکے تعلیم
،سائنس وٹیکنالوجی ،طب ،انجنئیرنگ اور دیگر تمام علوم میں دسترس حاصل کی
اور کررہے ہیں۔ان قوموں نے تمام جدید علوم اپنی ہی زبان میں عام کئے اور آج
دنیا کی سب سے زیادہ زہین قوموں میں انکا شمار ہوتاہے ۔
ہماری سربلندی کا راز بھی یہی ہے کہ ہم زندگی کے ہر میدان میں ایک مسلمان
اور ایک پاکستانی کی حیثیت سے زندہ رہیں ۔انگریز ی زبان نے ہمارے اندر
اسلام دشمنی تصورات کو پختہ کردیاہے ۔اورہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے
ہیں۔اور عمل کے اعتبار سے ہمارے پاس ندامت کے سواکچھ بھی نہیں ہے ۔ہم اس
قدر احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ قومی زبان کیطرف طبعیت آمادہ ہی نہیں
ہوتی ۔
اردو کو اس کا مقام دینے کے لئے ایک جرات مند انہ فیصلے کی ضرورت ہے ۔جرات
غیرت سے پیداہوتی ہے اور غیرت کے لیے دل میں قومی وقا ر کا احساس ضروری ہے
۔اگر قومی وقار اور ملی تشخص کا احسا س یقین بن کر ہمارے دلوں کا حصہ نہ
بنا تو اردو زبان قومی زبان ہونے کے باوجود بھی پسماندہ اور یتیم رہے گی ۔(
ابھی وقت نہیں گزرا ہمیں آج ہی جاگنا ہوگا ور اپنے ملک کی سرحدوں کے علاوہ
اپنی زبان کی بھی حفاظت کرنا ہوگی ۔ثقافتیں قوموں کی پہچا ن ہوتی ہیں اور
ہمیں اپنی پہچان زندہ رکھنا ہوگی ۔جس طرح ہمیں پاکستان سے پیارہے اسی طرح
ہمیں اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے بھی اتنا ہی پیار ہونا چاہئے ۔ |