زندگی میں اگرچہ بہت سے لوگ
انسان کو سکھاتےہیں اور وہ یاد بھی رہتا ہے لیکن جو جیز قابل حیرت ہے وہ یہ
ہے کہ انسان اپنے چاہنے والوں سے کم دشمنوں سے سیکھی ہوئی باتیں زیادہ یاد
رکھتا ہے۔ سب سے بڑھ کر جو بات انسان کی زندگی کو ایک خاص رخ عطاکرتی ہے وہ
اس کے تجربات ہیں اور تجربات بھی جو انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں ان سے انسان
زیادہ سیکھتا ہے۔انسان بھی نگینہ کی طرح ہے جتنازیادہ حالات اسے تکالیف سے
گزارتے ہیں وہ اسی قدر خوبصورت رنگ میں ڈھلتا جاتا ہے۔
شیخ سعدی اپنی کتاب گلستان سعدی میں ایک حکایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
ایک آدمی جو کشتی میں پہلی بار سفر کر رہا تھا ،جب کشتی میں سوار ہوا تو
چیخنے چلانے لگا ، بچاو بچاو، میں مرنے لگا ہوں شروع میں تو سب دل لگی
سمجھے لیکن آئستہ آئستہ مسافر تنگ آگئے اس کی چیخ و پکار کم ہونےکا نام
ہی نہیں لیتی تھی۔
ایک امیر مسافر کو انتہائی غصہ آیا تو اس نے کہا کوئی اگر اس کو خاموش
کروا دے تو میں اسے دس سو دینار دوں گا۔ سب خاموش بیٹھے رہے ایک مسافر
آٹھا اور اس نے چلانے والے مسافر کو دھکا دے کر کشتی سے نیچے پھینک دیا۔
سب دیکھنے والے پریشان ہو گئے۔ وہ بچاؤ بچاؤ چلاتا ہوا کشتی کے قریب ہوتا
تو وہ آدمی دوبارہ اسے کشتی سے دور دھکیل دیتا۔جب وہ ڈوبنے والا تھا تو
اُسی دھکا دینے والے نے اُسے پکڑ کر اوپر کھینچا ۔اب وہ بلکل خاموشی سے
کشتی میں بیٹھ گیا ۔امیر آدمی نے دینار دیتے ہوئے کہا کہ تم نے اسے کیسے
خاموش کروا دیا۔ تو وہ مسافر بولا یہ شخص پہلے نہیں جانتا تھا کہ یہ کشتی
میں محفوظ ہے ،اب یہ خاموش اس لیے ہے کہ یہ جانتا ہے کہ یہ اس کشتی میں
محفوظ ہے۔ انسان جب تک مشکل سے نہ گزرے وہ آسانی کی قیمت نہیں سمجھ سکتا۔
آج ہماری قوم میں بھی ہر طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ،اگرچہ ہر طرف
کچھ فضا بھی تکلیف دہ ہے مگر ایسی نہیں کہ ہم اپنے ملک و قوم سے مایوس ہو
جائیں ،یہاں اگر مہنگائی ہے تو پھر بھی ایک وقت کا کھانا کھانے والوں کو
سوچنا چاہیے کہ وہ بھی ممالک ہیں جہاں لوگ ہر قسم کے جانور ،کیڑے مکوڑے
کھانے پر مجبور ہیں ، اگر یہاں لوڈشیڈنگ ہے تو کم سے کم اسے کم کرنے یا ختم
کرنے کی کوشش تو کی جا رہی ہے ،سومالیہ اور افریقہ کے ممالک میں حالات اس
سے کہیں زیادہ بُرے ہیں۔ہمارے پاکستانی بھائی شکرگزاری سے عاری ہیں ،افسوس
کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو جہنم کہنے والے اکثر پیٹ بھر کر کھانا کھانے
والے لوگ ہی ہیں ،کمزور اور نادار لوگ ملک کی سوچتےہی کہاں ہیں۔
یہ پاکستان ہی ہے جو دنیا کے سمنرر میں ایک مضبوط بحری جہاز کی طرح ہم سب
کو سہارا دیے ہوئے ہے،ہمارے سیاست دان کیسے ہی کرپٹ ہوں ،ہمیں مایوس نہیں
ہونا چاہیے کیونکہ اسلام کے مطابق اگر زیادہ سے صاف پانی میں تھوڑی غلاظت
مل جائے تو تمام پانی کو غلیظ قرار نہیں دیا جاتا۔ آج ہم لوگ احتجاج کے
نام پراپنے ملک کے ساتھ نہیں اپنی ذات کے ساتھ بُرا کر رہے ہیں۔افسوس کی
بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں میڈیا اپنے اپنے چینل کی مشہوری کے لیے منفی
جذبات کو فروغ دے رہا ہے۔طلبا کے لیے پاکستان میں کوئی چینل کیوں نہیں
بنایا جاتا ، خبریں خبریں اور صرف خبریں ۔ لوگ اپنے مفاد کے لیے عام لوگوں
کو کھلونا بنائے ہوئے ہیں۔پاکستان کے حالات اتنے برے نہیں جتنا کہ پیش کیا
جاتا ہے ،مرچ مصالحہ لگا کر بات کو یوں بڑھا دیا جاتا ہے کہ سننے والا بھی
رونے والوں کے ساتھ رونا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر
دھماکے نہ ہوں ،یا حکمرانوں کرپشن نہ کرئیں تو یہ نیوز چینل عوام کو کیا
دیکھائیں گئے۔
ایک طرف خبر آتی ہے کہ بس کھائی میں گر گئی اتنے لوگ مر گئے ،ساتھ ہی نیچے
لکھا آتا ہے آج کترینہ ستائس سال کی ہوگئی ہے۔ نیوز چینل والوں کی عقل پر
ماتم کرئے کوئی یا پھر بیٹھ کر ہنسے ، ایک طرف بھارت کو دشمن ،کشمیر میں
ظلم کرنے والا جابر کہتے ہیں دوسری طرف کہا جاتا ہے بھارت اور پاکستان امن
کی آشا کے سا ئے تلے آگئے ہیں۔سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے
اپنی ذات سے سوال کریں کیا پاکستان واحد ملک ہے جہاں کرپشن ہے ،جہاں دھماکے
ہوتے ہیں،جہاں امیرغریبوں کا خون چوستے ہیں ،نہیں امریکہ اور یورپ کی ایک
ریسرچ کے مطابق امریکہ میں لندن جیسے شہر میں جہاں ترقی عروج پر ہے ہر سات
منٹ بعد ایک عورت کا ریب ہوتا ہے، انڈیا میں آج عورتیں مردوں سے کم ہیں
کیونکہ لڑکیاں پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دی جاتی ہیں ۔ پاکستان ہی میں
ڈینکی واہرس سے لوگ نہیں مرتے سعودی عریبہ میں بھی کرونا واہرس سے لوگ مرتے
ہیں۔ اپنی مشکلات کو ہی سب سے زیادہ سمجھنا اور چیختے رہنا مسلے کا حل نہیں
ہے۔ ہمارے اہل قلم کو چاہیے کہ وہ مسلے نہ بتائیں لوگوں کو مساہل کا حل
بتائیں ،ان کے کردار کی تعمیر کریں ،مساہل ہر جگہ ہوتے ہیں ،ترقی ان مساہل
پر ٹائر جلا کر حاصل نہیں کی جا سکتی ۔
ہم تباہ ہونے نہیں جا رہے نہ ہی ایمرجنسی وارڈ میں ہیں ،ہمارا ملک ایک ترقی
پزیر ملک ہے ہمارے سائنس دان ،کھلاڑی ، استاد ،عالم ،کارکن حضرات کسی سے کم
نہیں آج بھی پاکستان کی سولہ سال کی لڑکی خطاب کرتی ہے تو کہیں ممالک کے
لوگ اسے سنتے ہیں،نہ صرف سنتے ہیں تعریف بھی کرتے ہیں لیکن مایوسیوں کو
پھلانے والے کہتے ہیں یہ ملالہ کی تعریف نہیں کرتے اسے استعمال کرنا چاہتے
ہیں،ان لوگوں کی مثال ایسے ہے کہ مکھیاں پورے صاف ستھرے جسم کو چھوڑ کر زخم
پر بیٹھتی ہیں ،ایسے میں انہیں سارا جسم ہی زخمی تکلیف کا مارا نظر آتا ہے۔
پاکستان کی ایک عورت دنیا کی سب سے اونچی چوٹی سر کرکے آتی ہے توپاکستان
کا اصل روپ سامنے آتا ہے ،حسن نثار کہتے ہیں کہ جہاں چھوٹی سی بچی کو اس
لیے سر پر گولی مار دی جائے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے تو وہاں چیرے
پر مسکراہٹ نہیں آ سکتی،لیکن میں کہتی ہوں کہ آپ ضرور مسکرائیں کیونکہ
ایک گولی کے چلنے سے اگر لاکھوں لڑکیاں تعلیم کی خواہش کرنے لگیں ہیں تو یہ
گولی پاکستان کی ہر لڑکی کھانے کے لیے تیار ہے۔ آپ ﷺ کے دور میں تو اس سے
زیادہ ظلم کیا جاتا تھا ۔ یہاں تک کہ اسلام قبول کرنے والی پہلی عورت حضرت
سمیہ رضی اللہ تعالی عنہما کو اسلامی تعلیم حاصل کر لینے کی پاداش میں مارا
پیٹا گیا یہا ں تک کہ ان کی شرم گاہ میں لوہے کہ سلاخ مارکر شہید کر دیا
گیا۔ لیکن حضرت محمدﷺ نے مسکرانا نہیں چھوڑدیا ہم اس محمد ﷺ کی امت ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا، مایوسی کفر ہے،قرآن میں رب فرماتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے
مایوس نہ ہو۔آج ہمارے لکھنے والوں کو کیا ہو گیا ہے ،ہم اپنے بچوں کو کیا
سکھانا چاہتے ہیں،آج ہمارے کسی پاکستانی بہین بھائی کو عزت ملتی ہے تو
ہمیں اس میں بھی نقص نظر آنے لگتا ہے۔ ہم اچھائی میں بھی بُرائی ڈھونڈنے
کو ترجیح دینے لگے ہیں۔اس کی وجہ ہمارے اہل قلم اورہمارے عالم حضرات ہیں جو
آسانیوں کی بجائے مشکلات پھلاتے ہیں اور امیدوں کی بجائے مایوسیاں پھلانے
کا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔پاکستان جب بنا تھا تو بھی بہت سے لوگوں
کا خیال تھا کہ یہ دو چار سال ہی کا مہمان ہے،یہاں کے لوگ بنیاد پرست
توہمات میں مبتلا ہیں ،لیکن سچ تو یہ ہے کہ چمگادڑ کو اگر سورج کی روشنی
میں کچھ دیکھانی نہ دے تو اس میں سورج کا کوئی قصور نہیں چمگادڑ کی نظر کا
قصور ہے ، آج تک کچھ بے وقوف لوگ یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ پاکستان تو یہ
گیا اور وہ گیا ، پاکستان کوئی مکھن کی ٹکیہ نہیں کہ حالات کی تپش سے بہہ
جائے ،پاکستان اگرچہ مشکالات سے دوچار ہے مگرحالات ایسے بھی خراب نہیں کہ
ٹھیک نہ کیے جا سکیں ، آج بھی ہم فخرسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں ۔
ضرورت صرف مثبت سوچ اور درست عمل کی ہے۔کڑی دھوپ میں سورج کو پتھر نہیں
مارا جاتا بلکہ درخت کے نیچے پناہ لی جاتی ہے ،ہمیں اپنی نسل کو کڑی دھوپ
سے پچانا ہے تو ان میں صبر کے بیچ بونے ہوں گئے تاکہ کل وہ دنیا کی کڑی
دھوپ کو برداشت کرنے والے پیڑ ثابت ہوں ۔ |