روزہ کا توبہ کے ساتھ کس قدر
گہرا تعلق ہے اور انسان کو حقیقتاً تائب بنانے میں روزہ کتنا اہم کردار
اداکرتا ہے ان باتوں کو جاننے کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ توبہ کا لغوی
معنی اور اس کا فلسفہ سمجھا جائے۔
توبہ کا لغوی معنی:
لفظ توبہ عربی زبان میں تَابَ یَتُوْبُ کا مصدر ہے جسکے معنی ہیں رجوع کرنا،
لوٹنا، اسی لئے و ہ بندہ جو اپنے گناہوں کو چھوڑ کر رب کی اطاعت کی طرف
لوٹتا ہے اسے تائب کہاجاتا ہے اور جب خلّاق عالم اپنے غضب کو چھوڑ کر اپنی
رحمت کی طرف رجوع فرماتا ہے اور بندے کے تمام گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے
تو اسے توّاب کہتے ہیں۔
ٖؒ فلسفہ توبہ:
کائنات میں ہر وہ شئی جس کو رب لمْ یزل نے تخلیق کیا، وجود عطا کیا، ساتھ
ساتھ اس شے کے لئے ایک راستہ بھی متعین کردیا، ایک Pathبھی اس کے لئے مقرر
کردیا اور اس شئی کو یہ سمجھا دیا، بتادیا کہ اگر تم اس مقرر کردہ راستے سے
ایک انچ بھی آگے یا پیچھے ہٹوگے یا اِدھر اُدھر بھٹکوگے تو تباہ وبرباد
ہوجاؤگے جیسا کہ خلاق عالم نے اپنی کتاب لاریب میں ارشاد فرمایا،’’
وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّہَا‘‘(اور سورج چلتا ہے اپنے اک
ٹھہراؤ کے لئے)’’وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ‘‘(اور چاند کے لئے ہم
نے منزلیں مقرر کیں) ’’وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ‘‘(اور ہر ایک ایک
گھیرے میں پیر رہا ہے)*َ لیکن کمال تعجب ہے، حیرانگی ہے کہ کلام ربانی جس
بات کو 1400 سال پہلے بیان کررہا ہے جدید تحقیق اور سائنسدان آج یہ بات کہہ
رہے ہیں کہ کائنات میں جو سیارے ، ستارے اور کہکشائیں اپنے اپنے مدار میں
چکر لگا رہے ہیں یا Orbitمیں گھوم رہے ہیں اگر وہ ایک انچ بھی ادھر ادھر
بھٹک جائیں تو کائنات میں قیامتیں برپا ہوجائیں اس کا اندازہ انہیں اس وقت
ہوا جب انہوں نے اپنی طاقتور خلائی مشینوں اور دوربینوں کے ذریعے کائنات
میں واقع دور دراز کہکشاؤں اور ان کے ستاروں کا مشاہدہ کیا اور یہ دیکھ کر
حیران رہ گئے کہ یہ ہولناک قیامتیں ہر روز کئی سیاروں، ستاروں اور کہکشاؤں
کو تباہ وبرباد کرکے صفحہ ہستی سے مٹارہی ہیں مگر اس سے بھی زیادہ تعجب کی
بات یہ ہے کہ ہماری زمین، ہمارا نظام شمسی، ہماری کہکشاں ان قیامتوں کے
اثرات سے محفوظ بھی ہیں اور ہم بے خبر بھی ہیں لیکن جس دن ہماری زمین، سورج
یا نظام شمسی کے تحت گھومنے والے سیارے ایک انچ بھی اپنے مدار( Orbit)سے
ہٹے تو اس دن نہ یہ سورج رہے گا نہ چاند اور نہ یہ زمین رہے گی سب کچھ تباہ
ہوجائے گا اور وہی دن قیامت کا ہوگا۔
انسان اور کائناتی اصول:
اب میں قارئین کی توجہ اس نکتے کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا کہ مندرجہ بالا
سطور میں بیان کردہ کائناتی اصول کے مطابق ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انسان
بھی اگر اپنے متعین کردہ راہ اور مقرر کردہ راستے (Path) سے ہٹے تو تباہ
وبرباد ہوجائے، صفحہ ہستی سے مٹ جائے، آپ کا ذہن ضرور یہ سوال کرے گا کہ وہ
کون سا راستہ ہے، کونسی راہ ہے جو انسان کے لئے مقرر کی گئی ہے؟
میں عرض کرتا ہوں کہ یہ وہ راہ ہے جس کو طلب کرنے کا حکم خالق کائنات دن
میں پانچ مرتبہ دیتا ہے۔ یعنی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (اے
اللہ ہمیں ہدایت دے سیدھے راستے کی) صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ
عَلَیْہِمْ (ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا) وہ کون لوگ ہیں جن پر
خالق کائنات نے انعام کیا، قرآن دوسرے مقام پر اس کا جواب یوں دیتا
ہیفَاُولٰءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ
النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاءِ والصَّالِحِیْنَ(انعام
یافتہ نبی ہیں اور صدیق ہیں اور شہید ہیں اور صالح ہیں) *یعنی معنی یہ ہوا
کہ اے اللہ ہمیں نبی کے راستے پر چلا ،صدیقین، شہداء اور نیک لوگوں کی راہ
عطا فرما۔خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اب کوئی انسان اپنے نبی کے راستے سے ہٹتا ہے
(جو کہ اس کے لئے مقرر کردیا گیا ہے) تو اسے تباہ ہوجانا چاہئے مثلاً قتل
وغارت گری کرتا ہے، زنا کرتا ہے، چوری کرتا ہے، شراب پیتا ہے، جوا کھیلتا
ہے، سود کھاتا ہے، نماز نہیں پڑھتا، روزہ نہیں رکھتا، زکوۃ وحج ادا نہیں
کرتا غرضیکہ وہ تمام احکامات جو اس کے نبی نے بتائے ان پر عمل نہیں کرتا تو
کائناتی اصول کے مطابق اسے صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہئے لیکن قربان جائیے
شان کریمی کے ، اس ذات پاک کی رحمت کے کہ انسان ایک بار نہیں، دوبار نہیں،
تین بار نہیں بلکہ ستر مرتبہ اپنے مقرر کردہ راستے سے ہٹتا ہے اور وہ اسے
ستر بار معاف فرمادیتا ہے (سبحان اللہ) یہ اس وحدہ لاشریک کی اپنے بندوں سے
کمال محبت ہے کہ اپنا بنایا ہوا کائناتی اصول بھی توڑ دیتا ہے۔
رب کی رحمت:
حدیث پاک میں آتا ہے عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قالَ رسولُ اللّٰہ صَلَّی
اللّٰہ علیہ وسلم اِنَّ الْعبدَ اِذا اعترَفَ ثمّ تابَ تابَ اللّٰہُ
علَیہ*سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک بندہ جب
اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے اور پھر توبہ کرتا ہے یعنی اپنے گناہوں کو
چھوڑ کر اس کی اطاعت کی طرف جاتاہے تو ’’تابَ اللّٰہُ علیہ‘‘ رب کائنات بھی
اپنے غضب کو چھوڑ کراپنی رحمت کی طرف رجوع کرتاہے اور اس بندے کی توبہ قبول
فرمالیتا ہے۔
بلکہ ایک حدیث میں تو یوں آتا ہے رب کائنات ارشاد فرماتا ہے لَا اُبالی یَا
ابنَ اٰدمَ (اے ابن آدم مجھے اس بات کی پرواہ نہیں) لَو بلَغَتْ ذُنُوبُکَ
عَنَانَ السَّمَآءِ (کہ اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندی تک پہنچ جائیں) ثمّ
اسْتَغْفَرْتَنِیْ غَفَرْتُ لَکَ (بس تو مجھ سے (رب کہہ کر) بخشش طلب کرلے
تیرے تمام گناہوں کو معاف فرمادوں گا) * یہ ہے توبہ کا مقام ومرتبہ اور اس
کی شان۔
روزے کا مقام ومرتبہ:
لیکن قربان جائیے عظمت رمضان کے، توبہ میں بندہ ہاتھ اٹھا کر، دامن پھیلا
کر گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہے لیکن رمضان کے مہینے میں بندہ اپنے رب کی
رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے اور بغیر دامن پھیلائے وہ اس کے گناہوں کو معاف
فرمادیتا ہے۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ بخاری ومسلم کی حدیث اس پر شاہد ہے
’’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَاناً وَ احتسَاباً غُفِرَ لہٗ مَاتَقَدَّمَ
مِنْ ذَنْبِہٖ‘‘ (جس نے رمضان کے روزے ایمان کی بناء پر اور حصول ثواب کے
لئے رکھے اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دئے گئے) *لہذا انسان کو حقیقتاً تائب
بنانے میں ،اللہ کی طرف رجوع کرانے میں جو کردار روزہ ادا کرتا ہے وہ بے
مثال ہے۔ |