بڑے بڑے حکومتی دعوں کے باوجود
ماہ رمضان میں لوڈ شیڈنگ کا بحران جاری ہے جبکہ حکومت گردشی قرضوں کی مد
میں سینکڑوں ارب روپے کی ادائیگی بھی کرچکی ہے۔اپوزیشن میں بیٹھ کر تنقید
کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ انتخابات سے قبل لود شیڈنگ کے
حوالے سے تواتر سے یہ بات کیا کرتے تھے کہ ہم اقتدار میں آکر مہینوں میں
لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے اور وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے لوڈ شیڈنگ کے خلاف
ہونیوالے احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک ہوا کرتے تھے بلکہ احتجاجاََ مینار
پاکستان پر وزیر اعلیٰ کیمپ آفس بنا رکھا تھا اور وہاں باقاعدگی سے بیٹھا
کرتے تھے اب شاید انہیں وہ ساری باتیں بھول گئی ہیں۔رمضان المبارک کی آمد
سے قبل وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے سحری اور افطاری کے اوقات میں بجلی
کی لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر جتنا عمل ہوا ہے وہ سب
کے سامنے ہے انہوں نے تو قوم سے اس بات پر معافی مانگ لی ہے لیکن کیا ان کی
معافی مانگنے سے یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ ماہ رمضان میں عوام الناس کو سحری
،افطاری اور تراویح کے اوقات میں جن مشکلات کا سامنا ہے وزیر بجلی و پانی
اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کیا؟جمعہ کی نمازشروع ہوئی تو ملک کے بہت سارے
علاقوں میں بجلی بند ہوگئی تھی اور سخت گرمی میں مساجد میں روزہ داروں کے
جو حالات تھے وزیر صاحب کے معافی مانگنے سے ان کا ازالہ ممکن ہے۔شب برات کو
بجلی کی آنکھ مچولی سے لگتا تھا جیسے ہم کسی اسلامی ملک کی بجائے ہندووں یا
یہودیوں کے ملک میں رہ رہے ہیں لیکن ان کے ملکوں میں بھی شاید ایسا سلوک نہ
ہو جیسا ہمارے پیارے اسلامی ملک میں ہورہا ہے۔بنیادی ضرورت کی ہر چیز رمضان
المبارک کے شروع ہوتے ہی بیس تیس روپے بڑھ چکی ہے بلکہ کھجوریں تو پچاس
ساٹھ روپے بڑھ چکی ہیں اگر کوئی چیز سستی کی گئی ہے تو وہ ڈالڈا گھی،لپٹن ،سپریم
چائے،کوکا کولہ،پیپسی کولہ ہیں جو مسلمانوں کی پراڈکٹ نہیں ہیں تحقیق کریں
تو پتہ چلے گا کہ کن غیر مسلموں کی ہیں جبکہ ہماری تمام پراڈکٹس پہلے سے
زیادہ مہنگی کردی گئی ہیں اس کے باوجود کہ ساری کی ساری پنجاب حکومت سستا
رمضان بازاروں کی نگرانی میں مصروف ہے لیکن کوئی ایک چیز بھی مارکیٹ سے
سستی نہیں ہے ۔ پنجاب حکومت اربوں روپے کی سبسڈی پتہ نہیں کہاں دے رہی ہے
اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچتا نظر تو آنہیں رہا۔ تو بات ہورہی تھی لوڈ
شیڈنگ کی جو تمام تر حکومتی کوششوں اور دعوں کے ابھی تک کم ہوتی نظر نہیں
آرہی ۔وفاقی حکومت کو ڈاکٹر ثمر مبارک کی خدمات سے بھی استفادہ حاصل کرنا
چاہیے ان کی بات میں کافی وزن لگتا ہے ان کو موقع فراہم کرنا چاہیے۔
وزیرپانی و بجلی صاحب کے معافی مانگنے سے لوڈ شیڈنگ کا معاملہ حل نہیں ہوگا
بلکہ انہیں اپنی زبان کا پاس رکھتے ہوئے مضبوظ قوت ارادی،دل گردے کے ساتھ
مختلف مافیاز کا مقابلہ کرنا ہوگا اگران میں اتنی ہمت نہیں ہے اور وہ آئے
روز معافی مانگ کر ڈنگ ٹپاو پالیسی پر عمل پیرا ہوناچاہتے ہیں تو ایسا شاید
نہ ہوسکے انہیں استعفیٰ دے کر کسی اور کو موقع دینا چاہیے۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ ابھی حکومت کو اقتدار سنبھالے دن ہی کتنے ہوئے ہیں ابھی تو ہنی مون
کے دن ہیں لیکن عوام کی توقعات کو اس حد تک بڑھایا کس نے تھا۔عوام کو کچھ
ہوتا نظر تو آنا چاہیے لیکن ابھی صرف باتوں کی حد تک ہی ہے مسائل تو پہلے
سے بھی بڑھ چکے ہیں۔حکومت کو اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔ |