مشورے نے چار دوستوں کی زندگی بدل دی

رواں سال ماہ فروری میں ایک دن سہ پہر کے وقت موبائل فون کی گھنٹی بجی ،انجان آواز والے نے اپنا نام سلمان بتایا، مختصر سلام دعا،حال احوال کے بعداپنا تعلق آزاد کشمیر سے بتایا اورذکر کیا کہ ا بھی پنجاب کے ایک تعلیمی ادارے میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر ملازمت کر رہا ہوں ۔میرا ایک کلاس فیلو دوست جبران ہے جو مجھ سے بھی زیادہ قابل اور اپنے کام میں ماہر ہے لیکن گزشتہ دو سال سے بے روزگاری کی زندگی گزار گزار کر تھک سا گیا ہے ،ایسا لگتا ہے کے کسی دن وہ کوئی انہونی ہی نہ کر دے ۔ سلمان کی بات میں طوالت آتی دیکھی تووقت کی قلت کا ادراک کرتے ہوئے میں نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ سلمان میاں آپ مختصراً اپنا مدعا بیان کریں اور اصل بات کی طرف آئیں کہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔سلمان نے کہا کہ آپ ہمیں وقت دے دیں گے کب آپ ہمیں کم سے کم دو گھنٹے کا وقت دیں گے؟ ہم کچھ دوست آپ سے ملنے آئیں گے تو تفصیلی بات کریں گے ۔میں نے کہا میرے پاس آپکے لیے وقت نکالنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا ، لہٰذہ آپ لوگوں کا جب پروگرام بنے ،مجھے اطلاع کر دیں میں حاضرخدمت ہو جاؤں گا ۔سلمان نے دوسرے دن ہی کال کر کے ملاقات کیلئے جگہ اور وقت کا تعین میری مشاورت سے کر لیا ۔وقت مقررہ جو شام کا طے پایا تھا سے پہلے ہی پارک میں سلمان اور اس کے تین دوست بیٹھے میرا انتظارکر رہے تھے، میں بھی وقت پر پہنچ گیا ۔سلام دعا کے بعد تعارف کا سلسلہ شروع ہوا تو سلمان نے بتایا کہ عاقب کا تعلق مانسہرہ،جبران اور رئیس کا تعلق بھی آزاد کشمیر سے ہے ،چار دوستوں میں دو نے انجنئیرنگ کے شعبہ میں اور دو نے ابلاغ عامہ کے شعبہ میں ماسٹرز ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں ۔ میرا صحافتی تعارف کرایا گیا اور سلمان کی طرف سے میرے ایک کالمز جو'ہاسٹل لائف 'کے عنوان سے لکھا گیا تھا کا ذکر بھی چھیڑا گیا(جس کا ان سے ذکر ہاسٹل مالک کی طر ف سے کیا گیا تھا،جس میں ہاسٹل لائف زدہ ایک طالب علم کا ذکر کیا گیا تھا ) ۔تعارف کے بعدسلمان کا کہنا تھاکہ ماسٹرز ڈگری کے بعد گزشتہ ڈھائی سال سے ہم چاروں بے روزگار رہے ہیں ، سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں چاروں دوستوں نے cv's جمع کرانے اور انٹرویوز دینے میں وسیع تجربہ حاصل کر رکھا ہے ۔ابلاغ عامہ کے ڈگری ہولڈرز نے بتایا کہ پی ٹی وی ، ایکسپریس نیوز،ڈان ،نوائے وقت ،ریڈیو پاکستان،جنگ گروپ،خبریں سمیت دیگر بڑے صحافتی گروپس میں بھی نوکری کیلئے اپلائی کر چکے لیکن نا تجربہ کاری،رشوت اور ریفرنس نہ ہونے کی وجہ ان اداروں کے دروازے ہمارے لیے بند ہیں،جبکہ ان دونوں نے کچھ دیگر صحافتی گروپس میں چند مہینوں تک کام کا تجربہ حاصل کر رکھا ہے جہاں انہیں کہا گیا کہ تنخواہ تو ماہانہ دی جائے گی لیکن ادارے میں اچھی رپورٹس کی نہیں 'بزنس 'کی ضرورت ہے اس لیے خود بھی کمائیں اور ہمیں بھی دیں۔ ہم دونوں اخبارات کے بزنس لین دین کے معاملات سے نابلد ہونے کی وجہ سے جلد ہی اداروں سے باہر کر دیئے گئے۔جبکہ سلمان کو 8ماہ قبل اس کے ایک دور کے رشتے دار نے جو ایک تعلیمی ادارے میں بڑے عہدہ پر فائز ہیں نے کچھ سخت شرائط کے بعد کنٹریکٹ پر نوکری دلا دی تھی،جبکہ اس نوکری سے آمدن 16ہزارروپے ماہانہ دی جاتی ہے۔ان دوستوں کی گفتگو سے علم ہوا کہ چاروں دوست گزشتہ پانچ،چھ سال سے ایک ساتھ ہاسٹل میں رہ رہے ہیں اور اچھے اور بْرے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے ہیں، ہاسٹل اور دیگر اخراجات گھر والوں کی طرف سے بھیجی گئی رقوم سے چاروں مل کرچلا لیتے ہیں، دونوجوانوں کا تعلق سیاسی تنظیم تحریک انصاف اور دو کا ن لیگ سے ہے لیکن یہ تعلق انہیں ابھی تک کوشش کے باوجود نوکری دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکاہے ۔ جبران نے بتایا کہ ہمیں نوکری کی تلاش کے دوران کچھ جرائم پیشہ گروہ ایسے بھی ملے ہیں جو منشیات سمگلنگ و دیگر جرائم میں مبتلا تھے وہاں سے ہمیں بھی نوکری کی آفر ہوئی لیکن ہم نے یہ آفرز ٹھکرا دیں۔ سلمان نے بتایاکہ میرے والد لیبیا میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اورایک بڑا بھائی یوا اے ای پلٹ اورگزشتہ دوسال سے گھر پر بے روزگاری کے دن گزار رہا ہے۔عاقب کے والد حیات نہیں ہیں اس کا بھائی پولیس میں ملازمت کرتا ہے جو گھر کا نظام اور عاقب کے اخراجات برداشت کرتا آرہا ہے۔جبران کے والد ریٹائیرڈ سرکاری ملازم اوردل کے عارضہ میں مبتلا ہیں،زندگی بھر کی جمع پونجی، پنشن والد کے علاج اور جبران کی تعلیم پر خرچ کر چکے ، جبکہ رئیس کی والدہ13 سال پہلے اپنے میاں سے علیحدگی اختیار کرنیکے بعد اپنے مہکہ میں قیام پذیر ہیں، اپنی ماں اور دو بہنوں کے ساتھ وہ ننھیال میں رہتاہے تما م اخراجات اس کے ننھیال والے ہی برداشت کرتے آ رہے ہیں۔مختصراً یہ معلوم ہوا کہ چا روں نوجوان، انکے والدین اور دوست احباب انکی بے روزگاری کے حوالے سے پریشان ہیں ۔ نوجوان سوال کر رہے تھے کہ ملک کی حالت کب تک ایسی رہے گی ؟ تعلیم یافتہ طبقہ سڑکوں پر اور سفارشی اچھی پوزیشنوں پر کب تک بیٹھیں رہیں گے ؟میرٹ کی پامالیاں ہمارے سامنے ہو جاتی ہیں لیکن ہم خاموش اس لیے رہ جاتے ہیں کیوں عدلیہ و حکومت سے بھی انصاف کی توقع نہیں ہوتی؟بے روزگاری کا فیکٹر اتنا عام ہو گیا ہے کہ آج ہم میں سے ہر ایک اس بات پر راضی ہے کہ ہمیں اپنے شعبہ کے علاوہ بھی کہیں معقول آمدن والی نوکری مل جائے تو بخوشی کر لیں گے ؟ ۔ آخر میں مجھ سے مشورہ مانگا گیاکہ ہم اب ایسا کیا عمل کریں کہ ہمارے اور ہم جیسے لوگوں کے یہ مسائل حل ہو سکیں ۔

تفصیلات جاننے کے بعد میرے لیے اْن چاروں نوجوانوں کے ان سوالات کا جواب دینا خاصا مشکل ہو رہا تھاکیونکہ میں سوچ رہا تھا کہ ایسا نہ ہو کے یہ چاروں مزید مایوس ہو جائیں اور بے روزگاری و مایوسی انہیں جرم کی دنیا میں لے جائے جہاں سے ان کا سلامت لوٹنا ممکن نہ ہو۔طرح طرح کے وسوسے ذہن میں آرہے تھے۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد میں نے ان سے صرف اتنا کہا کہ آج ملک کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں سرمایہ داروں نے اپنے حجم کو مزید بڑھانے کیلئے غیر قانونی کاروبار ،منشیات ،اغواء برائے تاوان ،جرائم بھتہ خوری ،کرپشن ،سمگلنگ عام کر دی ہے ،یہ سرمایہ کارسیاست،معاشرت و حکومت میں شریک کار ہو کر اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ ان کا توڑ اب ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔سرکاری اداروں مین سیاست بازی اور میرٹ کی پامالیاں عام ہو رہی ہیں ،ایسی صورتحال میں سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں روزگار کے مواقع بنا بھاری رشوت وبڑی سفارش کے ملنا ممکن نظر نہیں آتا ۔آپ لوگ ایساکریں کہ جن اداروں سے آپ نے یہ ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں ان اداروں کے سربراہوں اور وہاں اپنے شعبہ کے چیئرمینوں سے ملیں اور اصل صورتحال کا بتائیں اور زور دیں کہ ہم آپ کے ادارے سے پڑھ کر اب تک بے روزگار ہیں ،ادارے کے سربراہ کے نام لیٹر لکھیں کہ ہمیں کیا مسائل درپیش ہیں؟بتائیں کہ ہماری بے روزگاری کی وجہ سے ادارے کا نام بھی خراب ہو رہا ہے،ادارے کی ڈگری کی اہمیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور ادارے کے منتظمین و سٹاف کی مہارت پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں لہذا ہمارے جاب کا بندوبست کرنے میں مد د کریں ۔امید ہے اس عمل کے بعد وہاں سے جلد آپ کو تسلی بخش جواب آجائے گا کیونکہ ادارے کے ذمہ داران کو اپنی ساکھ بچانے کیلئے آپ لوگوں کو ایڈجسٹ کرانے میں اب دلچسپی مجبوری کی صورت میں ہو گی۔بات رہی تجربہ نہ ہونے کی تو میں آپ لوگوں کوآپ کے شعبہ جات کے مطابق'' تجربہ کا لیٹر '' بنوا نے میں آپ کی مدد کر نا میری ذمہ داری ہے۔ملاقات ختم ہوئی ،اگلے دو ،تین دن کے اندر ان چاروں کو '' تجربہ کے لیٹر '' کے ساتھ تعلیمی اداروں کے سربراہ کے نام لکھے جانے والے خطوط کے مسودہ جا ت تھما دئیے گئے ۔ اس کے بعد سے میرا ان نوجوانوں سے رابطہ نہ ہوا تھا۔گزشتہ ماہ ایک صبح مجھے موبائل پر سلمان کی کال آئی ،اس نے تفصیلات بتائے بغیر ملاقات کیلئے وقت مانگا ۔وقت اور جگہ کا تعین ہوا۔ملاقات ہوئی تو چاروں نوجوانوں کے چہرے کھلے کھلے تھے،انہوں نے بتایا کہ آپ کی ترکیب نے کام دکھا دیا ،ابلاغ عامہ کے دونوں طلباء کو ان کے اپنے تعلیمی ادارے نے ہی کنٹریکٹ کی بنیاد پر ایڈجسٹ کر لیا اور انجنیئرنگ کرنے والے دوسرے نوجوان کو ادارے کے سربراہ کے توسط سے لاہورکے ایک اچھے ادارے میں نوکری دے دی گئی ۔(میں نے اس وقت اﷲ پاک کا شکریہ ادا کیا) ۔چاروں دوست اب خوش تھے اور انہوں نے مجھے آج اپنی خوشیوں میں شریک ہونے اور سرپرائز دینے کیلئے کھانے کی دعوت پر بلایا تھا ،ان چاروں کی خوشی میں مجھے اپنا ئیت سی محسوس ہو رہی تھی ،ہم پانچوں دیر تک بیٹھے مختلف موضوعات پرگپ شپ کرتے رہے ۔اس پوری کہانی کو سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ مسائل و مشکلات اپنی جگہ لیکن ہمت نہیں ہارنا چاہیے،معاشرے میں مشاورت کے عمل کو جاری رہنا چاہیے ،ضروری نہیں کہ تمام بے روزگاروں کو یہی ترکیب کام دے جائے، اپنے تئیں بھی مسائل سے چھٹکارا پانے کیلئے کوشش کی جانی ضروری ہیں ۔مشاورت کا عمل اس لیے بھی ضروری ہے کہ کیا معلوم کسی کا ایک بہترین مشورہ زندگیوں میں بڑی تبدیلیا ں لانے میں مدد کر دے ۔رہی بات ملکی حالات کی تو یہ جلد سدھرتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66228 views Columnist/Writer.. View More