سپیشل جج اینٹی کرپشن راولپنڈی
ڈویثرن نے ملکی تاریخ کا انوکھا فیصلہ سناتے ہوئے جعل سازی میں ملوث لڑکی
سونیا ارشد کو دوسال تک سکول میں مفت پڑھانے کی سزا سنا دی۔ 25سالہ سونیاپر
الزام تھا کہ اس نے میٹرک کی جعلی سند پر ہولی فیملی نرسنگ سکول میں داخلہ
لیا تھا۔ عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے بعد سونیا اب ملزم سے مجرم بن چکی ہے۔
اس کی سزا 15اگست سے ایک مقامی ہائی سکول میں بطور پروبیشن مدرس کے شروع
ہوجائے گی۔ وہ ہفتہ میں تین روز سوموار تا بدھ بچوں کو پڑھائے گی۔
واہ کیا فیصلہ ہے․․․․! واقعی ملکی تاریخ کا انوکھا فیصلہ ہے جس پر ہر کوئی
حیران بھی ہے اور تذبذب کا شکار بھی۔ مگر میرے خیال میں یہ کوئی اتنا منفرد
فیصلہ بھی نہیں ہے۔ ملکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا
رہا ہے۔ بدعنوان اور کرپٹ افراد ’’بطور سزا‘‘ اعلیٰ عہدوں پر ہی فائز ہوتے
رہے ہیں بلکہ جو اس میدان میں جتنا ماہر اور کاریگر ہوتا ہے اسے اتنا ہی
بڑا عہدہ ملتا ہے۔ ہمارے ہاں ملک وقوم کو لوٹنے والے بڑے بڑے مگر مچھ پکڑے
بھی گئے، ان پر کرپشن ثابت بھی ہوئی مگر آخر میں کیا ہوا، سونیا ارشد کی
طرح انہیں بھی کوئی ’’معزز‘‘ ڈیوٹی کی ہی ’’سزا ‘‘ دی گئی۔ تھانے کچہری سے
لے کر حکمرانی کے ایوانوں تک ایسے ہی لوگوں کا ڈنکا بجتا رہا اور بج رہا ہے۔
اخبار اٹھا کر دیکھ لیجئے، اعلیٰ عہدوں پر وہی لوگ فائز کئے گئے جنہوں نے
کرپشن اور ملک وقوم کو ٹیکا لگانے کی جتنی بڑی بولی لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ
ہمارے ہاں کرپشن کبھی ختم نہیں ہوسکی کیونکہ اس کے خاتمے کے لئے کبھی کوئی
سنجیدہ قدم اٹھایا ہی نہیں گیا۔
عدالت کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹیچنگ ایک معزز پیشہ
ہے ۔ استاد ، اپنے طلباء کے لئے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا ماضی،
جوانی، تعلیم، علم اور شخصیت بچے کی شخصیت پر انتہائی گہرا اثر ڈالتے
ہیں۔آج دنیا میں جتنے بڑے فلاسفر، سائنسدان، انجینئر، ڈاکٹر اور دوسرے بڑے
لوگ موجود ہیں ان سے پوچھ لیجئے کہ ان کو اس مقام پر پہنچانے میں سب سے
زیادہ کس نے کردار ادا کیا تو ان میں سے نوے فیصد سے زائد اپنے اساتذہ
کواپنی کامیابی کا موجب اور محرک قراردیں گے۔ ایک کامیاب استاد اپنی شخصیت
سے بچوں کی شخصیت کو تراشتا ہے۔ اساتذہ اپنے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کے عملی
اظہار سے بچوں میں اپنی شخصیت اتارتے ہیں۔ ان کی کہی باتیں بچوں کو عمر بھر
یادرہتی ہیں۔ استاد یا ٹیچر کالفظ کان میں پڑتے ہی اعلیٰ اخلاق، نفیس شخصیت،
سچائی، علم، فراست، نظم وضبط اور احترام کے جذبات ہمارے ذہنوں میں ابھرتے
ہیں۔ استاد ہی ہماری آئندہ نسلوں کے ہاتھوں پر روشن مستقبل کی لکیریں
کھینچتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ اس معاشرے کا کیا حال ہوگا جہاں بدعنوان
افراد کے ہاتھ میں ملک کا مستقبل ’’بطور سزا‘‘ دے دیا جائے۔ کیا یہ کرپشن
پر کرپشن نہیں تو اور کیا ہے․․․․؟
جن افراد نے علم کے حصول کی بجائے صرف ڈگری حاصل کی ہو ان کے ہاتھوں میں
ہمارا مستقبل خطرے میں ہے تو اگر ڈگری یا سند ہی جعلی ہو تو اس سے کتنی
تباہی ہوگی اس کا تصور ہی محال ہے۔ جعلی میٹرک کی سند والی ’’سزایافتہ ٹیچر‘‘
بچوں کو کیا علم دے سکتی ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے افراد تو سکول کا
چپڑاسی ہونے کے بھی مستحق نہیں ہوسکتے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ بدعنوانی کی
مرتکب ہونے پر مذکورہ خاتون سے ہولی فیملی ہسپتال کے وارڈ صاف کروائے جاتے۔
مریضوں کے بستروں کی چادریں دھلائی جاتیں یا پھر اسے جیل کی ہوا لگاکر نشان
عبرت بنایا جاتا ․․․اگریہ بھی نہ کیا جاتا تو کم از کم اسے وارننگ دے کر
رہا کردیا جاتا․․․․ مگر کسی بھی قیمت پراسے ٹیچر بنا کر طلباء و طالبات کا
مستقبل خطرے میں نہ ڈالا جاتا۔ پتا نہیں عدالت نے کس قانون کو مدنظر رکھ کر
یا کیا سوچ کر یہ فیصلہ دیا، مگر کم از کم یہ فیصلہ والدین ، اساتذہ اور
ملک کے سنجیدہ حلقوں کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ وہ تذبذب کا شکار ہیں کہ
مذکورہ عدالت نے یہ سزا سونیا ارشد کو سنائی ہے یا پھرخدیجہ ہائی سکول کی
طالبات کو ․․․؟ |