ہم اس وقت داخلی اور خارجی
ہر دواعتبار سے مشکل ترین حالات سے دوچار ہیں۔قوموں کی زندگیوں میں مشکل
لمحات آیا ہی کرتے ہیں،لیکن وہی قومیں باقی رہتیں ہیں جو مشکل لمحات میں
ثابت قدم رہتی ہیں اور وہ قوم جو مشکل حالات میں بھی اپنی کمزوریوں کو
دیکھنے سمجھنے کے باوجود ان کا حل تلاش نہیں کرتی وہ مٹ جایا کرتی ہے۔ہم
بھی اس وقت ایک ایسی قوم کا روپ د ھار چکے ہیں جس کا ظاہری طور پر انتہائی
برا حال ہو چکا ہے،اگر ہمیں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے تو
ہمیں اپنی کمزوریوں اور محرومیوں کا مستقل حل تلاش کرنا ہو گااور اس کے بعد
سختی کے ساتھ ان کا سد باب کرنا ہو گا،انفرادیاں کم اور اجتماعی غلطیاں
قوموں کا زیادہ نقصان کرتی ہیں۔آئیے آج مل کر سوچیں! کہ ہمارے اندر ایسی
کون کون سی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ہم جو کبھی قوموں کی صفوں
میں اوج ثریا پر براجمان تھے آج ناکامیوں کی اندھی دلدل میں پڑے ہوئے
ہیں،ہمیں اپنے تاریخی پس منظر میں اپنی برائیوں کو ڈھونڈنا ہو گا اور ان کا
محاسبہ کرنا ہو گا۔
آج ہم طرح طرح کی انفرادی برائیوں میں تو مبتلا ہیں ہی لیکن بہت سی اجتماعی
برائیاں بھی ہم میں پائی جاتی ہیں،اجتماعی غلطیوں کی سزا بھی اجتماعیت کو
ملتی ہے جو ہم کو مل بھی رہی ہے لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی اجتماعی
غلطیوں پر قابو پا لیں،ہمیں اپنی غلطیاں و برائیاں قرآن حدیث کی روشنی میں
دیکھنی ہو گی اور ان کوحل بھی قرآن و حدیث کے مطابق کرنا ہو گا۔
ہماری اجتماعی گناہوں کا پتہ اور سزا اس حدیث شریف سے واضح ہو رہی ہے،حضرت
عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا!5گناہوں کی سزا 5چیزیں
ہیں1۔جو قوم عہد شکنی کرتی ہے،اﷲ تعالیٰ اس کے دشمن کو اس پر مسلط کر دیتے
ہیں2۔جو اﷲ کا حکم چھوڑ کر دوسرے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے ان میں افلاس
ضرور پھیل جاتا ہے3۔جس قوم میں بد حیائی وبدکاری عام ہو جائے اس پر اﷲ
طاعون اور دوسرے امراض مسلط کر دیتا ہے4۔جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں
اﷲ ان کو قحط میں مبتلا کر دیتا ہے5۔جو لوگ زکوٰہ ادا نہیں کرتے اﷲ ان سے
بارش روک لیتا ہے اورطبرانی نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ جس قوم میں سود
عام ہو جاتا ہے اس میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے،جو لوگ حق کے خلاف فیصلے
کرتے ہیں ان میں قتل و خون ریزی پھیل جاتی ہے)ماخوذاز درس تفسیر پارہ عم(
اس حدیث شریف کے مفہوم سے ہمیں سمجھ لینا چائیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ہم
انفرادی ہی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر عہد شکن ہو چکے ہیں ہم جو بھی وعدہ
کرتے ہیں اسے ایفاء کرنے کہ ضرورت نہیں سمجھتے،کوئی کام بھی جس کے بارے میں
دوسروں سے معاملہ کر لیتے ہیں اس کو پہلے تو پائیہ تکمیل تک پہچاتے نہیں یا
پھر لیت و لال سے کام لیتے ہیں ہمارے انفرادی عہد کی طرح ہمارے اجتماعی عہد
بھی صرف لفاظی ہوتے ہیں،ہمارے حکمران بھی کوئی وعدہ پورا نہیں کرتے بلکہ
عہد کر کے پوری ڈھٹائی سے مکر جاتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ تک کہہ دیتے
ہیں کہ"یہ عہد تھوڑا ہی قرآن وحدیث تھا"جو ہم پر پورا کرنا فرض تھااس لئے
ہم پر مختلف قومیں حملہ آور ہیں،کوئی ڈرون حملے کرتی ہیں تو کوئی ثقافتی
یلغار کئے ہوئے ہیں۔دوسری بات یہ کہ ہمارے پاس واضح حکم قرآن حدیث کا ہونے
کا باجودہم دوسری قوموں کے قوانین کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں،ان کے
قوانین ہی کو ترقی کا ذریعہ سمجھے بیٹھے ہیں ہم تو یہی سمجھے ہوئے ہیں کہ
نعوذباﷲ "قرآن وحدیث"پرانی باتیں ہیں اگر ہم نے زمانے کے ساتھ قدم سے قدم
ملا کر چلنا ہے تو انہیں چھوڑنا ہو گا،حالانکہ ہم دنیا سے پیچھے اس ہی وجہ
سے رہ گئے ہیں کہ ہم نے اپنی اصل یعنی'قرآن وحدیث''کو چھوڑ دیا ہے اور اس
وقت ہم ہر قسم کی بے حیائی اور بدکاری میں ملوث ہو چکے ہیں ہم سمجھ رہے ہیں
کہ ہمارے پاس جدید ادویات نہیں ہیں ،ہمارے ملک میں بہترین ڈاکٹر نہیں ہیں
اس لئے ملک میں موذی امراض کا تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،یہ بات حقیقت نہیں
ہے اس کی واحد وجہ بے حیائی اور بد کاری ہے اگر آج ہماری قوم بے حیائی اور
بد کاری سے مکمل توبہ کر لیں تو جدید ادویات اور تجربہ کار ڈاکٹروں کے بغیر
بھی ان موذی امراض میں قابو پا لیں گے۔
ہمارا چوتھا اجتماعی گناہ ناپ تول میں کمی ہے،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ناپ تول
میں کمی کر کے ہم تو ذخیرہ اکٹھا کر رہے ہیں،اپنا مال بڑھا رہے ہیں ،لیکن
ایسا ہے نہیں ہم خود اور اپنی قوم کو قحط میں مبتلا کر رہے ہیں اگر ہم آج
ہی سے ناپ تول کو ٹھیک کر لیں تو قحط کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ اور
رہا زکوٰہ کا سوال تو تو پہلے تو لوگ زکوٰہ ادا ہی نہیں کرتے ،جو چند دیتے
بھی ہیں تو وہ مستحقین تک پہنچتی نہیں،جس کی وجہ سے اﷲ ہم سے ناراض ہے جس
کی وجہ سے کبھی تو بارش ہوتی ہی نہیں اور کبھی اتنی شدت کے ساتھ ہوتی ہے جو
ہمیں راحت پہنچانے کے بجائے ہماری تکلیف میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔آج ہماری
ہر چیز کا انحصار سودی نظام سے چل رہا ہے چاہے چھوٹی سے چھوٹی چیز ہویا بڑی
سی بڑی،کوئی بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں،چھوٹا ہو یا بڑا،عوام ہوں یا حکمران
کوئی بھی اس سے بچا ہوا نہیں،ہمیں سودی نظام سے جان چھوڑانی ہو گی اس کے
بعد ہی ہم بہتر طور پر زندگی گزار پائیں گے اور ترقی کی منازل طے کر پائیں
گے وگرنہ ہم ادھر ادھر سر پھٹکتے رہیں گے۔
ہمارے ملک میں ہر طرف بد امنی و خون ریزی ہے اس کی واحد وجہ حدیث شریف میں
یہی بتائی گئی ہے، کہ جہاں حق کے خلاف فیصلے ہو گے تووہاں پر افراتفری،قتل
وغارت پھیلی گی،ہماری عدالتوں میں عدل وانصاف کے پیمانے مختلف ہیں کسی حق
دار کو پہلے تو حق ملتا ہی نہیں اگر ملتا بھی ہے تو اس وقت جب وہ اپنی تمام
جمع پونجی دولت لوٹا اور اپنی عمر بیتا چکاہوتا ہے ،ہماری عدالتوں میں سال
ہا سال سے چھوٹی سی نوعیت کے مقدمے سال ہا سال تک زیر بحث رہتے ہیں جن کا
فیصلہ ایک آدھ پیشی پر بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کو سالوں لٹکایا جاتا ہے،بڑی
نوعیت کے فیصلے تو اس کے حق میں ہوتے ہیں جو زیادہ طاقتور زیادہ پیسے
اورزیادہ اثرورسوخ والا ہوتا ہے۔اگر واقعی ہمیں ترقی کی منازل طے کرنی ہے
اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے تو اپنی ذاتی اور اجتماعی
زندگی سے ان غلطیوں سے توبہ کر کے ان سے مکمل طور پر کنارہ کشی کرنی ہو گی
پھر جا کر ہم کامیاب ہو گے وگرنہ دنیا میں بھی ذلیل وخوار رہیں گے اور آخرت
میں بھی۔ |